سابق حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پہلے جموں وکشمیر پولیس اس بات پر رضامند ہوئی تھی کہ ان کے اہل خانہ ان کی تجہیز وتکفین کے انتظامات کر سکیں گے، لیکن بعد میں پولیس ان کی لاش لے کر چلی گئی۔
گیلانی کے انتقال کے بعد سری نگر کے حیدر پورہ میں 02 ستمبر کو تعینات پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
گزشتہ بدھ(1 ستمبر)کی شب ساڑھے دس بجے تک سری نگر کے باہری حصہ میں بنے سید علی شاہ گیلانی کے گھر سے یہ خبر نکل کر پھیل چکی تھی کہ بزرگ حریت رہنما گزر گئے ہیں۔
گیلانی کے اہل خانہ نے اپنے رشتہ داروں کو فون کرکے بتایا اور اس کے بعد جلد ہی یہ بات سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ جیسے ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح کشمیر اور اس سے باہر پہنچی، جموں وکشمیر پولیس کے اہلکار، کچھ وردی میں تو کچھ سادہ کپڑوں میں، جن میں زیادہ تر چہرہ ڈھکے ہوئے تھے، گیلانی کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے اہل خانہ سے تجہیز وتکفین کی تیاری کرنے کو کہا۔
ایک پولیس کے ذرائع نے بتایا،‘ہم نے نظم ونسق کو سنبھالنے کے لیے کئی پلان بنائے تھے۔ ہم اس کے لیے تیار تھے اور ایک اچھی بات یہ رہی کہ ان کا انتقال رات کو ہوا۔ اگر وہ دن میں گزرے ہوتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔’
جموں وکشمیر انتظامیہ نے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ کےڈائریکٹر ڈاکٹر اےجی اہنگر کو فوراً گیلانی کے گھر بھیجا۔ کچھ دیر بعد کشمیر کے آئی جی وجئے کمار ایک ایس ایس پی کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔
پورے کشمیر میں کمیونی کیشن بلیک آؤٹ لگا دیا گیا تھا۔وادی میں اور گیلانی کے گھر کے باہر ہزاروں پولیس اہلکاروں اور نیم فوجی دستے سڑکوں پر لوگوں کو ان کے (گیلانی کے)گھر تک پہنچنے سے روک رہے تھے۔
گیلانی چاہتے تھے کہ انہیں سری نگر کے باہرشہیدوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے، حالانکہ پولیس کے لیے ان کے جنازے کا حیدرپورہ سے ڈاؤن ٹاؤن سری نگر تک جانے کا خیال ہی سلامتی کے لحاظ سے مہنگا ثابت ہوتا۔
آئی جی وجئے کمار نے تب گیلانی کے بڑے بیٹے نعیم گیلانی سے بات کی، جو اپنی اہلیہ کے ساتھ اس وقت گھر پر موجود تھے۔ یہ آدھی رات کے بعد کی بات ہے جب کمار نے مبینہ طور پر مانگ کی کہ ‘سلامتی وجوہات’سے انہیں سورج طلوع ہونے سے پہلے دفن کیا جائے۔
پیشہ سے ڈاکٹر نعیم بتاتے ہیں،‘میں نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ انہوں(گیلانی)نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ میں نے انہیں(کمار) کہا کہ ہم صبح ہونے کا انتظار کریں گے۔ ہمیں امید تھی کہ انہیں دفن کیے جانے سے پہلے ہمارے رشتہ دار انہیں ایک آخری بار دیکھ سکیں گے۔’
جیسے ہی وجئے کمار گھر سے نکلے، نیم فوجی دستے آنگن میں آ گئے۔ گیلانی کےجسد خاکی کے ارد گرد ان کے دونوں بیٹے نعیم اور نسیم گیلانی، تین بیٹیاں، بہوئیں اور نواسے پوتے بیٹھے تھے۔
تب پولیس نے اپنی کارروائی کی۔ پولیس جبراً گھر میں داخل ہوئی اور اس کمرے تک پہنچی، جہاں ہرے رنگ اور چاند کے نشان والے ایک کپڑے، جو پاکستانی جھنڈے کی طرح لگ رہا تھا، میں لپٹی گیلانی کی لاش رکھی تھی۔
اب جموں وکشمیر پولیس نے گیلانی کے اہل خانہ کے خلاف اس جھنڈے کا استعمال کرنے کے لیے ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گیلانی کی موت کے بعد نامعلوم لوگوں کے ذریعے گھر پر ‘ملک مخالف ’ نعرے لگائے گئے تھے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کیا نعرے تھے اور ایف آئی آر میں ان کا ذکر ہے یا نہیں۔
گیلانی کے اہل خانہ کےمطابق، پہلے تو پولیس اس بات پر رضامندتھی کہ انہیں اور ان کے پڑوسیوں کو آخری رسومات ادا کرنے دیےجا ئیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ایک رشتہ دارنے بتایا،‘اس کے بجائے انہوں نے گھر پر چھاپہ مارا، سب الٹ پلٹ کر دیا، رشتہ داروں کو مارا اور ان کی میت لے کر چلے گئے۔ ان کے پاس اسٹریچر بھی نہیں تھا، وہ لاش کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔’
نعیم نے بتایا،‘ہم نے انہیں اس کمرے (جہاں گیلانی کی لاش رکھی تھی)میں جانے سے روکا لیکن انہوں نے دروازہ توڑ دیا۔’
