کرناٹک کے ہبلی کے کسان رہنما کسانوں کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے مدھیہ پردیش کے راستے دہلی جا رہے تھے، لیکن جب وہ بھوپال ریلوے اسٹیشن پر اترے تو پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔ وزیر اعلیٰ سدارمیا نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ اس فعل کے پیچھے مجرمانہ ذہن وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکز کی بی جے پی حکومت کا ہے۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ سدارمیا)
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے ہبلی کے کسان رہنماؤں کی گرفتاری پر کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے سوموار (12 فروری) کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسان منگل کو دہلی میں شروع ہونے والی کسان تحریک میں حصہ لینے کے لیے کرناٹک سے مدھیہ پردیش کے راستے دہلی جا رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ نے ایکس پر لکھا، ‘مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے ہبلی کے کسانوں کی گرفتاری، جب وہ کل (منگل) دہلی میں احتجاج کرنے جارہے تھے، انتہائی قابل مذمت ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مدھیہ پردیش حکومت ہماری ریاست کے تمام کسانوں کو فوراً رہا کرے اور انہیں کل دہلی کے جنتر منتر پر ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے دے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘اگرچہ گرفتاری مدھیہ پردیش حکومت نے کی ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ اس فعل کے پیچھے مجرمانہ ذہن وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکز کی بی جے پی حکومت کا ہے۔’
سدارمیا نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت کا بنیادی مقصد کسانوں کو ڈرانا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘جب بھی بی جے پی اقتدار میں آتی ہے، چاہے مرکز میں ہو یا ریاستوں میں، تاریخ گواہ ہے کہ کسان ان کی جارحیت کا پہلا نشانہ بنتے ہیں۔ جب بی جے پی نے کرناٹک میں پہلی بار حکومت بنائی تو بی ایس یدیورپا کی قیادت والی حکومت نے کھاد کا مطالبہ کرنے والے کسانوں پر بے رحمی سے گولیاں چلائی تھیں۔’
انہوں نے کہا، ‘مرکز کی نریندر مودی حکومت کے ذریعے دہلی اور اتر پردیش میں کیے گئے تشدد کی وجہ سے بہت سے کسانوں کی موت ہو گئی۔ نریندر مودی حکومت کے موجودہ اقدامات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد کسانوں کو ڈرانا ہے۔’
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، اس واقعہ سے واقف ایک پولیس افسر نے بتایا کہ کرناٹک کے کسان احتجاج میں حصہ لینے کے لیے جا رہے تھے جب وہ اتوار (11 فروری) کی رات بھوپال ریلوے اسٹیشن پر اترے۔
افسر نے کہا کہ انہیں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 151 (امن و امان کو خراب کرنے) کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس افسر نے کہا، ‘دہلی میں کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے موصول ہونے والے انٹلی جنس ان پٹ کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔’
کچھ کسانوں نے الزام لگایا کہ انہیں زبردستی ایک جگہ لے جایا گیا جس کے دوران ایک خاتون کسان زخمی ہوگئیں۔
تاہم، بھوپال کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) رام جی سریواستو نے کہا، ‘تمام 75 کسان، بشمول 25 خواتین محفوظ ہیں۔ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں دہلی جانے سے روک دیا گیا اور امن و امان برقرار رکھنے کی گزارش کی گئی۔ وہ ایک شادی ہال میں رہ رہے ہیں، جہاں انہیں کھانا اور دیگر تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہ کرناٹک واپس جانے پر راضی نہیں ہوئے تو وہ کیا کریں گے، ڈی سی پی نے کہا، ’24 گھنٹے کے بعد ہم قانون کے مطابق اگلا قدم طے کریں گے۔’
عام کسان یونین کے رہنما رام انانیہ کو جہاں نرمداپورم میں حراست میں لیا گیا، وہیں بھارتیہ کسان یونین کے رہنما شیوکمار شرما اور اس کے صدر انل یادو کو بھوپال میں حراست میں لیا گیا۔
واقعہ سے واقف لوگوں نے بتایا کہ انل یادو نے وہاٹس ایپ پر بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ انہیں اتوار کی رات جیل بھیج دیا گیا تھا اور پولیس نے شرما کو نامعلوم مقام پر رکھا ہوا ہے۔
ہبلی کے کسان لیڈروں کے علاوہ پولیس نے مدھیہ پردیش کے نرمداپورم ضلع سے راشٹریہ کسان مزدور سنگھ کے صدر شیوراج راجوریا کو بھی گرفتار کیا۔
اس کے علاوہ پپریا سے لیڈر مہیش اپادھیائے اور سچن شرما کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ایک افسر نے بتایا کہ انہیں ایس ڈی ایم کورٹ نے جیل بھیج دیا ہے۔
نرمداپورم کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) گرو کرن سنگھ نے کہا، ‘پولیس کو ان پٹ موصول ہوا تھا کہ تینوں رہنما احتجاج میں شرکت کے لیے دہلی جا رہے تھے، اس لیے انہیں آئی پی سی کی دفعہ 151 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔’