خصوصی رپورٹ: دی رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ گوا کے دو گاؤں– امونا اور نویلیم میں ویدانتا کے کچا لوہا بنانے والے دو آئرن پلانٹس کو چلانے میں ماحولیاتی قوانین کی شدید خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے درجنوں اصول و ضوابط ہیں، اس کے ساتھ ہی وزارت ماحولیات، مرکزی اور ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ اور ماحولیاتی امور کے لیے ایک خصوصی عدالت اور نیشنل گرین ٹریبونل بھی ہیں۔ پھر بھی ایک ارب ڈالر کی کمپنی کو ایک دہائی تک آلودگی پر قابو پانے میں ناکامی اور غلط رپورٹنگ کے باوجود اس کےآئرن مینوفیکچرنگ کے کاموں کو بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے۔
گوا کے دارالحکومت پنجی سے تقریباً 25 کلومیٹر دور امونا اور نویلیم دو گاؤں ہیں۔ دونوں میں ایک پگ–آئرن مینوفیکچرنگ پلانٹ ہے جسے ویدانتا چلاتا ہے۔ لوہے کو کاسٹ–آئرن یا پگ–آئرن میں ڈھالنے کے لیےپلانٹس میں دن بھر جلنے والی ٹاورنگ بلاسٹ فرنیس (بھٹی) اسے لوہے میں ریفائن کرتی ہے۔
ویدانتا خود کو 80000 ٹن کی ماہانہ صلاحیت کے ساتھ ‘ہندوستان میں پگ–آئرن کا سب سے بڑا پروڈیوسر’ بتاتا ہے۔ سال 2018 سے، یہ اپنے آپ کو بڑھاتے ہوئے (توسیع) تقریباً 701 کروڑ روپے کے توسیعی منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے چھان بین کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری 2022 میں مرکزی وزارت ماحولیات نے منفی ماحولیاتی آڈٹ اور رپورٹ کے باوجود کمپنی کو ان پلانٹس کے آپریشن میں تیزی لانے کی اجازت دی ۔
وزارت نے خود اپنی معائنہ رپورٹ میں پلانٹس سے مہلک گریفائٹ کے اخراج کی تصدیق کی ہے۔ گوا آلودگی کنٹرول بورڈ نے پایا کہ پلانٹ مسلسل متعینہ حدود سے تجاوز کر کے ماحولیات کوآلودہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں ہی بورڈ اور وزارت نے ماحولیات کو نقصان پہنچانےکے لیے پلانٹس کو دو بار وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے ہیں۔
دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزارت نے جن خلاف ورزیوں اور وارننگ کو نظر انداز کیا، وہ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔ ویدانتاپلانٹس سے نکلنے والی آلودگی میں گریفائٹ کے ذرات کی موجودگی کو 2008 سے درج کی جا رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ان پلانٹس کے آس پاس کی ہوا میں سانس لینے والوں کے لیے مضر ہیں۔
اس کے باوجود یہ پلانٹس 14 سال گزرنے کے بعد بھی گریفائٹ اُگل رہے ہیں۔ گریفائٹ کاربن کا ایک ایلوٹروپ (کیمیائی عنصر) ہے، جو جلد اور آنکھوں میں جلن پیدا کر سکتا ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اور جسم کے اہم اعضاء کو متاثر کر سکتا ہے۔
ویدانتا کا معاملہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ کیوں بہت ساری کمپنیاں ہندوستان کے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود سزا سے بچ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں گزشتہ تین سالوں میں ماحولیاتی قوانین کے تحت درج 1737 مجرمانہ معاملوں میں سے 39 افراد کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔
حکومت مجرموں کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور مالی جرمانے عائد کرنے کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے۔ ایسا کرنااصل میں ترقی کے نام پرپلانٹس کو ‘آلودگی کے لیے پیسے بھرنے’ کے رویے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
‘ایک یونٹ یا دو’؟
جب ویدانتا نے اپنا دوسرا پلانٹ لگایا تو اس نے قوانین کی زیادہ پرواہ نہیں کی۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا ویدانتا کے یہ دو پلانٹس ایک اکائی ہیں – جہاں ایک پلانٹ دوسرے کی توسیع محض ہے یا دو الگ الگ پروجیکٹ۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ جواب کی بنیاد پر ویدانتا کو دوسرے پلانٹ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے مزید سخت قوانین پر عمل کرنا ہوتا، ساتھ ہی خرچ بھی زیادہ ہوتا۔
خاص طور پر جب ایک پلانٹ اپنے کام کو بڑھا رہا ہوتا، تب حالات زیادہ کٹھن ہوتے۔
دستاویزوں کے مطابق، امونا اور نویلیم بلاسٹ فرنیس کے درمیان 2.5 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ لیکن ویدانتا کا کہنا ہے کہ پچھلے پلانٹ سے متعلق کچھ دیگر سہولیات نئے پلانٹ کے قریب ہیں۔
جون 2009 میں مرکزی وزارت ماحولیات نے سیسا انڈسٹریز لمیٹڈ (اب ویدانتا) کو نویلیم گاؤں میں پگ–آئرن پلانٹ لگانے کے لیے ماحولیاتی منظوری دی۔ یہ امونا گاؤں میں 1992 میں لگائے گئے پگ–آئرن پلانٹ ، جسے گوا آلودگی کنٹرول بورڈ سے منظوری ملی ہوئی تھی ، کے قریب بنایا جانا تھا۔
لیکن امونا پلانٹ کے برعکس نویلیم پلانٹ کو پہلے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (ای آئی اے) سے گزرنا پڑا، کیوں کہ حکومت نے 2006 میں نئے ضوابط نوٹیفائی کیے تھے۔ای آئی اے نوٹیفکیشن انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 1986 کے تحت آنے والا ایک قانون ہے۔
ای آئی اے کے عمل میں عوامی مشاورت انتہائی اہم ہے، جس میں ایک عوامی سماعت بھی شامل ہے، جہاں اس سے متاثر ہونے والی کمیونٹی کے ارکان منصوبے پر اعتراضات درج کرا سکتے ہیں۔
لیکن سیسا اور وزارت ماحولیات کا کہنا تھا کہ منظوری پرانے امونا پلانٹ کی توسیع کے لیے تھی نہ کہ بالکل ہی نئے منصوبے کے لیے۔
امونا کے رہنے والے اور منظوری کے خلاف عدالت پہنچےایک ایک عرضی گزار پرویر پھڑتے بتاتے ہیں کہ،کمپنی نے نویلیم میں ایک نئے پروجیکٹ کے لیے منظوری حاصل کی ۔ چونکہ نویلیم ایک صنعتی علاقے میں ہے، اس لیے اسے عوامی سماعت سےچھوٹ دی گئی تھی۔ لیکن بعد میں اسے امونا پلانٹ کی توسیع کہا گیا۔ آلودگی کے حوالے سے مقامی لوگوں کے اعتراضات کبھی نہیں سنے گئے، کیونکہ صنعت مسلسل ترقی کر رہی تھی۔
سال 2009 کی منظوری کے بعد کے سالوں میں، پھڑتے اور اس سے متاثرہ دیگر مقامی لوگوں نے اس کی منظوری کو دو عدالتوں میں چیلنج کیا، حالانکہ 2016 میں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے اس کا نوٹس لیا۔ درخواست گزاروں نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے منظوری دینے سے پہلے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کے اثرات کے بارے میں غور نہیں کیا، ساتھ ہی عوامی سماعت کے بغیریہ منظوری ناقص تھی۔
سال 2017 میں این جی ٹی نے فیصلہ سنایا کہ دونوں اکائیاں واضح طور پر الگ الگ تھیں اور ای آئی اے نوٹیفکیشن 2006 میں استعمال کیے گئے لفظ ‘توسیع’ کے دائرے میں نہیں آتی ہیں۔ اس نے وزارت ماحولیات کو ہدایت دی کہ اگر ماحولیاتی منظوری کے لیے کوئی اضافی شرائط عائد کرنے کی ضرورت ہے، تو وہ اس کی جانچ کرے۔
سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ساتھ ماحولیاتی پالیسی کےمحقق کے طور پر کام کرنے والی کانچی کوہلی کہتی ہیں،اگر یہ توسیع نہیں تھی تو وزارت کی طرف سے منظوری کا ایک نیا عمل اور ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ ایک عوامی مشاورت ہونی چاہیے تھی، جس کے ذریعے ویدانتا کی سرگرمیوں کے اثرات کو اس سے متاثرہ لوگوں کے سامنے رکھا جاتا۔