اس کمرے میں شوٹ ہوا ایک دھندلا ویڈیو سامنے آیا ہے، جس میں نعیم درجنوں پولیس اہلکاروں ، جن میں سے کچھ کے پاس آٹومیٹک ہتھیار ہیں، سے درخواست کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو لاش کے ساتھ کچھ وقت گزارنے دیا جائے۔
نعیم انہیں گھیرے پولیس اہلکاروں سے کہتے ہیں، ‘کیونکہ وہ گزر گئے ہیں، اس لیے آپ ہم پر دباؤ بنا رہے ہیں۔ ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے جو آپ ہمیں کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کیجیےکیونکہ آپ کے پاس طاقت ہے، اتھارٹی ہے، سب ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہم ان کے ساتھ بس کچھ وقت بتانا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس یہ کرنے (ان کی لاش کو لے جانے کے)کے (آفیشیل)آرڈرنہیں ہیں۔ آگے بڑھیے اور جو چاہتے ہیں کیجیے۔’
نعیم بتاتے ہیں کہ اس دوران پولیس والےکمرے کی بتی جلاتے بجھاتے رہے اور افراتفری مچ گئی۔ اسی بیچ گیلانی کی لاش کو کھینچ کر آنگن میں لے آیا گیا۔
سامنے آیا ایک اور ویڈیو دکھاتا ہے کہ نعیم اور ان کے رشتہ داردل برداشتہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور پولیس اہلکار جبراً کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے گیلانی کے ایک رشتہ دار نے کہا کہ اس ویڈیو کے شوٹ ہونے تک پولیس ان کی لاش لے جا چکی تھی۔
نعیم نے بتایا،‘وہ برسوں سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر کے باہر ایک ایمبولینس تھی۔ انہوں نے سب انتظام کیے ہوئے تھے ان کے پاس کفن تھا، گورکن تھا۔ انہیں دفن کرنے میں ہمارا کوئی رول نہیں تھا۔’
خاندانی ذرائع کے مطابق، گیلانی کے بھتیجے عبدالرشید شاہ اور ان کے بیٹے جو جنوبی کشمیر کے دو رو علاقے میں رہتے ہیں، ہی وہ رشتہ دار تھے، جو انہیں دفن کرنے کے لیے پہنچ سکے تھے۔
شاہ کو گیلانی کے اہل خانہ نے ان کے گزر نے کی اطلاع دی تھی اور وہ کسی طرح حیدر پورہ پہنچ گئے۔ ایک خاندانی ذرائع نے بتایا، ‘لیکن انہیں (پولیس کے ذریعے گیلانی کے گھر)اندر نہیں آنے دیا گیا۔ جب انہوں نے رونے کی آواز سنی اور ایمبولینس کو باہر آتے دیکھاتو وہ اس کے پیچھےپیچھے گئے اور اسے قبرستان پہنچ کر رکتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے انہیں سپردخاک کیے جانے میں مدد کی۔’
انہی رشتہ دار نے کہا، ‘وہ سیکیورٹی پروٹوکال کا دھیان رکھتے ہوئے حالات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے تھے۔یہ کشمیریوں کی یاد میں ایک اور داغ کی طرح رہےگا۔تاریخ میں اسے ایک اور ظلم کی طرح درج کیا جائےگا۔’
جموں وکشمیر پولیس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ گیلانی کو دفن کرنے میں کسی طرح کے دباؤکا استعمال کیا گیا۔ ایک بیان میں پولیس ترجمان نے کہا کہ انہوں نے گیلانی کی لاش کو ان کے گھر سے قبرستان تک لے جانے میں مدد کی، جو مشکل سے کچھ سو میٹر کی دوری پر ہے۔
بیان میں آگے کہا گیا،‘کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے پولیس کے ذریعے گیلانی کو جبراً دفن کرنے کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کی ہیں۔ ایسی بے بنیادخبریں جو تشدد بھڑ کانے کے لیے فرضی پروپیگنڈہ کا حصہ ہیں، کو پولیس کی طرف سے پوری طرح سے خارج کیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے اصل میں پولیس نے لاش کو گھر سے قبرستان لانے میں مدد کی کیونکہ شرپسندوں کے حالات کا غلط فائدہ اٹھانے کا خدشہ تھا۔ گیلانی کے اہل خانہ ان کی تجہیز وتکفین میں شامل ہوئے تھے۔’
دی وائر نے آئی جی وجئے کمار سے گیلانی کی تجہیزوتکفین کے وقت موجود ان کے اہل خانہ کی فہرست دینے کی گزارش کی تھی، جس کے جواب میں انہوں نے کہا، ‘ہم چوتھے دن (اتوار) تک نظم ونسق بنائے رکھنے میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد ساری تفصیلات، تصویریں اور ویڈیو میڈیا کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔’
اس بات کو خارج کرتے ہوئے کہ انہیں دفن کیے جانے کو ‘آرام دہ’بنانے کے لیے پولیس نے کیا قدم اٹھائے ہیں، اس کی واضح تفصیلات دینے سےاصل میں حکام کو نظم و نسق بنائے رکھنے میں مدد مل سکتی ہے،آئی جی کمار نے کہا، ‘ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ میری پہلی ترجیح میڈیا کومطمئن کرنا نہیں بلکہ نظم ونسق بنائے رکھنا ہے۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)