دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی سازش کرنے کے الزام میں اسٹوڈنٹ لیڈعمر خالد ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ قید کے دو سال پورے ہونے پر ایک پروگرام میں ان کی والدہ صبیحہ خانم نے کہا کہ عمر کو نہ صرف ضمانت ملنی چاہیے بلکہ ان کے خلاف تمام معاملے بھی بند ہونے چاہیے۔
عمر خالد کی والدہ صبیحہ خانم دہلی میں پریس کلب آف انڈیامیں ایک پروگرام کے دوران۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: ‘آج عمر کی گرفتاری کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ دو سال پہلے کا وہ دن صبح سے بار بار میری آنکھوں کے سامنے تیر رہا ہے۔ یہ دو سال میرے اور عمر کی حمایت کرنے والوں کے لیے بالکل مختلف رہے ہیں ،اور عمر کے لیے تو زمین آسمان کا فرق ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، یہ الفاظ جیل میں بند عمر خالد کی والدہ صبیحہ خانم کے ہیں، جو انہوں نے منگل کو دہلی کے پریس کلب آف انڈیامیں عمر خالد کی حمایت میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران کہے۔ یہ پروگرام خالد کی قید کے دو سال مکمل ہونے کے موقع پر کیا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے خالد کی ضمانت کی عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔
خالد کی والدہ نے مزید کہا، میں عمر سے ہماری ہفتہ وار بات چیت کے دوران ہمیشہ(جیل) اندر کے حالات کے بارے میں پوچھتی ہوں۔
انہوں نے کہا، وہ ایک چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں، بالکل الگ سا۔ تصور کیجیے کہ جس تالے کی چابی کسی اور کے پاس ہو، اس کے پیچھے رہنا کیسا ہوگا۔ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ کس قدر گھٹن کا احساس ہوتا ہوگا۔ کس طرح کی گھبراہٹ ہوتی ہو گی۔
انہوں نےمزید کہا کہ ،’لیکن عمر پوری ہمت کے ساتھ ان تمام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیس سے متعلق تمام ایف آئی آر اور قانونی پہلو کو ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن، میں آپ سب کو بتانا چاہتی تھی کہ ہماری نجی بات چیت کیسی ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘میں اکثر ان سے پوچھتی ہوں کہ انہوں نے کیا کھایا- حالانکہ عمر کے تمام دوست جانتے ہیں کہ انہیں کھانے پینے کا شوق نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے کیا کھایا اور کیا نہیں، یہ سن کر میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب میں چند ماہ قبل اس سے عدالت میں ملی تھی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کھایا، یہ جانتے ہوئے کہ بھی وہ آسانی سے کچھ نہیں کھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں کھالیں گے۔
انہوں نے عمر سے چند ماہ قبل ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیشی کے لیے آئے عمر کو پولیس کی گاڑی سے اترنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور جب صبیحہ نے گاڑی کی کھڑکی کی جالی سے عمر کی انگلی پکڑی تو ایک پولیس اہلکارنے ہنس کر ان سے کہاکہ بس ،ان کی ملاقات پوری ہو گئی ہے۔
صبیحہ نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات چیت میں کہا، مجھے پوری امید ہے کہ میرا بیٹا بہت جلد جیل سے باہر آئے گا۔ میں نے گزشتہ ہفتے عمر سے بات کی تھی ، وہ ہمیشہ خوشی سے بات کرتا ہے۔ میں اس کی حوصلہ افزائی کی کوشش کرتی رہتی ہوں اور اسے پر امید رہنے کے لیے کہتی ہوں۔
انہوں نے کہا، صرف ضمانت نہیں ملنی چاہیے، اس کے خلاف تمام معاملے بند ہونے چاہیے یا واپس لیے جانے چاہیے۔
پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ شاہ رخ عالم نے دعویٰ کیا کہ خالد کے خلاف ایف آئی آر اورکچھ نہیں بلکہ سیاسی دستاویز ہے اور ملزم کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔
عالم نے کہا، جب عدالت ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھنے کو کہتی ہے، تو ایسا زیادہ تر تبھی ہوتا ہے جب کوئی حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے۔
جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی صدر اوئشی گھوش نے کہا کہ حکومت ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو اس کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا، عمر نے ہمیشہ اس ناانصافی کی بات کی جو نہ صرف کیمپس میں ہوئی بلکہ اس کے باہر بھی ہوئی۔ اس لیے اس کی آواز مختلف تھی اور اقتدار میں بیٹھے لوگ ان جیسے طالبعلموں سے ڈرے ہوئے ہیں۔
معلوم ہو کہ ستمبر 2020 میں دہلی پولیس نے عمر خالد کو اسی سال کے شروع میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے دوران دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی منصوبہ بندی کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔
واضح ہو کہ ایف آئی آر 59/2020 کے سلسلے میں کئی دانشوروں، کارکنوں اور وکلاء کو گرفتار کیا گیا ہے،جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ان پرسیڈیشن کے علاوہ قتل اور قتل کی کوشش سمیت آئی پی سی کی 18 دیگر دفعات میں بھی الزام لگایا گیا تھا۔
پھر یکم اکتوبر 2020 کو عمر خالد کے حراست میں رہتے ہوئےہی انہیں دہلی کے شمال-مشرقی علاقے میں مسلم اکثریتی علاقے کھجوری خاص اور اس کے آس پاس تشدد سے متعلق ایک اور معاملے میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس کی پوری جانچ اور بالخصوص خالد کے معاملے پر تمام حلقوں سے سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عدالتوں، سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔ خود خالد اور ان کے وکیل تردیپ پیس نے سیکولر مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر پولیس پر تنقید کی۔
اسی طرح، خالد کےطویل قیدکی ہندوستان اور اس کے باہر بھی تنقید کی گئی۔
اس کے باوجود ضمانت کے لیے آٹھ ماہ کی لڑائی کے بعد اس سال مارچ میں ان کی ضمانت عرضی مسترد کر دی گئی اور وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)