این جی ٹی کے فیصلے کے بعد وزارت ماحولیات اور گوا ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ نے 2020 میں پلانٹ کا معائنہ کیا تھا۔ وزارت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نویلیم اور امونا میں اکائیاں اوور ہیڈ کنویئر کے توسط جڑی ہوئی تھیں، ان کے پاس مساوی ملکیت، مالیاتی رٹرن اور فراہمی کی سہولتیں تھیں اور اس طرح سے وہ ‘حقیقت میں سنگل اکائی’ تھی۔
تاہم، وزارت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ویدانتا نے صلاحیت میں اضافے کے لیے منظوری طلب کرتے ہوئے نولیم اور امونا میں بلاسٹ فرنیس کو الگ الگ اکائیوں کے طور پر دکھایا تھا۔ کئی مواقع پر امونا پلانٹ کی توسیع کے لیے ویدانتا کی تجاویز کا جائزہ لیتے ہوئے وزارت نے اس سے ان اکائیوں کو مربوط کرنے کے لیے کہا تاکہ اس کے اثرات کی تشخیص میں ان کے مجموعی ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اثرات کا اندازہ لگانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے کیونکہ اس میں ماحول پر پڑنے والے مجموعی اثرات کا تعین کرنے سے پہلے کسی ایک آئندہ منصوبے کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات یا علاقے کی دیگر صنعتوں کا حساب وکتاب بھی شامل ہے۔ لہذا، سہولیات کو الگ اکائیوں کے طور پر دکھانے سے ماحولیاتی اثرات کے حساب وکتاب کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اکائیوں کو الگ الگ دکھانے سے کمپنی کو آسان ٹرمس آف ریفرنس (شرائط) ملتی ہیں، جو ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کے لیے رہنما خطوط ہیں، اور جو وزارت کو منظوری پر غوروخوض کرنے سے پہلے منصوبے کا جائزہ لینے میں مدد کرتی ہیں۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر ویلیو ایشن میں اکائیوں کو ایک سمجھا جائے تو کمپنی کو اپنی فیکٹریوں سے ہوئی گندگی کو صاف کرنے کے لیے بہت کم رقم مختص کرنی ہوگی۔
ویدانتا کی توسیع کے معاملے میں کمپنی نے سب سے پہلے 35 کروڑ روپے کا ماحولیاتی انتظامی منصوبہ تیار کیا۔ وزارت نے اسے ناکافی پایا، اس لیے کمپنی نے ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے کے لیے اس کی لاگت بڑھا کر 90.68 کروڑ روپے کر دی۔
اس طرح ویدانتا نے ماحولیاتی ضوابط کو پامال کرنے کی کوشش کی۔
سال 2016 میں، ویدانتا نے منظوری کے لیے وزارت ماحولیات کو دو تجاویز پیش کیں: اپنی مصنوعات کو تبدیل کرنےکا، اور امونا میں اپنی بلاسٹ فرنیس کی صلاحیت کو بڑھانے کا۔
(اس طرح کی تبدیلیوں کا ماحولیات پر اثر پڑتا ہے، جس کی منظوری سے پہلے جانچ کی جانی چاہیے، تاکہ ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات بھی ٹھوس ہوں۔)
وزارت نے بدلے میں کمپنی کے سامنے دو شرائط رکھی۔ ویدانتا نے بعد میں ان شرائط میں سے ایک میں ترمیم کی مانگ کی – وہ یہ کہ کمپنی اب نویلیم میں بھی بلاسٹ فرنیس کی صلاحیت کو بڑھانا چاہتی تھی۔
دسمبر 2018 میں ماہرین کی کمیٹی کی ایک میٹنگ میں، وزارت نے ویدانتا کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کمپنی کو دو شرائط بھیجی تھیں، کیونکہ اس نے اپنی اکائیوں کے الگ ہونے کی بات کہی تھی۔ اب، اس نے ویدانتا سے کہا ہے کہ وہ ایک مشترکہ تجویز پیش کرے تاکہ وہ ای آئی اے کے لیے وسیع تر شرائط عائد کر سکے۔
کوہلی بتاتی ہیں، 2016 تک مربوط منصوبوں کے لیے سرکاری اصول اچھی طرح واضح ہوچکے تھے۔ اگر کسی صنعت کے پاس مربوط سہولیات ہیں تو انہیں ایک مربوط تجویزہی پیش کرنی ہو گی، چاہے وزارت کی مختلف سیکٹرل کمیٹیوں کی طرف سے منظوری دی جائے۔
