ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹکر، ان کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے سکیورٹی اہلکاروں کے استعمال کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے-ان کا وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے، وہ اقتدار جس کی نمائندگی وہاں ہرجگہ موجود فوج کر رہی ہے۔
کشمیر میں سب کچھ معمولات پردکھانے کی بی جے پی حکومت کی کوششیں ویسے تو کبھی بھی یقین کے قابل نہیں تھیں، لیکن ان کا جھوٹ اب سب کے سامنے آ گیا ہے۔ سرکاری پروپیگنڈہ ناکام ہو گیا ہے اور کشمیریوں کے حالات سامنے آنے لگے ہیں۔
سرکاری ذرائع اور حکومت کی خیر خواہ میڈیا چاہے جو کہے، اب دنیا کو، ایک حد تک یہ پتہ ہے کہ کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے۔ حکومت کے پہلو کو مضبوط کرنے والے پیغام کو آگے بڑھانے کا کام کرنے والے سوشل میڈیا نے اپنی طرف سے’حالات ‘ کو نارمل دکھانے کی پرزور کوشش کی ہے، لیکن پارٹی کے شدت پسند بھکتوں اور ا س کے رہنماؤں کے علاوہ کوئی بھی اس پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کر رہا ہے۔عام کشمیریوں کے ساتھ اجیت ڈوبھال کے کھانا کھانے کا ایک تنگ فریم میں فلمایا گیامنظر اتنے ہی وقت تک کسی کام کا تھا، جب تک وادی سے کوئی تصویر یا خبر باہر نہیں آئی تھی۔
ویسے بھی اس کا نقلی پن اب سب کے سامنے ہے۔ لیکن پھر بھی چینلوں نے اس خبر کو کافی جگہ دی اور اس کو اس بات کو مثال کے طور پر پیش کیا کہ دفعہ 370 ہٹانے اور ریاست کا درجہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد کشمیری کتنے آرام سے ہیں۔ لیکن بہت جلدی ہی کشمیر سے پریشان کرنے والی خبریں اور تصویریں باہر آنے لگیں۔
ٹیلی ویژن چینلوں اور نیوز ایجنسیاں یہ ڈھنڈورا پیٹتی رہیں کہ سب کچھ شاندار ہے اور اس سے الگ کوئی بھی رائے ملک مخالف ہے۔ لیکن آپ عوام کو ایک حد تک ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ہندوستان کے لوگ اور پوری دنیا یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس قدم کو لےکر کشمیری کیا سوچتے ہیں اور ابلاغ کے کسی بھی ذرائع غیر موجودگی میں فوری طور پر یہ جان پانا ممکن نہیں تھا۔
لیکن صحیح معنوں میں آزاد صحافیوں کے کشمیر جانے کے بعد سچائی باہر آئے بغیر نہیں رہ سکی۔ وہ واپس آئے تو پوری برادری کو نظربند کر لئے جانے، ان کے ڈرے ہوئے اور غصے میں ہونے اور مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لئے طاقت کا استعمال اور لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پورا نہ ہونے کی کہانیاں ان کے ساتھ تھیں۔
پیلیٹ گن کے زخم بےحد ڈراؤنے ہیں اور جو ویڈیو باہر آئے ہیں، انہوں نے ناظرین کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے، لیکن تکلیف کو بیان کرنے والی دوسری کہانیاں بھی دل کو کم دکھانے والی نہیں ہیں۔ریاست کے باہر رہنے والے کشمیریوں نے بھی تکلیف کو برداشت کیا ہے ؛وہ اہل خانہ سے رابطہ نہیں قائم کر پائے ہیں اور عید کا تہوار جو ایک بڑا جشن ہوتا ہے، اس بار غم کے ماحول میں منایا گیا۔
پھر بھی یہ کہانیاں چاہے کتنے ہی ڈرامائی کیوں نہ ہوں، لیکن ابھی کشمیریوں پر کیا بیت رہی ہوگی،یہ کہانیاں اس کا ایک حصہ بھی بیان نہیں کرتی ہیں۔ہم بس اپنے گھروں میں قید کشمیری-جن کے پاس باہر کی دنیا میں کیا چل رہا ہے، یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، نہ ہی کسی سے ملنے کا کوئی راستہ ہے اور جو اپنے مستقبل کو لےکر پوری طرح سے اندھیرے میں ہیں-کہ روز کی ناامیدی اور بےعزتی کے احساس کا اندازہ بھر لگا سکتے ہیں۔
بہت بڑے تاریخی فیصلے لئے گئے ہیں، جو ان کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے والے ہیں۔ باقی ملک کے سامنے اس کو کشمیریوں کے مفاد میں ہی اٹھائے گئے فیصلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ویتنام جنگ کے دوران ایک الٹ بانسی چلتی تھی،’ہمیں گاؤں کو بچانے کے لئے، اس کو تباہ کرنا ہوگا ‘۔ یہ جملہ حکومت کے رویے کا بھی نچوڑ ہے، جو اپنے فائدے کے لئے کشمیریوں کو اپنے قابو میں کرنا چاہتی ہے۔سب سے بڑی بات، یہ کام صرف بزور قوت نہیں کیا جانا ہے۔ کیوں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ان کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس ساری قواعد کا ایک مقصد ان کو ذلیل کرنا ہے۔
ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹکر، ان کو قابو میں رکھنے کے لئے سکیورٹی اہلکاروں کا استعمال، اور روز روز کے توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے-ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے، وہ اقتدار جس کی نمائندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کر رہی ہے، جو ان کی روز مرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے۔
تاریخی مثالیں
تاریخ میں ہمیں حکومتوں کے ذریعے عوام پر غلط طریقے سے طاقت کی آزمائش کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ نسلی امتیازات جنوبی افریقہ اور اس سے پہلے اس ملک کی انگریزی ایڈیشن افریقیوں کو لگاتار اس بات کی یاد دلانے پر ٹکا ہوا تھا کہ وہ اپنی ہی زمین پر دوئم درجے کے شہری ہیں۔
ان کو ان کے لئے نشان زد خصوصی علاقوں اور نواحی شہروں میں رہنے کے لئے مجبور کیا گیا اور بعد میں گوری حکومت نے چھوٹے-چھوٹے ‘ ملک ‘ بنائے، جن کو بانٹوستان کہا گیا، جہاں ‘بلیک’ کی اپنی حکومتیں تھیں۔لیکن روز کی زندگی میں افریقی کو کہیں آنے-جانے کے لئے خاص حکم نامے کی ضرورت ہوتی تھی اور اور ان کو سورج ڈھلنے سے پہلے گوروں کے علاقے کو چھوڑنا ہوتا تھا۔
جنوبی افریقہ میں سرمایہ دارانہ حکومت کے دوران مہاتما گاندھی کو نیٹال کے پیٹزمارتجبرگ میں فرسٹ کلاس کے ڈبے سے باہر پھینک دئے جانے کے توہین آمیز تجربے سے گزرنا پڑا اور اس نے ان کو بدلکر رکھ دیا۔جب وہ ہندوستان آئے تب انہوں نے دیکھا کہ انگریزی حکومت میں ان کے ہندوستانی بھائیوں کو ایسے ہی تجربات سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ اس نے ان کو برٹش حکومت سے لڑنے کے لئے ترغیب دی۔
اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو ہی روز بروز ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ مزاحمت تحریکوں کو ختم نہیں کر پائی ہے، جواسرائیلیوں کو پریشان کرتا رہتا ہے۔
فلسطن مں دیوار پر بنا گرافٹی،فوٹو بہ شکریہ؛freedombuspalestine.blogspot.com
کشمیر میں کئی لاکھ فوجی بھی ملکر مقامی لوگوں کو بغاوت کرنے سے روک نہیں پائے ہیں اور اب یہ مزاحمت اور تیز ہوگی جب کشمیریوں کو یہ محسوس ہوگا کہ ان کے پاس اب کھونے کے لئے اور کچھ بچا ہوا نہیں ہے۔طاقت چاہے کتنی ہی برہنہ صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو، وہ بنیادی عزت نفس اور آزادی کی انسانی خواہش کو دبا نہیں سکتی۔
