جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی قیادت والی اتحاد نے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے دوران ایوان میں موجود سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے کہا کہ جب بی جے پی سیاسی طور پر کچھ نہیں کر پاتی، تو وہ پچھلے دروازے کا سہارا لیتی ہے اور اپنے حریف پر پیچھے سے حملہ کرتی ہے۔
ہیمنت سورین، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی قیادت والی اتحاد نے سوموار (6 فروری) کو اسمبلی میں اعتمادکا ووٹ آسانی سے حاصل کر لیا۔ 81 رکنی ایوان میں اس کو امید کے مطابق 47 ووٹ ملے۔ جے ایم ایم کے ایک ایم ایل اے بیماری کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے۔
بی جے پی کے 29 ووٹوں کے ساتھ جے ایم ایم نے اپنے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی گرفتاری کے لیے مرکز میں حکمراں جماعت پر حملہ کرنے کے لیے قرارداد کا استعمال کیا، اور اسے آدی واسیوں کو نشانہ بنانا قرار دیا۔
بدعنوانی کے الزام پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے ذریعے ہیمنت سورین کے استعفیٰ اور گرفتاری سے عین قبل چمپئی سورین کو چیف منسٹر کے طور پر منتخب کیے جانے کے بعد اعتماد کے ووٹ کی ضرورت تھی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، خصوصی عدالت کی طرف سے تحریک اعتماد پر ووٹ دینے کی اجازت ملنے کے بعد چیف منسٹر، اپوزیشن لیڈر بی جے پی کے امر باؤری اور کانگریس کے پارلیامانی امور کے وزیر عالمگیر عالم کے علاوہ ہیمنت سورین نے ایک جذباتی تقریر میں ایوان سے خطاب کیا۔
سورین نے عہد کیا کہ اگر بی جے پی نے ان کی 8 ایکڑ زمین کے مبینہ غیر قانونی حصول کے بارے میں اسمبلی میں کوئی ثبوت پیش کیا تو وہ سیاست سے استعفیٰ دے دیں گے۔
سورین نے کہا، ‘اگر ہمت ہے تو وہ (بی جے پی) کاغذ دکھائیں کہ 8.5 ایکڑ زمین ہیمنت سورین کے نام پر ہے۔ اگر ہے تو میں سیاست سے استعفیٰ دے دوں گا… سیاست سے ریٹائرمنٹ کیا، میں جھارکھنڈ ہی چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔’
ای ڈی نے سورین کو منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں 31 جنوری کو ایک اور معاملے میں دو بار پوچھ گچھ کے بعد گرفتار کیا تھا، جس میں جھارکھنڈ کیڈر کے آئی اے ایس افسر چھوی رنجن بھی ملزم ہیں۔ سورین نے انہیں جاری کیے گئے 10 سمن میں سے آٹھ کو نظر انداز کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسی بی جے پی نے، جس نے رام مندر پران پرتشٹھا تقریب کے بعد رام راجیہ کا وعدہ کیا تھا، بہار میں حکومت گرائی اور جھارکھنڈ میں بھی ‘وہی کوشش’ کر رہی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پانچ دن کی ای ڈی حراست جاری ہے اور حکام نے انہیں ووٹنگ کی کارروائی کے دوران ایوان میں بات نہ کرنے کو کہا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے ان سے کہا کہ وہ اسپیکر کے پاس آئیں اور ان سے تحریری احکامات لیں۔’
گورنر پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے سورین نے 31 جنوری کی اس رات کو،’ملک کی جمہوریت میں تاریک راتوں اور سیاہ بابوں کا تازہ ترین واقعہ’ قرار دیا، جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس کو جے ایم ایم کے آدی واسی پارٹی ہونے سے جوڑتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ سورین نے کہا، ‘میں آدی واسی کمیونٹی سے آتا ہوں اور ہمارے پاس اپوزیشن کے طور پر ‘دانشورانہ صلاحیت’ نہیں ہے۔ تاہم، ہم صحیح اور غلط کے درمیان فرق جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ جانور بھی اس کو جانتے ہیں۔منصوبہ بند طریقے سے 2022 سے ایک سازش لکھی جا رہی تھی… آدھے ادھورے حقائق کے ساتھ… اور انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔’
بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا ذکر کرتے ہوئے سورین نے کہا کہ مجاہد آزادی نے مختلف مذاہب، ذاتوں کے درمیان برابری کا خواب دیکھا تھا، ‘لیکن امبیڈکر کو بدھ مت اختیار کرنا پڑا اور ایسا لگتا ہے کہ آدی واسیوں، دلتوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کا بھی یہی حشر ہوگا۔ان برادریوں کے خلاف نفرت ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ (بی جے پی) ہم سے اتنی نفرت کیسے پالے ہوئے ہیں۔’
سورین نے کہا کہ امبیڈکر کی طرح آدی واسیوں، دلتوں، اقلیتوں اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو بھی اب بی جے پی کے ‘مظالم’ کی وجہ سے بدھ مت اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ سورین پر ایک میڈیا پرسن کے حالیہ تبصرہ کے حوالے سے سورین نے کہا کہ جاگیردارانہ ذہنیت کے لوگ کہتے ہیں کہ آدی واسیوں کو جنگل میں رہنا چاہیے۔
سورین نے کہا کہ جب بی جے پی سیاسی طور پر کچھ نہیں کر پاتی ہے تو وہ پچھلے دروازے سے اپنے مخالف کی پیٹھ پر حملہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں آنسو نہیں بہاؤں گا اور اسے وقت کے لیےرکھوں گا۔ آپ لوگوں کے پاس آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں۔ آپ کے لیے آدی واسیوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ وقت آنے پر ہم ان کے سوالوں اور سازشوں کا جواب پورے اختیار اور وضاحت کے ساتھ دیں گے۔’
انہوں نے کہا،’ہم جنگل سے باہر آگئے ان کے برابر بیٹھنے لگے تو ان کے کپڑے گندے ہونے لگے۔ وہ ہمیں اچھوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور انہی چیزوں کو توڑنے کے لیے ہم نےایک کوشش کی۔ان کا (بی جے پی) بس چلے تو ہم 50-100 سال پرانے جنگل میں جائیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اندازہ ہے کہ اپوزیشن بی جے پی مایوس ہے۔ بی جے پی میں ہمیشہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت ہوتی ہے، لیکن صرف بے قصور لوگوں کے خلاف۔ قانونی طریقے سے غیر قانونی کام کیسے کیا جاتا ہے یہ بی جے پی سے سیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے ایک آدی واسی وزیر اعلیٰ کو ‘نگلنے’ کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا، ‘چونکہ اس آدی واسی وزیر اعلیٰ کے پاس زیادہ ہڈیاں ہیں اور اس ہڈی کو باہر نکالنے کے لیے ای ڈی پیچھے ہے۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ اگر غلطی سے ہڈی ان کے گلے میں پھنس گئی توساری آنتیں باہر آجائیں گی۔ اس لیے انہیں نگلتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘میں اس بات سے غمزدہ نہیں ہوں کہ ای ڈی نے مجھے گرفتار کیا ہے، کیونکہ میں یہاں اقتدار کے لیے نہیں آیا ہوں۔ جھارکھنڈ کی عزت بچانے کے لیے جے ایم ایم بنائی گئی۔ ہم انہیں مناسب جواب دیں گے… سیاسی، قانونی یا کسی بھی میدان جنگ میں… یہ میرا وعدہ ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘بی جے پی کے پاس بھی آدی واسی رہنما ہیں، لیکن کتنے لوگوں نے پانچ سال پورے کیے؟ ہم آدی واسی لوگ کبھی لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ جب ہم اقتدار میں آئے تو انہوں نے آدی واسیوں سے حکومت چلانے کو کہا۔ جب میں فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہتا ہوں، میرے اس بی ایم ڈبلیو کار ہوتی ہے یا میں ہوائی جہاز سے اڑان بھرتا ہوں تو انہیں (بی جے پی) دقت ہوتی ہے۔’
