آئی سی ایم آر نے کہا کہ فی الحال دستیاب اعدادوشمار اتنے پختہ نہیں ہیں کہ کو رونا وائرس انفیکشن کے علاج کے لیے گنگا جل پر کلینیکل ٹرائل کیا جا سکے۔
نئی دہلی: انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر)نے طے کیا ہے کہ وہ کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج میں گنگا جل کےاستعمال پر کلینیکل ٹرائل کرنے کے وزارت جل شکتی کی تجویزپر آگے نہیں بڑھےگا۔ کونسل کا کہنا ہے کہ اس کے لیے اس کو اور سائنسی اعدادوشمار کی ضرورت ہے۔
آئی سی ایم آر میں مجوزہ تحقیقات کا تجزیہ کرنے والی کمیٹی کے چیف ڈاکٹر وائی کے گپتا نے کہا کہ فی الحال دستیاب اعدادوشمار اتنے پختہ نہیں ہیں کہ کو رونا وائرس انفیکشن کے علاج کے لیے مختلف ذرائع اور ماخذسے گنگا جل پر کلینیکل ٹرائل کیا جائے۔حکام نے بتایا کہ وزارت جل شکتی کے تحت آنے والے این ایم سی جی کو گنگا ندی پر کام کرنے والے مختلف لوگوں اور غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوسے کئی تجویز حاصل ہوئے ہیں جن میں کووڈ 19 مریضوں کے علاج میں گنگا جل کے استعمال پر کلینیکل ٹرائل کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان تجاویز کو آئی سی ایم آر کو بھیج دیا گیا۔
ایمس کے سابق ڈین گپتا نے بتایا،‘موجودہ وقت میں ان تجاویز پر کام کرنے کے لیے سائنسی اعدادوشمار/حقائق، غوروفکراور مضبوط تصورکی ضرورت ہے۔انہیں (وزارت)مطلع کر دیا گیا ہے۔’گنگا مشن کے حکام نے بتایا کہ ان تجاوزیزپرنیشنل انوائرنمنٹ انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این ای ای آر آئی)کے سائنسدانوں کے ساتھ بات چیت کی گئی تھی۔ غورطلب ہے کہ این ای ای آر آئی نے ‘گنگا ندی کی خصوصیت کو سمجھنے کے لیے اس کے پانی کے معیاراور گاد’ کامطالعہ کیا تھا۔
این ای ای آر آئی کے مطالعہ کے مطابق، گنگا جل میں بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کے مقابلےوائرس کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔گنگا مشن کے ایک سینئر افسرنے بتایا، ‘ہمیں تجویز جس صورت میں ملی تھی، ہم نے انہیں(آئی سی ایم آر)بھیج دیا۔’ گنگا مشن کو حاصل ہوئی تجاویز میں سے ایک میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گنگا جل میں‘ننجا وائرس’ ہوتا ہے، جو جراثیم کو مارڈالتاہے۔
ایک دوسری تجویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خالص گنگا جل انسان کے بیماری سے لڑنے کی قوت کو(قوت مدافعت) بڑھاتا ہے، اس سے وائرس سے لڑنے میں مدد ملے گی۔تفصیلی جانکاری کے ساتھ آئی تیسری تجویز میں گزارش کی گئی ہے کہ گنگا جل کے وائرس اور بیماری سے لڑنے کی خصوصیت پر مطالعہ کیا جانا چاہیے۔گنگا مشن کے حکام نے کہا کہ انہیں اپنی تجاویزپر ابھی تک آئی سی ایم آر سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
این جی او اتلیہ گنگا کی جانب سے بھیجی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ گنگا جل میں موجود ننجا وائرس موذی بیکٹیریا کو کھاکر ختم کر دیتا ہے۔ تین اپریل کو این جی او نے سرکار سے مانگ کی کہ وہ اس پر تحقیق کریں کہ کیا گنگا جل سے کو رونا کا علاج ہو سکتا ہے۔ اس خط کو وزارت جل شکتی اور پی ایم او دونوں جگہ بھیجا گیا تھا۔
اس پر نمامی گنگے اسکیم کو نافذکر رہی وزارت کے انسٹی ٹیوٹ این ایم سی جی نے 30 اپریل کو آئی سی ایم آر کو خط لکھا اور ان سے کلینیکل ٹرائل کی مانگ کی۔ حالانکہ اب آئی سی ایم آر نے اس پر آگے بڑھنے سے منع کر دیا ہے۔این جی او کے خط کے مطابق آئی آئی ٹی روڑکی، آئی آئی ٹی کانپور اور لکھنؤ کے سائنسدانوں اور سی اےآئی آر-انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسکولاجی ریسرچ سمیت مختلف اداروں نے گنگا جل میں کئی طرح کے بیکٹیریوفیز کی موجودگی کی تصدیق کی ہے،بالخصوص ندی کی اوپری دھارا میں جس کوبھاگیرتھی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
خط بھیجے جانے کے بعد پی ایم اونے جل شکتی وزارت کو معاملے کو دیکھنے کے لیے کہا۔ پھر نیشنل مشن فار کلین گنگا نے کلینیکل ٹرائل کے لیے آئی سی ایم آر سے اپیل کی۔آئی سی ایم آر کو یہ خط بھیجنے سے پہلے اس مدعے پر سی ایس آئی آر-این ای ای آرآئی اور این جی او کے سائنسدانوں کے بیچ 24 اپریل کو چرچہ بھی ہوئی تھی۔ بات چیت کے دوران سی ایس آئی آر-این ای ای آر آئی کے سائنسدانوں نے مشورہ دیا کہ آئی سی ایم آر کو گنگا کے پانی میں موجود عناصرکی پہچان کرنے کا کام سونپا جانا چاہیے، جو کووڈ 19 سے لڑنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
معلوم ہو کہ ماضی میں کئی ایسے ریسرچ ہوئے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ گنگا کے پانی میں کچھ خاص طرح کی خصوصیت ہے، بالخصوص ندی کی اوپری دھارا میں۔ اتلیہ گنگا این جی او سے کئی جانےمانے ماہرین ماحولیات اور گنگا کے ماہرین انل گوتم، اےکے گپتا، بھرت جھن جھن والا اور نریندر مہروترا جیسے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)