آر ایس ایس سے جڑی تنظیم نے کہا، ایچ آر ڈی اور وزارت ثقافت کو ملا کر وزارت تعلیم بنایا جائے

آر ایس ایس سے جڑی تنظیم بھارتیہ شکشن منڈل نے اس بارے میں مرکزی حکومت کو 19 پوائنٹس کی ایک لسٹ بھیجی ہے۔

آر ایس ایس سے جڑی تنظیم بھارتیہ شکشن  منڈل نے اس بارے میں مرکزی حکومت کو 19 پوائنٹس کی ایک لسٹ بھیجی ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی تنظیم بھارتیہ شکشن منڈل (بی ایس ایم) نے وزارت برائے فروغ  انسانی وسائل اور وزارت ثقافت کو ملاکر ایک وزارت بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، بی ایس ایم نے وزارت  برائے فروغ انسانی وسائل اور  وزارت ثقافت کو ملاکر بنائی گئی نئی وزارت کا نام  وزارت تعلیم  رکھنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔

تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق، اس کی تشکیل سال 1969 میں ہوئی تھی اور اس تنظیم نے اپنا مقصد ملک میں تعلیم کے شعبہ  میں قومی موضوعات کا  احیا ء بتایا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستانی ویژن پر مبنی نیشنل ایجوکیشن  پالیسی، نصاب، نظام اور طریقہ کار کی تشکیل کرنا چاہتا ہے۔ایچ آر ڈی وزارت کا نام بدل‌کر  وزارت تعلیم  کرنے کا مشورہ سائنسداں ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی صدارت میں ایک کمیٹی کے ذریعے تیار کی گئی نیشنل ایجوکیشن  پالیسی کے مسودہ میں بھی تھا، جس کو مئی میں ایچ آر ڈی وزیر رمیش پوکھریال  نشنک نے  جاری کیا تھا۔

19 پوائنٹس کی اس لسٹ  میں بی ایس ایم نے کہا ہے کہ  وزارت ثقافت  کے تحت تقریباً 150 ادارے ہیں، جو آرٹ شعبے میں تعلیم مہیا کراتے ہیں۔بی ایس ایم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ  کرنے کی شرط پر بتایا، ‘ آزادی کے وقت میں ثقافتی محکمہ، محکمہ برائے تعلیم کے تحت تھا لیکن 1980 کی دہائی میں ایچ آر ڈی وزارت کی تشکیل کے دوران اس کو بدل دیا گیا۔ دونوں وزارتوں کو ایک ساتھ لانے سے تعلیم اور ثقافت مہیا کرانے کا عمل زیادہ مؤثر اور مکمل ہوگا۔ ‘

ایچ آر ڈی کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ وزارت کو ابھی رسمی طور پر یہ تجویز نہیں ملی ہے۔ حالانکہ، دہلی یونیورسٹی کے پالیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر نیرا چنڈوک نے کہا کہ یہ مشورہ تشویش  کا موضوع ہے۔انہوں نے کہا، ‘ تعلیم کا مقصد طلبا کو تاریخ، ثقافت  اور موجودہ وقت سے جوڑنا ہے، نہ کہ بااثر  گروپ کی قوتوں کو بڑھانا۔ یہ فکرمند انسان کی صلاحیت کو کمزور کرے‌گا۔ انضمام کا یہ خیال بہت خوفناک ہے۔ ‘

حالانکہ، بی ایس ایم کے ایک افسر کا کہنا ہے، ‘ ہم انگریزی پڑھانے کے خلاف نہیں ہیں، لیکن بچوں کی زندگی کے شروعاتی مرحلے میں ہی ان کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور انجینئرنگ جیسے پیشہ ور نصاب میں ان کو  تعلیم دینےکی ضرورت ہے۔ اسی طرح سہ لسانی فارمولے کے تحت اسکولوں میں انگریزی اور ریاست کی سرکاری زبان ضروری ہے۔اس طرح بہت سے بچے سنسکرت نہیں لے پاتے ہیں۔’