انہوں نے گورنر سی پی رادھا کرشنن کے ذریعے جھارکھنڈ حکومت کے کام کاج کے 32 صفحات کو پڑھنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ جب وہاں جمہوریت نہیں ہے تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت سب سے طاقتور ہے اور ایک وقت پھر آئے گا جب وہ دوبارہ اسمبلی سپیکر کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
ہیمنت سورین نے کہا، ‘اتنی طاقت کے ساتھ موجود ہوں گے کہ جو سازش کر رہے ہوں گےوہ دھرے کے دھرے رہیں گے۔ اور اس ملک کے آدی واسی، پسماندہ طبقات اور دلتوں کے لیے جو جدوجہد کرنی ہو گی وہ کرتے رہیں گے۔’
چیف منسٹر چمپئی سورین نے کہا، ‘لوگ کان کنی کے گھوٹالوں کی بات کرتے ہیں، لیکن آدی واسیوں اور مقامی لوگوں نے ایک پتھر کو بھی ہاتھ نہیں لگایا اور وہی معدنیات گجرات، دہلی اور ممبئی میں استعمال کی گئیں۔ اس سے کون متاثر ہوا ہے؟ اس نے آدی واسیوں اور مقامی لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ سماجی اور معاشی جبر ہو رہا ہے۔ ہیمنت سورین ان مسائل کو حل کرنے میں سب سے آگے تھے۔’
‘ہیمنت سورین کے نمبر 2’ کے طور پر خارج کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے چمپئی نے کہا، ‘میں یہ فخر کے ساتھ کہتا ہوں۔ میں ہیمنت سورین کا پارٹ 2 ہوں۔ وہی گاؤں جہاں افسران نہیں جاتے تھے، ہم نے انہیں سرکار آپ کے دوار پروگرام کے ذریعے اسکیموں سے جوڑا ہے۔ کیا یہ جرم ہے؟’
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ہیمنت سورین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے انہوں نے کہا، ‘براہ کرم بی آر امبیڈکر کے آئین کو نہ مٹائیں اور جمہوریت کی حفاظت کریں۔’
بی جے پی کے امر باؤری نے کہا کہ حکمراں اتحاد کے ایم ایل اے نے جمہوریت کا لفظ بہت استعمال کیا، لیکن انہوں نے گورنر کو اپنی تقریر مکمل نہیں کرنے دی۔
امبیڈکر کے بدھ مت کو اپنانے پر باؤری نے دلیل دی کہ یہ ایک ‘گھریلو مذہب’ تھا اور عیسائیت یا اسلام کی طرح ‘غیر ملکی مذہب’ نہیں تھا۔ ‘امبیڈکر نے کسی غیر ملکی مذہب کا انتخاب نہیں کیا’۔
انہوں نے ماضی میں جے ایم ایم کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس پر حملہ کیا اور کہا، ‘میں اسمبلی کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کانگریس ہی تھی جس نے آدی واسی لیڈروں شیبو سورین، مدھو کوڑا کو جیل میں ڈالا تھا اور اب یہ ہیمنت سورین ہیں۔ یہ بی جے پی ہی تھی جس نے شیبو سورین کو راجیہ سبھا میں بھیجا، یہ بی جے پی ہی تھی جس نے ہیمنت سورین کو ڈپٹی سی ایم بنایا (2014 میں)، کانگریس نہیں… چمپئی جی، براہ کرم کانگریس سے ہوشیار رہیں، وہ آپ کو بھی جیل میں ڈال سکتے ہیں۔’
کانگریس کے عالمگیر عالم نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ‘یہ کانگریس ہی تھی جس نے ملک کو آزادی دلائی اور وہ تمام ادارے جن پر بی جے پی کو فخر ہے وہ کانگریس کی حکومتوں کی دین ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بی جے پی ہی تھی جو پہلی بار اپنے ایم ایل اے کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی دوسری ریاست میں لے گئی… اس لیے اسے کوئی حق نہیں ہے کہ ہم پر ایم ایل اے کی شفٹنگ کو لے کوئی الزام لگائے۔’