چند سال قبل اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے کے بعد سےتلنگانہ کی فری لانس صحافی تلسی چندو کو آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے ویڈیوکی وجہ سے انہیں’اینٹی ہندو’، ‘اربن نکسل’ اور ‘کمیونسٹ’ کے طور پر برانڈ کیا جا رہا ہے۔ اب ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملنے لگی ہیں۔
نئی دہلی: تیلگو صحافی تلسی چندو کے لیے ٹرولنگ اور آن لائن ہراسانی اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اپنا یوٹیوب چینل ‘تلسی چندو‘ شروع کرنے کے بعد سےتین سالوں میں اس 36 سالہ فری لانس صحافی کو ‘اینٹی ہندو’، ‘اربن نکسل’ اور ‘کمیونسٹ’ کے طور پر برانڈ کیا گیاہے۔
تاہم، گزشتہ ہفتے ایک فیس بک پوسٹ میں چندو نے کہا تھا کہ انہیں اپنی جان کاخطرہ ہے۔
گزشتہ 24 جون کو انہوں نے فیس بک پر تلگو زبان میں لکھا، ’کسی دن، کچھ معصوم نوجوان جس پارٹی سے وہ پیار کرتے ہیں ، اس میں بھری نفرت کو تلوار یا گولی میں بدل کر مجھ پر حملہ کریں گے۔‘
انہوں نے کہا تھا، ‘وہ مجھ سے نفرت کر رہے ہیں، کیونکہ میں کہہ رہی ہوں کہ مذہبی نفرت کسی بھی ملک کے نوجوانوں کے لیے سب سے خطرناک چیز ہے۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے چندو نے کہا کہ صحافتی زندگی کے اپنےپندرہ سالوں میں انہوں نے کبھی اتنا ڈر محسوس نہیں کیا۔
انہوں نے کہا، ‘ابھی بہت ڈر لگ رہاہے۔ مجھے اپنے چھوٹے بچوں (پانچ اور 12 سال کی عمر)، اپنی بوڑھی ماں کے لیے ڈر لگتا ہے۔ میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہے، لیکن میں اکیلی عورت ہوں اور وہ ایک تنظیم کی صورت میں مجھ پر حملہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘وہ میرے ویڈیوکو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے ، وہ براہ راست مجھ پر ذاتی حملہ کر رہے ہیں، مجھے شرمسار کر رہے ہیں اور مجھے اینٹی ہندو کے طور پر مشتہر کر رہے ہیں، حالانکہ میں نے ہندو مذہب پر کوئی ویڈیونہیں بنایا ہے۔ میرے ویڈیو کا مقصد صرف لوگوں کو آگاہ کرنا اور موجودہ سیاسی مسئلے کی تصویرپیش کرنا ہے۔
چندو نے کہا کہ ان کے یوٹیوب چینل شروع کرنے کے تین ماہ کے اندر ہی یہ بدسلوکی شروع ہوگئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا، اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے کے تین ماہ بعد میں نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) کیسے ایک ہی ہیں۔ ‘ڈیئر پیپل ریلیزن از کمنگ، وی اویئر’ عنوان والے ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ دونوں جماعتیں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کر رہی ہیں۔
ان کے مطابق، ‘یہ ویڈیو بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا اور بہت تیزی سے وائرل ہو گیا۔تبھی جب مجھے پہلی بار دائیں بازو کے ہندو گروپوں کی طرف سے دھمکیاں اور گالیاں ملنا شروع ہوئیں۔
چندو نے کہا کہ یوٹیوب پر ان کے ویڈیو پر تبصرہ کرنے کے علاوہ، لوگوں نے بدسلوکی کےارادے سے انہیں فون کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے کہناشروع کردیا کہ ‘آپ صرف ہندوؤں کو ہی سیکھ کیوں دیتی ہیں دوسرے مذاہب کو کیوں نہیں؟’
انہوں نے کہا، ‘چونکہ میں ایک صحافی ہوں، اس لیے لوگوں کو میرا نمبر آسانی سے مل سکتا ہے۔ مجھے کینیا سے بھی فون آئے ہیں، جن میں گالی گلوچ کی گئی اور کہا گیا کہ ہندوؤں کو نصیحت کرنے والی تم کون ہوتی ہو؟
ہندوستان میں 1992 سے 2023 کے درمیان 91 صحافی مارے گئے
