اپریل 2022 میں کرناٹک کے ہبلی میں ایک مسجد کے باہر ہوئے بلوے کے سلسلے میں 150 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیاتھا۔ پولیس اہلکاروں کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر میں پتھراؤ کو ‘دہشت گردانہ فعل’بتاتے ہوئے یو اے پی اے کی دفعات لگائے جانے کے بعد سےزیادہ تر ملزمین جیل میں رہنے کومجبور ہیں۔
ہبلی (کرناٹک): ناظمین جمعدار اس دن کو یاد کرتی ہیں، جب وہ اور ان کے شوہر شمس الدین اپنے گھر کے سامنے والےدروازے پر بیٹھے ہوئے تھےاورپاس کے لیب سے آئے سونوگرافی کی رپورٹ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس وقت ناظمین اپنے حمل کے پہلے سہ ماہی میں تھیں اور دونوں اپنے پہلے بچے کی امید کر رہے تھے۔اس سے پہلے کہ دونوں یہ جان کر خوش ہو پاتے کہ ان کو جڑواں بچےہونے والے ہیں، پولیس زبردستی ان کے گھر میں داخل ہو گئی۔
شمس الدین کو پولیس ‘پوچھ گچھ’ کے لیے لے گئی، لیکن وہ گھر واپس نہیں آئے۔ انہیں 16 اپریل 2022 کو اولڈ ہبلی پولیس اسٹیشن کے باہرہوئے تشدد اور فسادات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا۔
شمس الدین کو اولڈ ہبلی پولیس اسٹیشن کی طرف سے 18 اپریل کو یعنی پولیس اسٹیشن کے باہر،بڑی مسجد سے 100 میٹر سے بھی کم کے فاصلے پر ہونے والے بلوے کے دو دن بعددائرکی گئی 12میں سے چار فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) میں – جو کہ ایک ہی جرم لے سلسلے میں دائر کی گئی تھیں ، میں ملزم بنایا گیا۔ تمام ایف آئی آر میں 100-150 نامعلوم افراد کو فسادی بتایا گیا ہے۔ بعد میں 158 افراد (ایک نابالغ لڑکے سمیت) کو گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں داخل کی گئی چارج شیٹ میں پولیس نے کہا کہ ‘ ایک وہاٹس ایپ پیغام سے اچانک مشتعل ہو کر 1000-1500 سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے’۔
ان 12 ایف آئی آر میں سے سات پولیس والوں نے خود درج کروائی تھیں اور اب ان سب کو ایک ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ باقی ایف آئی آر عام لوگوں نے درج کرائی تھیں۔ ان میں ابھی تک نہ تو تفتیش شروع ہوئی ہے اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے ایک ساتھ منسلک ایف آئی آر میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات شامل کی ہیں اوراس معاملے کو بنگلورو کی این آئی اے کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔
ناظمین نے گزشتہ سال اکتوبر میں قبل از وقت اپنے جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔ لیکن شمس الدین نے ابھی تک اپنے بچوں کا چہرہ نہیں دیکھا ہے۔ ناظمین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو وہاں سے 350 کلومیٹر دور گلبرگہ سینٹرل جیل لے گئی، جہاں ان کے شوہر کئی دیگر شریک ملزمین کے ساتھ بند ہیں، لیکن جیل حکام نے انہیں شمس الدین سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔
ناظمین آنند نگر کی رہنے والی ہیں، جو ہبلی کے شمالی حصے میں مسلم اکثریتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس علاقے کی تقریباً ہر گلی میں اس بلوے کے سلسلے میں پولیس کے ہاتھوں ایک یا دو آدمیوں کی گرفتاری کی کہانیاں ہیں۔ ہر گھر میں مایوسی اور ناانصافی کے قصے ہیں۔ کئی لوگوں کو اجمیر نگر، اسار محلہ، بنٹی کٹا، منٹور روڈ اور اولڈ ہبلی وغیرہ دیگر مسلم اکثریتی علاقوں سے گرفتار کیا گیا۔
عجیب ہے16 اپریل کا واقعہ
یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ہبلی کے زیادہ تر مسلمان اولڈ ہبلی پولیس اسٹیشن کے سامنے واقع بڑی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیےآتے تھے۔ اس عظیم الشان مسجد میں، جس کا صحن فتح شاہ درگاہ سے منسلک ہے، میں ایک وقت میں 1000 سے زیادہ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔
عشاءکی نماز سےپہلےمسجد میں لوگوں جمع ہونے سے چند منٹ قبل ایک ہندو نوجوان، جس کی شناخت ابھیشیک ہیرےمٹھ کےطور پر کی گئی ہے، نے اپنے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر ایک انتہائی قابل اعتراض تصویر پوسٹ کی تھی ۔ مقامی نیوز چینل سوراج ٹائمز کے مدیر آصف بنکاپور نے بتایا، ‘اس پوسٹ میں درحقیقت مقدس مدینہ کے اوپرایک بھگوا جھنڈے کی مورف شدہ تصویر تھی۔’ اور اس پوسٹ نے ٹھیک وہیں چوٹ کیا ، جس کا منصوبہ ہیرےمٹھ نے بنایا تھا۔
دباؤ کے بعد ہیرےمٹھ نے بعد میں وہ پوسٹ ہٹا لی۔ لیکن تب تک اس پوسٹ کے اسکرین شاٹس مختلف وہاٹس ایپ گروپس میں شیئر ہو چکے تھے اور شہر کا ماحول کشیدہ ہو چکا تھا۔ لوگ جیسے ہی بڑی مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلے ،تو ان کے فون بھی پیغامات سے بھر چکے تھے۔ ان پیغامات میں یہ بھی شامل تھا کہ ہیرےمٹھ کو گرفتار کر لیا گیا ہےاور اسے اولڈ ہبلی پولیس اسٹیشن لایا گیا ہے۔
اس پوسٹ سے مشتعل ہو کر کئی مسلم نوجوان تھانے کے اندر پہنچ گئے اور وہاں پر نعرے بازی کرنے لگے۔یہ ردعمل بے ساختہ اور غصے سے بھرا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے ہیرے مٹھ کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ لوگوں نے پولیس اسٹیشن پر، جس کے چاروں طرف اب تک مشتعل ہجوم کو باہر ہی روکنے کے لیےبیریکیڈینگ لگا دی گئی تھی، پتھرپھینکے۔ پاس میں ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی اور پتھراؤ میں دو پولیس اہلکارکو معمولی چوٹیں آئیں۔
جسے پہلے ایک دنگے کے معاملے کے طور پر درج کیا گیا تھا، اسے ‘دہشت گردی کے واقعے’ میں بدل دیا گیا۔ لائن لفٹرز جم، اسلامک سلطان گروپ اور ہبلی گڈشیڈ کنگ نام سےوہاٹس ایپ گروپس ،جن سے کئی ملزمین جڑے ہوئے تھے،کو پولیس کی جانب سے ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے لائن لفٹرز فٹنس شہر کا ایک مقامی جم ہے، جبکہ گڈز شیڈپولیس اسٹیشن کےپاس ایک سڑک کا نام ہے۔
گرفتاری کے چند ہفتوں بعد پولیس نے اس کیس میں یو اے پی اے کی دفعات لگا دیں اور اب کیس کو 450 کلومیٹر دور بنگلورو کی ایک خصوصی عدالت کے سپردکر دیا گیا ہے۔ ان سب کے درمیان ہیرے مٹھ، جو اس دنگے کے واقعہ کو بھڑکانے کا ذمہ دار ہے، کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ گرفتاری کے وقت ہیرے مٹھ کا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے نہیں تھا، لیکن مقامی لوگوں کے مطابق وہ اب انتہا پسند ہندوتوا تنظیم رام سینا میں شامل ہو گیا ہے۔
حراست میں رکھنے کے بعدپولیس نے مسلمان ملزمین کو ان کے گھروں سے کئی کلومیٹر دور جیلوں میں بھیج دیا، جس سے ان کے اہل خانہ کے لیے ان سے ملنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ عدالتی سماعتوں کے لیے بھی انہیں صرف ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
دی وائر نے اس معاملے میں گرفتار ملزمین کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔گرفتار کیے جانے والے تقریباً تمام افراد کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان تھیں اور وہ اپنے خاندان کے اکلوتے کمانے والے فردتھے۔ یہ لوگ، جن میں سے اکثر اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکے، یا تو آٹو رکشہ ڈرائیور، راج مستری یا الیکٹریشن کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان کی مزدوری سے ان کا گھر چلتا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد بیشتر گھروں کی مالی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔
