امریکہ واقع ڈیجیٹل میڈیا کمپنی ہف پوسٹ کے ہندوستانی ڈیجیٹل ایڈیشن ہف پوسٹ انڈیا نے چھ سال کے بعد منگل کو ہندوستان میں اپنا کام بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان میں کام کر رہے 12صحافیوں کی نوکری بھی چلی گئی۔
(فوٹوبہ شکریہ: huffingtonpost.in)
نئی دہلی: امریکہ واقع ڈیجیٹل میڈیا کمپنی ہف پوسٹ کے ہندوستانی ڈیجیٹل ایڈیشن ہف پوسٹ انڈیا نے چھ سال کے بعد منگل کو ہندوستان میں اپنا کام بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان میں کام کر رہے12صحافیوں کی نوکری بھی چلی گئی۔
ہندوستان میں کام کرنے والی ڈیجیٹل میڈیا کمپنیوں میں غیرملکی فنڈنگ محدودکرنے کی مودی سرکار کی نئی پالیسی سے براہ راست متاثر ہونے والی کمپنیوں میں ہف پوسٹ پہلی ہے۔
ایک سرکاری نوٹیفیکشن کے تحت، ڈیجیٹل میڈیا میں ایف ڈی آئی کی 26 فیصدی حدطے کی گئی ہے۔ اس سے زیادہ ایف ڈی آئی والی ڈیجیٹل میڈیا کمپنیوں کے پاس سرمایہ کاری کرنے کے لیے ایک سال کا وقت ہے۔ اس سے پہلے ایسی کوئی حد طے نہیں تھی۔
کمپنی کے ایک ذرائع نے
دی وائر سے کہا، ‘نئے ایف ڈی آئی ضابطوں کو دیکھتے ہوئے بز فیڈ(ہف پوسٹ کو خریدنے والی کمپنی)کے لیے ہندوستان میں کام کرنا ناممکن ہے۔’مواصلاتی کمپنی ویریزون نے ہف پوسٹ کو ایک دیگر امریکی میڈیا کمپنی بزفیڈ کو بیچ دیا ہے۔ حالانکہ، قانونی وجوہات سے اس سودے میں ہندوستان اور برازیل ایڈیشن شامل نہیں ہو پائے۔
اہلکاروں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں بزفیڈ کے شریک بانی اور سی ای او جوناہ پریٹی نے ہندوستانی ایف ڈی آئی پابندیوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔
انہوں نے لکھا، ‘ہندوستان کی ٹیم ایک رعایتی مدت کے ساتھ چل رہی تھی۔ ویریزون میڈیا انہیں بھی زیادہ طویل عرصے کے لیے سنبھال سکنے کے قابل نہیں ہے۔غیرملکی کمپنیوں کو نیوز ایجنسیوں کوکنٹرول کرنے کی اجازت نہیں ہے اور بزفیڈ انڈیاصرف اس لیے کام کر سکتا ہے، کیونکہ ہم ایک کلچرل اورانٹرٹینمنٹ ادارہ ہیں۔’
گزشتہ 24 نومبر کو ہف پوسٹ نے ہندوستان اور برازیل کے ایڈیشن کو بند کر دیا۔ ہفنگٹن پوسٹ ڈاٹ ان کی ویب سائٹ پر ہندوستانی قارئین کے لیے ایک پیغام لکھا ہے، ہف پوسٹ انڈیا اب مواد شائع نہیں کرےگا۔
حالانکہ، فی الحال اس کے کوئی بھی پرانے کنٹینٹ ویب سائٹ پر نہیں دکھ رہے ہیں۔ دی وائر سمجھتا ہے کہ تمام ہندوستانی مواد کو ہف پوسٹ ڈاٹ ان پر محفوظ رکھنے کا عمل چل رہا ہوگا۔
منگل کو ہف پوسٹ کے برازیل سائٹ نے اپنے قارئین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی بے حد اہم خبروں کو نشان زد کرنے والے مدیر کا پیغام بھی شائع کیا۔
جہاں ہندوستان میں ہف پوسٹ ایف ڈی آئی کی حداور ریگولیشن کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے بند ہو گیا وہیں پریٹی کے پیغام سے صاف ہوتا ہے کہ ہف پوسٹ برازیل کا بند ہونا بزفیڈ کے اس طے شدہ فیصلےکی وجہ ہے، جس میں اس نے بزفیڈ برازیل کا لائسنس ایک مقامی کمپنی کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہفنگٹن پوسٹ انڈیا پرائیویٹ لمٹیڈ کو 2015 میں ایک غیرملکی کمپنی کی معاون کمپنی کے طورپر 6.5 کروڑ روپے کی پونجی اور 3.15 کروڑ روپے کی ادائیگی والی پونجی کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔
ایک حالیہ سرکاری آرڈر کے تحت، ہف پوسٹ انڈیا کی اصل کمپنی ویریزون کو اکتوبر، 2021 تک اپنے شیئر کو 26 فیصدی تک محدود کرنا تھا۔ ویب سائٹ بند ہونے کے بعد یہ صاف نہیں ہے کہ کمپنی اور اس کی ملکیت کا کیا ہوگا۔
جہاں مودی سرکار کی نئی پالیسی کمپنیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، وہیں ہف پوسٹ کے نئے مالکوں کو موجودہ ہف پوسٹ ڈاٹ ان یو آر ایل پرہندوستانی ایڈیشن چلانے اور نیوز کنٹینٹ شائع کرنے کے لیے صحافیوں کی تقرری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چونکہ اس میں کوئی ہندوستان بیسڈ کمپنی شامل نہیں ہوگی، اس لیے اس پر عمل کرنے کے لیے کوئی ایف ڈی آئی ضابطہ نہیں ہوگا۔
فزیکل میڈیا پروڈکشن کے لیے ایف ڈی آئی ضابطہ ایک مؤثرانٹری ویریئرکے طور پر کام کر سکتے ہیں، کیونکہ اخبارات اور ٹیلی ویژن کی ریجنل موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کہ انہیں اخبار چھاپنے یا بانٹنے ہوتے ہیں یا سٹیلائٹ سگنل اپ لنک/ڈاؤن لنک کرنے ہوتے ہیں اور انہیں صرف ٹی وی نیٹ ورک کے طورپرفزیکلی کام کرنا ہوتا ہے۔
حالانکہ، جب ڈیجیٹل میڈیا کی بات آتی ہے تب ایک غیرملکی ملکیت والی کمپنی ایک نیوز ویب سائٹ شائع کر سکتی ہے اور ہندوستان کے ایف ڈی آئی ضابطہ کچھ بھی کہیں مگر ہندوستانی بنا کسی پرواہ کے اس کی خدمات لے سکتے ہیں۔
بےشک ایف ڈی آئی ضابطوں سے آسان کاروبار کرنے میں پریشانی ہوگی، لیکن اگر قارئین بڑی تعداد میں ہیں تو غیرملکی میڈیا کمپنیوں کو ہندوستان میں سیلس اسٹاف کو کام پر رکھنے یا ایک ہندوستانی ایجنسی کو کام پر رکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
ہف پوسٹ ڈاٹ ان کی اہم رپورٹس میں الیکٹورل بانڈ کو سیاسی مالی امداد کے وسائل کے طور پر لانچ کرنے کے مودی سرکار کے فیصلے میں شفافیت کی کمی اور اس سلسلے میں ہندوستانی ریزرو بینک کی تشویش کو کیسے خارج کر دیا گیا تھا شامل تھی، جس پر رپورٹ کی ایک سیریزشائع کی گئی تھی۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