ویدانتا نے 10 دنوں کے بعد ایک نئی ‘انٹیگریٹڈ’ تجویز پیش کی۔ بدلے میں، اسے مارچ 2019 میں شرائط ملیں اور اس سال جنوری میں تجویز کو منظوری دی گئی۔ اس توسیع کے لیے کمپنی نے گزشتہ سال مارچ میں عوامی سماعت کا اہتمام کیا تھا، جس میں زیادہ تر لوگوں نے اعتراضات کیےتھے۔
اگست 2021 میں نئی ‘انٹیگریٹڈ’ تجویز کا جائزہ لیتے ہوئے وزارت کی ماہرین کی کمیٹی نے کمپنی کو دو اکائیوں کو اپنے ای آئی اے میں انٹیگریٹڈ یونٹ کے طور پر نہیں ماننے کی بات کہی تھی۔ نتیجے کے طور پر، کمپنی کے ای آئی اے میں ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کو کافی کم کرکے دیکھا گیا۔
کمیٹی نے خصوصی طور پر کہاکہ ویدانتا نے 2009 میں ماحولیاتی منظوری حاصل کی تھی، لیکن ‘آج تک مذکورہ یونٹس کو مربوط نہیں کیا’، ساتھ ہی یہ کہ کمپنی نے کلیئرنس یا منظوری کے لیے درخواست دیتے وقت ‘نامکمل/غلط اور متضاد جانکاریاں’ پیش کی تھی۔
کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ،تمام اکائیوں کو مربوط (انٹیگریٹڈ)کرکےای آئی اے رپورٹ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اثرات کی تشخیص کی بھی اشد ضرورت ہے۔
وزارت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے کے لیے ویدانتا کا منصوبہ صرف 35 کروڑ روپے کاتھا–اس کے 701 کروڑ روپے کی کل پروجیکٹ کی قیمت کا صرف 5 فیصد(ویدانتا نے بعد میں منظوری ملنے کے بعد اسے بڑھا کر 90.68 کروڑ روپے کر دیا تھا۔)
ای آئی اے نوٹیفکیشن 2006 کے تحت گمراہ کن معلومات فراہم کرنا وزارت کے لیے کسی تجویز کو مسترد کرنے اور یہاں تک کہ اس معلومات کی بنیاد پر دی گئی منظوری کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہاں وزارت نے ویدانتا کو صرف ہمدردانہ سرزنش کرکے اس بات کا اعادہ کیا کہ کمپنی کو اپنی سہولیات کو مربوط کرنا چاہیے اور اثرات کا اندازہ لگانا چاہیے۔
تاہم، چونکہ ویدانتا نے اس سے قبل مارچ 2021 میں ایک عوامی سماعت منعقد کی تھی، اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ متاثرہ کمیونٹی کو ان کے اعتراضات کے لیے ترمیم شدہ اثرات کا جائزہ پیش نہیں کرے گا۔
کوہلی کہتی ہیں،بہت سے معاملات میں عوامی مشاورت ایک الگ ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کی رپورٹ کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا، اصل منصوبہ کبھی بھی اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کے سامنے نہیں آتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ترمیم شدہ ای آئی اے کو لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
وزارت ماحولیات نے ویدانتا کی فائل صرف اس وجہ سے واپس نہیں کی کہ کمپنی نے اپنی دونوں فیکٹری کو دیکھتے ہوئے اثرات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا تھا، وزارت کی ماہرین کی کمیٹی کے پاس ویدانتا کے آلودگی کے اصولوں کی تعمیل پر گوا آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپورٹ بھی تھی- یعنی کہ کیا ویدانتا ماحولیاتی تحفظ کے لیے پہلے سے موجود شرائط کو پورا کر رہا تھایا نہیں۔
اس رپورٹ میں خلاف ورزیوں کی فہرست دی گئی تھی، جن میں سے کچھ سنگین تھیں۔ ان میں کارخانے کے پانی کو قریبی آبی ذخائر میں ڈالا جانا، ہوا کے معیار کی نگرانی کے آلات پر چمکتے ذرات کی موجودگی، تاریخی مقامات کی حفاظت کرنے والی ایجنسی کی جانب سے منظوری نہ ہونا، ثانوی اخراج کنٹرول کانہ ہونا، نقل و حمل کے لیے بلیک–ٹاپ والی سڑکیں اور گرین بیلٹ نہ ہونا شامل تھے۔