روجہ شیخ کا معاملہ لیجیے، جن کا 18 سالہ بیٹا نیاز اس کیس میں گرفتار 158 افراد میں سے ایک ہے۔ نیاز نے ہبلی کے مقامی انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں کام بھی کرتے تھے۔ ان کے والد نور احمد بیمار ہیں اور بستر پر ہی رہتے ہیں۔ روجہ کو ہپ ریپلیس منٹ سرجری کی فوری ضرورت ہے۔ لیکن نیاز کی گرفتاری کے بعد اب ان کا خاندان رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں کی مدد پر منحصر ہے۔
روجہ کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور جس کو چاہا لے گئے۔ ‘جس وقت پولیس آئی اس وقت میرا بیٹا کالج میں تھا۔ انہوں نے کہا–اپنے بیٹے کو پوچھ گچھ کے لیے تھانے بھیج دو، نہیں تو ہم تمہارے معذور شوہر کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ نیاز کو دس منٹ میں چھوڑ دیا جائے گا۔ میں نے ان کی باتوں پر بھروسہ کر لیا۔
گرفتاری کے دو دن بعد نیاز کی نانی انتقال کر گئیں۔ ‘وہ اس بات پریقین نہیں کر سکیں کہ ان کے نواسے کو پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا اور دروازے پر کرسی لگا کر اسے پھر سے دیکھنے کی امید میں بیٹھ گئیں ۔ انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اسی کرسی پر چل بسیں جس پر وہ دو دن سے بیٹھی تھیں۔‘ یہ بتاتے ہوئے روجہ زور زور سے رونے لگتی ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ روجہ کی ماں کی طرح کم از کم 10-12 لوگ – سبھی غمزدہ – گزشتہ سال انتقال کر گئے، لیکن ان کے جیل میں بند بیٹوں کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
جب بھی کوئی وکیل، کوئی کارکن یا کوئی صحافی اس علاقے میں جاتا ہے، تووہاں اس کا سامنا شور شرابےسے ہوتا ہے۔ اپنے گرفتار بچوں کی تصویروں کے ساتھ ان کے اہل خانہ اس امید پر اس شخص کے گرد جمع ہو جاتے ہیں کہ کیس کے حوالے سے کوئی نئی معلومات یا مدد ملے گی۔ اسی امید میں ایک درجن سے زائد گرفتار افراد کے اہل خانہ روجہ کے گھر جمع ہوگئے۔
بوڑھے اور کمزور مختار شیخ نے اپنے 24 سالہ بیٹے عادل شیخ کی گرفتاری کے بارے میں بتایا۔ ایک بوڑھی خاتون، جن کی باتیں بہ مشکل سمجھ میں آرہی تھیں، یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے پوتے سرفراز محمد رفیق بیرکدار کو جیل سے کب رہائی ملے گی۔
ایک ایکٹوسٹ اور ایک گرفتار نوجوان کے رشتہ دار رفیق ملماری کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ گرفتاری کے ایک سال بعد بھی گرفتار افراد کے لواحقین کو کیس کی پیش رفت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ ‘اس کیس میں کافی گڑ بڑ رہی ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور انہیں قانون کا کوئی علم نہیں، اکثر وکیلوں نے انہیں ٹھگنے کا کام کیا۔آخر کار، یہ مقدمہ بنگلورو کے ایک تجربہ کار وکیل ایس بالن کو کو سونپا گیا ہے۔
گرفتار کیے گئے 158 افراد میں سے 9 افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا یہ حکم جیل میں ان افراد کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کے بعد دیا گیا۔ ضمانت پر رہا ہونے والوں میں ایک آصف حسین یالیوال بھی شامل ہیں، جنہیں 10 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد اس وقت رہا کیا گیا جب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔
یالیوال کہتے ہیں،’میری گرفتاری کے فوراً بعد میرے دماغ میں خون کا لوتھڑا بن گیا اور میں چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیا۔ عدالت کو مجھے ضمانت دینے میں10 ماہ اور 15 دن لگے۔’یالیوال آہستہ آہستہ چلنے کے قابل ہو رہے ہیں۔ اس دوران ان کے 16سالہ بیٹے مبارک نے راج مستری کا کام شروع کر دیا ہے اور اب وہ خاندان چلا رہا ہے۔
ٹرائل کورٹ کی طرف سے بار بار ان کی ضمانت کی درخواست مستردکیے جانے کے بعد بالن نے اس سال کی شروعات میں کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ وہ پر امید تھے کہ عدالت ان کی دلیلوں کو سنے گی اور ہائی کورٹ کی پناہ میں آئے41 ملزمین کو ضمانت دے گی۔ لیکن ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
