اگر وزیراعظم نریندر مودی کو لگتا ہے کہ ہندوستان باقی ممالک کی طرح لگاتار چل رہے ایک مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بڑا اقتصادی پیکج نہیں دے سکتا تو انہیں لازمی طور پر لاک ڈاؤن میں چھوٹ دینے کے بارے میں سوچ سمجھ کر اگلا قدم اٹھانا چاہیے۔
سنیچرکومختلف ریاستوں کے وزارائے اعلیٰ کے ساتھ آن لائن کانفرنس میں وزیراعظم نریندر مودی(فوٹو: پی ٹی آئی)
ملک کی سیاسی قیادت کووڈ 19 سے کتنے مؤثر طریقے سے نپٹ پائی ہے، یہ تو لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ اس لاک ڈاؤن کو بڑھانا ایک ایسا طریقہ تھا، جس پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت نہیں محسوس کی جا رہی ہے ۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو بس سب قانون نافذ کرنے والی خاکی وردی کے حوالے کرنا ہوگا۔ وہیں دوسری طرف، سبھی انسانی سرگرمیوں پر لگے مسلسل لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے ذی فہم انتظامیہ کی ضرورت ہوگی، جو ہندوستان میں نایاب ہے۔
کووڈ 19 سے نپٹنے کے لیے کام کر رہے آئی سی ایم آر کے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے فروری میں لکھا گیا
ایک ریسرچ پیپر جاری کیا ہے، جس میں لاک ڈاؤن کو ‘عوامی صحت کے لیے ایک سخت قدم’ کہا گیا ہے، جس کے طویل مدتی منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔نوویل کوروناوائرس پر لکھے گئے اس ریسرچ پیپر میں‘انتظامیہ کے ذریعے لگائے جانے والےجبراً کوارنٹائن کے طریقوں’ کو صحیح نہ بتاتے ہوئے اجتماعی طور پر استعمال ہو سکنے والے طریقوں کی پیروی کی گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اس بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
مودی روایتی مذہبی صحیفوں اور لوک کہانیوں کو تناظر دینے کے شوقین ہیں۔ یقیناً انہوں نے ابھمنیو کے بارے میں سنا ہوگا، جس کو چکرویوہ کے اندر جانا تو آتا تھا، لیکن اس سے باہر نکلنا نہیں۔مودی ملک گیر مکمل تالابندی کو لے کر ملک کو تیار کرنے کاسہرا لے سکتے ہیں، لیکن ان کی اصل مہارت اور قیادت کی پہچان ان طریقوں سے ہی ہوگی، جن کے سہارے وہ ایک مرحلے وار طریقے سے اقتصادی بحران سے باہر نکل آنے میں کامیاب ہوں گے۔
یہ ملک کی لگ بھگ آدھی سے زیادہ آبادی کو مستقبل قریب میں سامنے آنے والی غریبی اور بڑے عوامی صحت کے بحران سے بچانے کے بارے میں ہے۔ انتظامیہ کے لیے آج کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔اور اس کے لیے وزیراعظم کو سبھی ریاستوں کے رہنماؤں کی فعال شراکت داری کی ضرورت ہوگی۔ بدقسمتی سے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے وہ سبھی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بیٹھک نہیں کر سکے تھے، لیکن اب وہ تمام ریاستوں کے نمائندوں سے صلاح مشورہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
دراصل ، ایسا لگتا ہے کہ مودی کو یہ سمجھ آگیااہے کہ موجودہ بحران اتنا بڑا ہے کہ یہ صرف ایک آدمی کے بس کا نہیں ہوگا اور کچھ ہی مہینوں میں اس کے برے نتائج سامنے آنے لگ جائیں گے۔وزیراعظم کے رویے میں تبدیلی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے اور وہ لاک ڈاؤن کو بڑھانے کو لےکر کئی وزرائے اعلیٰ سے احتیاط اور پوری توجہ کے ساتھ چرچہ کرتے دکھے ہیں۔
بحران کی نوعیت نے مشترکہ ذمہ داری اور جوابدہی کی ایک نئی سوچ کے لیے مجبور کیا ہے، جو پہلے کبھی نظر آیا۔یہ صاف ہوتا جا رہا کہ ہندوستان ایک اور مہینے کے لیے سبھی اقتصادی سرگرمیوں کو پوری طرح سے بند نہیں کر سکتا ہے۔وزیراعظم اور ریاست کے وزرائے اعلیٰ کے پاس اس لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کے لیے ایک روڈ میپ، جس سے اقتصادی سرگرمیاں دھیرے دھیرے پھر شروع ہو سکیں، بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
نوبیل ایوارڈ یافتہ اکانومسٹ ایستھر ڈفلو نے اس کو اجمالی طور پر کہا ہے کہ موجودہ بحران کے کسی بھی حل کو زندگی اور روزگار کے بیچ سمجھوتہ نہیں مانا جا سکتا۔ یہ ایک غلط بحث ہے۔ روزگار کا مسئلہ فوراًزندگیاں بچانے اور عوامی صحت سے نپٹنے سے جڑے زیادہ بڑے مدعوں میں بدل جائےگی۔ تو یہ لاک ڈاؤن کے بعد زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچانے کے بارے میں ہے۔
