آل انڈیا ٹیکسی یونین نے وارننگ دی ہے کہ اگر نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ تین دسمبر سے ہڑتال پر جائیں گے۔ نئے متنازعہ قانون کے خلاف پچھلے چھ دنوں سے دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو)کی قیادت میں کسانوں کا غازی پور بارڈر پرمظاہرہ(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آل انڈیا ٹیکسی یونین نے سوموار کو وارننگ دی کہ اگر نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کی مانگیں نہیں مانی گئیں تو وہ ہڑتال پر جائیں گے۔ یونین کے صدر نے اس کی جانکاری دی۔یونین کے صدر بلونت سنگھ بھلر نے کہا کہ وہ کسانوں کی مانگوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں دو دن کاوقت دے رہے ہیں۔
بھلر نے کہا، ‘ہم وزیراعظم اور وزیر زراعت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان قوانین کو واپس لیں۔ کارپوریٹ سیکٹر ہمیں برباد کر رہا ہے۔ اگر دو دنوں کےاندرسرکار ان قوانین کو واپس نہیں لیتی ہے تو ہم سڑک سے اپنی گاڑیوں کو ہٹا لیں گے۔ ہم ملک کے تمام ڈرائیوروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تین دسمبر سے گاڑی چلانا بند کر دیں۔’
بتا دیں کہ نئے متنازعہ قانون کے خلاف پچھلے چھ دنوں سے دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فیصلہ کن لڑائی کے لیے دہلی آئے ہیں اور جب تک ان کی مانگیں پوری نہیں ہو جاتیں، تب تک ان کا مظاہرہ جاری رہےگا۔
اس بیچ سوموار دیر رات وزیررراعت نریندر سنگھ تومر نے کسانوں سے بات چیت کرنے کی بات کہی۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘نئے قوانین کے لیےفریب کو دور کرنے کے لیے میں تمام کسان تنظیموں کے نمائندوں اور کسان بھائیوں کو چرچہ کے لیے مدعو کرتا ہوں۔’
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔
دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)