ان کے دلائل مفصل انداز میں اس بات پر مرکوز تھے کہ اس معاملے ،جو خود پولیس کے مطابق ہی ایک ‘وقتی اشتعال’ کا نتیجہ تھا، میں یو اے پی اےکی دفعات نہیں لگائی جا سکتی ہیں۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ ملزمین ‘پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے ارادے سے جمع ہوئے تھے’ اورانہوں نے ان پر حملہ کرنے کے لیے لاٹھیوں کا استعمال کیا تھا اور ان پر پتھر اور چپل پھینکے تھے۔ بالن یو اے پی اے کی دفعہ 15-1 کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں جو دہشت گردانہ کارروائی کے حصے کے طور پر’بم، ڈائنامائٹ یا دیگر دھماکہ خیز یا آتش گیر مادے’ کا ذکر کرتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے یو اے پی اے کی دفعہ 15(1) کا نہیں لگائی گئی ہے،لیکن دفعہ 16(1) جوڑ دیا، جو سزا طے کرتی ہے۔
بالن نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس کا مقدمہ صرف سی سی ٹی وی فوٹیج، راہگیروں کی ویڈیو ریکارڈنگ اور موبائل ٹاورز کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں،’ملزمین کے دہشت گردانہ تعلقات بتانے کے لیےاس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ ایک بار جب یو اے پی اے اور این آئی اے ایکٹ لاگو ہو جاتا ہے تو ایک سادہ سا معاملہ بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
ملزم کے اہل خانہ نے اب کارکنوں کی مدد سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ ثنا شاہین ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کے منیجنگ ٹرسٹی اشرف علی بشیر احمد، جو ملزمین کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان خاندانوں کے لیے سپریم کورٹ تک آنے کے لیے وسائل جمع کرنا ناممکن سی بات رہی ہے۔
احمد کہتے ہیں،وہ حکومت کی طاقت کا مقابلہ اپنےمعمولی وسائل سےکر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ہی جرم کے لیے درج متعدد ایف آئی آرز کوبھی منسوخ کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ باقی پانچ ایف آئی آر پر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ اگر گرفتار لوگوں کو اس معاملے میں ضمانت مل جاتی ہے (جس میں انہیں اب گرفتار کیا گیا ہے)، اس بات کا خدشہ ہے کہ پولیس انہیں دیگر زیر التوا ایف آئی آر میں گرفتار کر سکتی ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس نے ابھی تک ان زیر التواء ایف آئی آر میں یو اے پی اے کے الزام شامل نہیں کیے ہیں۔
دی وائر نے ہبلی ساؤتھ کے اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس آر کے پاٹل سے رابطہ کیا، جو اس معاملے کی تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور اس رپورٹر کو اولڈ ہبلی پولیس اسٹیشن کے پولیس انسپکٹر سریش یلور کے پاس بھیج دیا۔
یلور نے سات ایف آئی آرز کوایک ساتھ منسلک کرنے کی تصدیق کی، لیکن جب ان سے زیر التواء مقدمات کی تحقیقات اور ان ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی دفعات شامل نہ کرنے کے پیچھے پولیس کے استدلال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا،انہیں کیسوں کی کارروائی کے بارے میں کسی صحافی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد نے بنگلورو میں چیف منسٹر سدارامیا اور دیگر وزراء سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ کانگریس کے ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ حکومت اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کرانے پر غور کر رہی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)