بہتر ہوگا کہ مودی نے اپنی بیٹھکوں میں اس بارے میں بھی چرچہ کی ہو۔ اس مکمل تالابندی سے نکلنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران مرکز اور ریاستوں کے ریونیو میں ایک اندازے کے مطابق60 سے 70 فیصدی کی کمی آئی ہے۔دہلی کے وزیر خزانہ منیش سسودیا نے مجھے بتایا کہ ریاست کا ااکثر ریونیو جی ایس ٹی کے علاوہ پٹرول، ڈیزل اور شراب کے ٹیکس سے آتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران یہ سبھی نیچے آ گئے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کے سیل میں 90 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔
تلنگانہ، تمل ناڈو اور مہاراشٹر جیسی دوسری ریاستوں کے حکا م بھی سسودیا کی بات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ اصل میں جس شرح سے ریاستوں کا ریونیونیچے جا رہا ہے، اس کی وجہ سے زیادہ تر ریاست اپریل سے آگے اپنی تنخواہ تک نہیں دے سکیں گے۔کئی ریاستوں نے سرکاری اہلکاروں کی تنخواہ کی جزوی ادائیگی روک دی ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت مالیاتی ایمرجنسی اعلان کرنے سے کم نہیں ہے۔
تمل ناڈو نے وزیراعظم کو لکھا ہے کہ ریاست کے قرض لینے کی صلاحیت، جو اس وقت ریاست کی جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصدی ہے، کو موجودہ حد سے 33فیصدی تک بڑھایا جائے۔ریاست نے وزیراعظم سے ایک لاکھ کروڑ روپے کا ایک اسپیشل کووڈ 19 فنڈ بنانے کی بھی مانگ کی ہے، جس کو ریاستوں کو ان کی جی ڈی پی کے مطابق بانٹا جا سکے۔ دوسری ریاستوں نے بھی اضافی قرض کی حد کو لے کر وزیراعظم کو لکھا ہے۔
تو اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ مرکز اور ریاستوں کے سامنے ایک بڑا عوامی اقتصادی بحران ہے۔ اس وقت واحد تدبیر بس یہ ہو سکتی ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا زیادہ سے نوٹ چھاپے اور مرکز اور ریاستوں کے بانڈس خریدے۔لیکن اب تک وزیراعظم مودی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ہندوستان وہ نہیں کر سکتا جو دنیا کی باقی معیشت نے کیا ہے جی ڈی پی کے 7فیصدسے 15فیصد تک کا محرک پیکج دینا۔
مرکز نے اب تک جی ڈی پی کا 0.8فیصد محرک پیکج دیا ہے اور جس کا کچھ حصہ کنسٹرکشن لیبر اورمنرل ڈیولپمنٹ سے جڑی ریاست کے فنڈس سے لیا گیا تھا۔بڑی بات یہ ہے کہ اگر مودی کو لگتا ہے کہ ہندوستان باقی ممالک کی طرح لگاتار چل رہے ایک مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بڑااقتصادی پیکج نہیں دے سکتا تو انہیں لازمی طور پر لاک ڈاؤن میں چھوٹ دینے کے بارے میں سوچ سمجھ کر اگلامنطقی قدم اٹھانا چاہیے اورکنسٹرکشن اوردوسرے مینوفیکچرنگ کاروبار کےمزدوروں کو کام پر لوٹنے دینا چاہیے۔
کئی بڑے صارفین والی کمپنیوں اور کنسٹرکشن پروجیکٹ کے سربراہوں کا ماننا ہے کہ وہ ابھی اپنی کل صلاحیت کے 20فیصد کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور آنے والے دو مہینوں میں خاطرخواہ حفاظتی تدابیر کے ساتھ نوجوان مزدوروں کو لاتے ہوئے وہ اسے دھیرے دھیرے 50-60 فیصدی کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کیسے کیا جائےگا، اس بارے میں وزیراعظم کو وزرائے اعلیٰ سے بات کرنی ہوگی۔ اسی جگہ ان کی قیادت کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس ایسا کرنے یا پھر مئی کے آخر تک 35-40فیصدتک بڑھی نوجوان بےروزگاری میں سے کسی ایک کو چننے کااختیار ہے۔اڑیسہ ، مہاراشٹر اور پنجاب جیسی کئی ریاستوں نے لاک ڈاؤن کو آگے بڑھانے کا راستہ چنا ہے کیونکہ وہ ایک آسان راستہ نظر آتا ہے۔
آئی سی ایم آر کے سائنسدانوں کی وارننگ کے مطابق، آنے والے وقت میں انہیں اس آسان اختیارات کو چننے کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ دراصل مہارت کا پتہ اسی بات سے چلے گا کہ ہندوستان اس مکمل تالابندی سے باہر کیسے نکلتا ہے۔