حیدرآباد انکاؤنٹر: ریٹائر جج نے کہا، حراست میں ملزمین کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے

دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس آر ایس سوڈھی نے کہا کہ حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزمین کی پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کی بات ہضم نہیں ہو رہی ۔ یہ حراست میں کیا گیا قتل ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔

دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس آر ایس سوڈھی نے کہا کہ حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزمین کی پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کی بات ہضم نہیں ہو رہی ۔ یہ حراست میں کیا گیا قتل ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ جانچ  ہونی چاہیے۔

حیدر آباد میں جائے واردات پر تعینات پولیس اہلکار، جہاں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزم پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

حیدر آباد میں جائے واردات پر تعینات پولیس اہلکار، جہاں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزم پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: حیدر آباد میں خاتون  ڈاکٹر کے ریپ اور اس کے قتل کے ملزمین کی پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے پر دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس آر ایس سوڈھی کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ملزمین کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس ملک میں ‘طالبانی انصاف’ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔جسٹس سوڈھی نے کہا،عدالت نے چار ملزمین کو آپ کی (پولیس کی) حراست میں بھیجا تھا، تو ان کی حفاظت کرنا، ان کی دیکھ بھال کرناآپ کا (پولیس کا) فرض ہے۔ یہ کہہ دینا کہ وہ بھاگ رہے تھے۔ وہ کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ آپ 15 ہیں اور وہ چار ہیں۔

انہوں نے کہا،آپ نے کہا کہ انہوں نے (ملزمین) آپ (پولیس) پر پتھر پھینکے تو آپ 15 آدمی تھے، کیا آپ ان کو پکڑ نہیں کر سکتےتھے؟ پتھر سے اگر آپ کو چوٹ آئی تو پتھر مارنے والا آدمی کتنی دور ہوگا۔ یہ کہانی تھوڑی جلدبازی میں بنا دی۔ آرام سے بناتے تو تھوڑی ٹھیک بنتی۔انہوں نے کہا، یہ کہانی مجھے ہضم  نہیں ہو رہی۔ یہ حراست میں کیا گیا قتل ہے۔ قانون کہتا ہے کہ جانچ کرو اور جانچ غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے۔ یہ جانچ بھلےہی ان کے خلاف نہیں ہو، لیکن یہ چیز کیسے ہوئی، کہاں سے شروع ہوئی، سب کچھ جانچ میں سامنے آ جائے‌گا۔ اس لیےجانچ ہونی بےحد ضروری ہے۔

جسٹس سوڈھی نے کہا، دوسری بات، یہ کس نے کہہ دیا کہ ملزمین نے ریپ کیا تھا۔ یہ تو پولیس کہہ رہی ہے اور ملزمین نے یہ پولیس کے سامنے ہی کہا۔ پولیس کی حراست میں کسی سے بھی، کوئی بھی جرم قبول کرایا جا سکتا ہے۔ ابھی تو یہ ثابت نہیں ہوا تھا کہ انہوں نےریپ کیا تھا۔ وہ سبھی کم عمر کے تھے۔ وہ بھی کسی کے بچے تھے۔ آپ نے ان کی جانچ‌کر لی، مقدمہ چلا لیا اور مار بھی دیا۔

انہوں نے کہا،پولیس عدالتی کارعوائی کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کا قدم کبھی جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر پولیس قانون کےخلاف جائے‌گی تو وہ بھی ویسی ہی ملزم ہے جیسے وہ (ملزم) ملزم ہیں۔ اس کا کام صرف جانچ کرنا ہے اور جانچ میں ملے حقائق کو عدالت کے سامنےرکھنا ہے۔ اس میں مدعا علیہ کو بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کے خلاف یہ الزام ہیں اور آپ کو اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے تو کہہ دیں۔

انہوں نے کہا،  اگر مدعا علیہ کو اپنی بےگناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا جائے‌گا اور گولی مار دی جائے‌گی ہو سکتا ہے کہ کسی اور ملک میں ایسا انصاف ہوتا ہو، لیکن ہمارے آئین کے مطابق یہ انصاف نہیں ہے۔ اس لئے یہ طالبانی انصاف کہیں اور ہو سکتا ہے۔ اس ملک میں نہیں۔نربھیا معاملے کے بعد قانون کو سخت کرنے کے باوجود ریپ نہیں رکنے کے سوال پر انہوں نے کہا، قانون کتنے چاہے بنا لیں، جب تک اس کو نافذ صحیح سے نہیں کیا جائے‌گا تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ تفتیش اور قصور ثابت کرنے کا عمل اور سزا کو نافذ کرنے میں جب تک تیزی نہیں لائی جائے‌گی، تب تک کسی کے دل میں قانون کا خوف ہی نہیں ہوگا۔ قانون بھی خوف کے ساتھ ہی چلتا ہے۔

حیدر آباد میں ملزمین کے پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کے ایک دن بعد گزشتہ سات دسمبر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا تھا، میں یہ نہیں مانتا ہوں کہ انصاف کبھی بھی فوراً ہو سکتا ہے اور فوراً ہونا چاہیے۔ انصاف کو کبھی انتقام  کی جگہ   نہیں لینا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ انتقام کی جگہ  لینے پر انصاف اپنے بنیادی تصورکو کھودے‌گا۔گزشتہ27 نومبر کی رات میں حیدر آباد شہر کے باہری علاقے میں سرکاری ہاسپٹل میں کام کرنے والی  ڈاکٹر سے چار نوجوانوں نےریپ  کرکے اس کا قتل کر دیا تھا۔ یہ چاروں نوجوان لاری مزدور تھے۔

اس گھناؤنا جرم کے سلسلے میں چاروں ملزمین کو 29 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے دن 30 نومبر کو ان سبھی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔خاتون ڈاکٹر کے لاپتہ ہونے کا ایف آئی آر درج کرنے میں لاپروائی برتنے کے معاملے میں تین پولیس اہلکاروں کو برخاست بھی کیا جا چکا ہے۔27 نومبر کی رات خاتون ڈاکٹر لاپتہ ہو گئی تھیں اور اگلی صبح ان کی جلی ہوئی لاش حیدر آباد کے شادنگر میں ایک زیرتعمیر فلائی اوور کےنیچے ملی تھی۔

الزام ہے کہ 27 نومبر کی شام چاروں ملزمین نے جان-بوجھ کر خاتون ڈاکٹر کی اسکوٹی پنچر کی تھی اور پھر مدد کے بہانے ان کو سنسان جگہ پر لے جاکر ان کے ساتھ ریپ کیا اور قتل کر دیا۔ پھر لاش کو جلا دیا۔اس کے بعد تلنگانہ کی حیدر آباد پولیس نے گزشتہ چھ دسمبر کو کہا تھا کہ ملزم صبح میں پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارے گئے۔

پولس کا دعویٰ ہے کہ چھ دسمبر کی صبح ملزمین نے پولیس سے ہتھیار چھینے اور پولیس پر گولیاں چلاکر بھاگنے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے جواب میں گولیاں چلائیں اور چاروں ملزم مارے گئے۔

گزشتہ سات دسمبر کو حیدر آباد انکاؤنٹر کی ایس آئی ٹی تفتیش کے لئے سپریم کورٹ  میں دو عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ عرضی میں ریپ اور قتل کے چاروں ملزمین کے انکاؤنٹر میں مارے جانے کو غیر-عدالتی قتل قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پولیس کو اکسانے کے لئے سماجوادی رکن پارلیامان جیا بچن اور وومین کمیشن کی صدر سواتی مالیوال کے خلاف کارروائی کی مانگ کی گئی ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)