وزارت نے ویدانتا کی تجویز کو مسترد کر دیا اور گزشتہ سال اگست میں کمپنی کو رپورٹ میں اٹھائے گئے مسائل کا جواب دینے کے لیے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا۔
اکتوبر 2021 میں گوا آلودگی کنٹرول بورڈ کے ساتھ بنگلورو میں وزارت کے مربوط علاقائی دفتر (آئی آر او) نے پلانٹس کا معائنہ کیا اور ویدانتا کو اس کے خلاف لگے الزامات سے بری کر دیا۔
معائنہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ویدانتا کی تعمیل ‘اطمینان بخش’ تھی، حالانکہ پہلے آلودگی کنٹرول میں درج بڑی خلاف ورزیاں ابھی تک حل نہیں ہوئی تھیں۔ گریفائٹ کے ذرات ابھی بھی آس پاس کے علاقوں میں گر رہے تھے، سڑکیں کالی نہیں تھیں اور بلاسٹ فرنیس سلیگ (بلاسٹ فرنس میں مائع لوہے کے اوپر سےنکالے گئے فضلہ) کو ٹھکانے لگانا اور/یا مناسب طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا تھا۔
وزارت نے ویدانتا کو تعمیل کے لیے مزید وقت بھی دیا۔
وزارت کے خدشات کو دور کرنے کے بعد ویدانتا نے دسمبر 2021 میں ایک نئی رپورٹ کے ساتھ دوبارہ درخواست دی۔ اس رپورٹ اور کمپنی کے جوابات کی بنیاد پر ماہرین کی کمیٹی نے دسمبر 2021 میں وزارت کو منظوری کے لیے ویدانتا کی نئی تجویز کی سفارش کی، جس کے ساتھ ہی وزارت نے اپنا وجہ بتاؤ نوٹس بھی رد کر دیا۔
تاہم، وزارت کی فائل نوٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت کے عہدیداروں نے گوا آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپورٹ کو نظر انداز کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ رپورٹ 2018 میں یعنی تین سال قبل کیے گئے ایک معائنہ پر مبنی تھی۔ حکام نے کہا کہ کمپنی نے ‘ممکنہ طور پر’ ان تین سالوں میں –آئی آر او اور ریاستی آلودگی کنٹرول کے ذریعے معائنہ کے وقت تک – ان شرائط کی تعمیل کرلی ہوگی۔
اس عمل میں حکام نے آلودگی کی واضح رپورٹ اور اگست 2021 میں بورڈ کے ماحولیاتی آڈٹ کے نتائج کو نظر انداز کیا۔ آڈٹ کمیٹی میں وزارت ماحولیات کی کمیٹی کے رکن جے ایس کامیوترا بھی شامل ہیں۔
آڈٹ میں کہا گیا کہ فضائی آلودگی کنٹرول کرنے والے آلات کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اور میسرز گڈارک لیبز کی طرف سے آلات کی کارکردگی کا جائزہ نامکمل تھا۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ شامل کیا گیا تھاکہ تشخیصی رپورٹ ‘تعمیل کے مقصد کے لیے ہی تیار کی گئی لگتی ہے’۔
آڈٹ میں گندے پانی کی نکاسی، ذرات کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے ناکافی اقدامات اور ویدانتا نے ماحولیاتی اصولوں کی تعمیل ظاہر کرنے کے لیے ڈیٹا کو کیسے اکٹھا کیا، جیسے کئی مسائل بھی اٹھائے گئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ویدانتا کی تعمیل کو’اطمینان بخش’ قرار دینے والی آئی آر او معائنہ میں ان میں سے کچھ مسائل کا ذکر بھی نہیں تھا۔
کوہلی کہتی ہیں، وزارت کو اس آڈٹ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کا ایک ممبر سرکاری طور پر اس کا حصہ تھا۔انہیں منظوری دینے سے پہلے اپنی سطح پر ہر تفصیل پر غور کرنا چاہیے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے وزارت ماحولیات اور ویدانتا کے نمائندوں کو ایک تفصیلی سوالنامہ بھیجا ہے۔ وزیر ماحولیات کے دفتر نے سوالات دیگر حکام کو بھیجے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ ویدانتا کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ جوابات موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔
گریفائٹ اگلنے والا شیطان!