اقتدار کی تشکیل ہی لوگوں کے عزت نفس کو اغوا کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور کشمیریوں نے پچھلے کئی سالوں میں اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔ اب وہ نہ صرف اپنی زمین، بلکہ عزت نفس بھی کھو دیںگے۔پہلے ہی ان کو دور رہ رہی فیملی کو چھوٹا-سا فون کال کرنے کے لئے گھنٹوں کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے-آگے کیا ہونے والا ہے، اس کے بارے میں بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ان کی تکلیف کی حد کے بارے میں جان پانا مشکل ہے، لیکن ایک ایسی زندگی کا تصور کیجئے جس میں آپ کو ہر دن کئی بارسکیورٹی سے گزرنا پڑے، سامان خریدنے جاتے وقت کسی جوان کی پوچھ تاچھ کا سامنا کرنا پڑے، آپ کے بچے کو پوچھ تاچھ کے لئے آپ سے دور لے جایا جائےگا اور پھر آپ کو یہ کہا جائے کہ آپ کو ایک دن میں فون کال کرنے کے لئے چار منٹ کا ہی وقت ملےگا اور یہ کال بھی آپ کسی سرکاری دفتر سے ہی کر سکتے ہیں! یہ آپ کے لئے توہین آمیز ہوگا۔
آج کے ہائی-کنیکٹوٹی زمانے میں جب ابلاغ کے ڈھیروں ذرائع تک لوگوں کی پہنچ بےحد عام بات ہے، کسی کو انٹرنیٹ، لینڈلائن، موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں دینا، ان کو پرانے زمانے میں دھکیل دینے کی مانند ہے۔فی الحال لاکھوں لوگ اسی حال میں جی رہے ہیں اور کسی کو یہ نہیں پتہ ہے کہ یہ سب کتنے دنوں تک چلنے والا ہے۔
حکومت کی منشا
کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370، جو کہ ایک آئینی قرار تھا، کو ہٹانے کے پیچھے حکومت کی منشا کیا ہے، اس کے بارے میں صرف قیاس ہی لگایا جا سکتا ہے۔یہ کشمیریوں کو دیا جانے والا یہ بھروسہ تھا کہ ان کے حق محفوظ ہیں۔ ساتھ ہی یہ دنیا کو دکھاتا تھا کہ ہندوستان اپنے وعدوں پر قائم ہے۔
یہ صحیح ہے کہ یہ بی جے پی کا ایجنڈہ تھا، لیکن ہر انتخابی وعدہ پورا نہیں کیا جاتا۔ اس لئے یہ سوال بنتا ہے کہ اس حکومت کو یہ سب کرنے کی اتنی جلدبازی کیا تھی، جبکہ اس کو دوبارہ منتخب ہو کر آئے تین مہینے کا بھی وقت نہیں گزراتھا۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ سب کشمیر کو ہندوؤں سے بھرکر وہاں مسلمانوں کو اقلیت بنا دینے کے ہندووادی ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے، تو کوئی اس کو عالمی جیو-پالٹکس سے تو کوئی بڑے صنعت کاروں اور ڈیولپرس کے لئے زمین دستیاب کرانے کے کھیل سے جوڑکر دیکھ رہا ہے۔ یہ سب سچ ہو سکتا ہے۔
لیکن صرف زمین کے ٹکڑے پر اختیار سے زیادہ دلچسپ لوگوں کی زندگی پر قابو پانا ہے۔ یہ اس نظریے کے تاناشاہی رجحان کو اور خاص طور پر اس حکومت کو چلانے والوں کو بھاتا ہے۔ان کے پاس شہریت یا انسانی حقوق جیسے تصوارت کے لئے کوئی وقت نہیں ہے۔ کشمیری مسلمان ہیں، اس لئے ان کو ماتحت بنایا ہی جانا چاہیے اور ان کو ذلیل کیا جانا چاہیے، تاکہ ان کو یہ پتہ چل سکے کہ ان کا مالک کون ہے۔
ظاہر ہے، یہ سب یہیں نہیں رکےگا۔ اس فارمولے کو ملک کے دوسرے حصوں میں آزمانے کے لئے لاء اینڈ آرڈر کو پہلے ہی دفن کیا جا رہا ہے۔الگ الگ طریقے اپنائے جائیںگے، لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے-طاقت کے زور پر عوام کو قابو میں رکھنا۔ پورے ملک میں جس طرح کی فتح کانعرہ لگا ہے، اس نے یقینی طور پر حکومت کو پرجوش کیا ہوگا۔
لوگ اصل میں چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کو منضبط کیا جائے۔ کشمیری ایسا نہیں چاہتے ہیں، لیکن ان کی پرواہ کس کو ہے؟