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق ، 1992 سے 2023 کے درمیان ہندوستان میں 91 صحافی مارے گئے۔
پیرس واقع میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے گزشتہ مئی میں جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا 21 واں ایڈیشن جاری کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پریس کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان 180 ممالک میں 161 ویں مقام پر ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہندوستان کی رینک11 درجے نیچے گری ہے۔ سال 2022 میں ہندوستان 150 ویں مقام پر تھا۔ اس طرح، ہندوستان ان 31 ممالک میں شامل ہے جہاں آر ایس ایف کا مانناہے کہ صحافیوں کے حالات ‘انتہائی سنگین’ ہیں۔
ہندوستان کی اس طرح کی درجہ بندی کیوں کی گئی ہے، اس بارے میں اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ، ‘صحافیوں کے خلاف تشدد، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کا سینٹرلائزیشن یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ 2014 سےبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور ہندو راشٹر واد کے اوتار نریندر مودی کی حکومت والی’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ میں پریس کی آزادی خطرے میں ہے۔
سوشل میڈیا کی طاقت
تلسی چندو نے آزادانہ طور پرصحافت میں اپنا کیریئر شروع کرنے سے پہلے ای ناڈو، آندھرا جیوتی اور ساکشی کے علاوہ مشہور تیلگو اخبارات کےساتھ کام کیا ہے۔
چندو نے کہا، جب میں’نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا’ کی ممبر بنی، تو میں آزاد خواتین صحافیوں کے کام سے متاثر ہوئی اور اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے سوشل میڈیا کی طاقت دیکھی اور اپنے فون سے ویڈیو بنانا شروع کر دیا۔ تقریباً تین ماہ پہلے تک میں اپنے فون اور کمپیوٹر سسٹم پر اپنا ویڈیوایڈٹ بھی کر رہی تھی۔ اب میرے پاس ایک ویڈیو ایڈیٹر ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم اور بی جے پی کے بارے میں ویڈیو بنانے پر بدسلوکی کے باوجود چندو نے اسے سنجیدگی سے لینے اور اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا،’میں نے اس حوالے سے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، کیونکہ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ ایک صحافی کے لیے اس طرح کی گالیاں بہت عام سی بات ہے۔ تب مجھےایسی دھمکیاں نہیں ملی تھیں، یہ صرف بدسلوکی تک محدود تھا۔
چندو نے کہا کہ انہوں نے اپنے یوٹیوب ویڈیو میں قومی سیاست پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا، تیلگو میڈیا کی توجہ قومی سیاست پر نہیں ہے، اس لیے میں نے اپنے ویڈیو میں قومی ترقی اور مسائل کو پیش کرنے کے بارے میں سوچا۔
سال2020 میں جب کسانوں نے تین زرعی قوانین کے خلاف دہلی میں اپنی تحریک شروع کی تو چندو نے کسانوں کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ویڈیو بنائے۔
چندو نے کہا، ‘میں نے ایک ویڈیو بنایا، جس میں بتایا گیا کہ کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو پر کیے گئے تبصروں میں مجھے ملک دشمن کہا گیا اور میرا ان باکس پیغامات سے بھر گیا۔
انہوں نے کہا،’میں نے صبروتحمل کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کی، جو میری سب سے بڑی غلطی تھی، کیونکہ مجھے اپنے یوٹیوب ویڈیوز پرآئے کمنٹ کا جواب دینے کی عادت ہے، لیکن ٹرولنگ نہیں رکی۔’
‘اینٹی ہندو’ قرار دے کر نفرت اور بدسلوکی
اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کردہ 337 ویڈیومیں چندو نے تمام حکومتوں سے سوال کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو۔ تاہم، چندو نے کہا کہ دائیں بازو کے ٹرول ہمیشہ انہیں ‘ہندو مخالف’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا،دائیں بازو کے چینلوں نے مجھے ہندو مخالف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ،کیونکہ میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح دی کشمیر فائلز ایک پروپیگنڈہ فلم تھی۔ میں نے گجرات فسادات اور بلقیس بانو اور سنجیو بھٹ، کرناٹک حجاب تنازعہ وغیرہ پر وضاحتی ویڈیو بنائے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ 5 جنوری 2022 کو، چندو نے ‘پادری پرم جیوتی راجو’ نامی فیس بک پیج پر ان مورف شدہ تصاویر اپ لوڈ کرنے کے بعد ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
تلنگانہ کے وزیر کے ٹی راما راؤ نے ٹوئٹر پر پولیس کو اس سلسلے میں کارروائی کرنے کی ہدایت دی، حالانکہ چندو نے کہا کہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
گزشتہ 26 جون کو صحافی تلسی چندو نے ایک اور ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
اس بار پادری پرم جیوتی راجو کے فیس بک پیج کے ساتھ ساتھ تین یوٹیوب چینلوں (@Ahambramhasmiol، @rjkiran379 اور @Mathonmadampairambana) کو نامزدکیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ تین یوٹیوب چینل مجھے گالی دیتے ہیں اور دوسروں کو یہ کہہ کر اکساتے ہیں کہ ‘اگر آپ حقیقی ہندو ہیں تو جاکر اس کے چینل کو رپورٹ کریں’، ‘اس اربن نکسل کو بے نقاب کریں’۔ وہ مجھے کمیونسٹ کہتے ہیں اور ‘ہمیں اسے مارنا ہوگا’، ‘ہمیں اس کی اندام نہانی میں سلاخیں ڈالنی ہوں گی’، ‘ہمیں اسے مارنے کے لیے دہشت گردوں کے حوالے کرنا ہوگا’ جیسے تبصرے کرتے ہیں۔
چندو کے مطابق، یہ چینل ان کےویڈیو کے نیچے کمنٹ سیکشن میں اپنے ویڈیو لنک پوسٹ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘میرے ناظرین فطری طور پریہ ویڈیو دیکھتے ہیں اور مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ بے نام اور بے چہرہ اکاؤنٹس مجھے فیس بک اور انسٹاگرام پر پیغامات بھیجتے ہیں اور مجھے مسلسل گالیاں دیتے ہیں۔
گزشتہ 26 جون کو درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘ان یوٹیوب چینلوں اور فیس بک پیجز نے شکایت کنندہ کے خلاف مختلف ویڈیو بنائے ہیں، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہندو مذہب کے خلاف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ شکایت کنندہ کو منفی انداز میں پیش کرکے اور ہندو مذہب کے بارے میں اس کے خیالات کو غلط انداز میں مشتہر کرکے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ملزم شکایت کنندہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
چندو نے کہا کہ مسلسل بدسلوکی کا یہ سلسلہ ان کے 12 سالہ بیٹے تک بھی پہنچ گیا ہے، جسے اب اپنی ماں کی جان کا خوف ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کیونکہ وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ وہ اصرار کرتا رہتا ہے کہ ‘اماں اسے بند کرو، یہ سیاسی ویڈیو نہ کرو، ہم تمہیں کو کھونا نہیں چاہتے’۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس طرح کے حملوں اور اپنی جان و سلامتی کو لاحق خطرے کی وجہ سے صحافت چھوڑنا چاہتی ہیں،تو چندو نے اس سے انکار کر دیا۔ وہ کہتی ہیں،’نہیں، یہ میرا جنون اور میرا ذریعہ معاش ہے۔ میں سماجی خدمت نہیں کر رہی ہوں۔ یہ میرا کام ہے۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