آلودگی کے بارے میں سنگین خدشات، بالخصوص ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری گریفائٹ کے اخراج کے باوجود ویدانتا کو چلتے رہنے دینے اور پھیلانے (توسیع )کی اجازت دی گئی ہے۔ ویدانتا نے بھی اس کے بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں کیا تھا جب تک کہ اسے اس سال جنوری میں گریفائٹ کے اخراج کی جانچ کے لیے مارچ 2022 کی آخری تاریخ کے ساتھ اضافی وقت نہیں دیا گیا۔
گوا آلودگی کنٹرول بورڈ نے فروری اور مارچ 2020 میں اپنے ‘ماحولیاتی ہوا کے معیار پر عبوری مطالعہ’ میں پایا کہ امونا پلانٹ کے ارد گرد آلودگی پی ایم 10اور پی ایم 2.5 کی طے شدہ حد سے زیادہ ہے۔ یہ نظام تنفس کے لیے نقصاندہ سمجھے جاتے ہیں۔
اپریل 2020 میں ایک رہائشی نے ‘خطرناک بدبو’ کی شکایت کی، جبکہ دونوں یونٹوں کے آس پاس کے علاقے میں چھتوں اور درختوں کے پتوں پر گریفائٹ کے ذرات نمودار ہونے لگے۔ آلودگی کنٹرول بورڈ نے مئی 2020 میں یونٹوں کی تقریباً چھ سائٹ کا معائنہ کیا اور ان میں سے پانچ میں ‘چمکدار ذرات’، جو دراصل ویدانتا پلانٹس سے خارج ہونے والے گریفائٹ کے ذرات تھے کی موجودگی کا پتہ چلا۔
چودہ سال پیچھے جاتے ہیں – گوا میں بامبے ہائی کورٹ کی بنچ کے سامنے دائر کی گئی ایک پٹیشن کے بعد نیشنل انوائرنمنٹل انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ای ای آر آئی ) نے گریفائٹ کے اخراج اور انسانی صحت پر اس کے اثرات پر فوری ای آئی اے کروایا۔ یہ رپورٹ دسمبر 2008 میں شائع ہوئی تھی۔
عدالت نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ گریفائٹ آلودگی کے لیےسیسا انڈسٹریز کی سرگرمیاں ذمہ دار تھیں۔ اس نے حکم دیا کہ کمپنی این ای ای آر آئی کی سفارشات پر عملدرآمد کرے، ساتھ ہی بورڈ کو علاقے میں ہوا کے معیار اور گریفائٹ آلودگی کی مسلسل نگرانی کرنے کو کہا۔
آج 14 سال گزرنے کے بعد بھی اس صورتحال میں بہت کم تبدیلی نظر آتی ہے۔
امونا کے رہنے والے پروین پھڑتے کہتے ہیں،ویدانتا آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے آلودگی کی جانچ کے لیے این ای ای آر آئی کی سفارشات کو بھی نافذ نہیں کیا ہے۔ پھڑتے نے 2017 میں اسی ہائی کورٹ میں ‘توہین عدالت’ کا مقدمہ دائر کیا تھا، لیکن یہ تب سے ہی زیر التوا ہے۔
وہ بتاتے ہیں،چمکدار گریفائٹ کے ذرات کنویں، کچن، کھیتوں میں رہ جاتے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ سانس کی بیماریوں جیسے کہ دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ویدانتا کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا ویدانتا کی اکائیاں علاقے میں صحت کے مسائل کے لیے ذمہ دار تھیں یا نہیں۔
ہتک کے معاملے کی سماعت کے دوران گوا آلودگی کنٹرول بورڈ نے ایک بار پھر دونوں یونٹوں کے آس پاس کے علاقے کا معائنہ کیا اور بتایا کہ دیگر مقامات کے علاوہ عوامی کنوؤں میں ‘چمکدار ذرات’ پائے گئے ہیں۔ زونل ایگریکلچر آفس نے جون 2022 میں ایک اور معائنہ کیا اور کھیتوں میں گرنے والے ‘چمکدار ذرات’ کی جانچ کی، جو فصلوں کی کم پیداوار کے لیے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ سال مارچ میں منعقد ایک عوامی سماعت میں مقامی کمیونٹی نے ویدانتا کی توسیع کی سخت مخالفت کی تھی۔ گزشتہ سال اگست میں ویدانتا نے ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں کیا جبکہ اس وقت وزارت ماحولیات اپنی ای آئی اے رپورٹ پر غور کر رہی تھی۔
ویدانتا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مقامی لوگوں کی پریشانیوں کو بڑھا رہے ہیں۔ اور جیسے جیسے کمپنی اس علاقے میں پھیلے گی، اس کے نتائج ویدانتا کے بجائے یہاں کو لوگوں کو بھگتنے ہوں گے۔
(تپسیا دی رپورٹرز کلیکٹو کی رکن ہیں۔)