سکم کے وزیر اعلیٰ پریم سنگھ تمانگ گولے کو 2016 میں بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ وہ 2018 میں جیل سے باہر آئے۔ اس کے بعد انہیں چھ سال کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے تھا، لیکن مرکز نے عوامی نمائندگی ایکٹ کی ایک کلیدی شق کو منسوخ کر دیا، جس کے باعث بی جے پی کے اتحادی تمانگ وزیر اعلیٰ بن سکے۔
سال 2019 کی ایک تصویر میں سکم کے وزیر اعلیٰ گولے وزیر اعظم مودی کے ساتھ۔ (فوٹو: www.sikkim.gov.in)
نئی دہلی: کانگریس کے سرکردہ رہنما راہل گاندھی کوجس تیزی کے ساتھ مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد نااہل قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ سزا ختم ہونے کے بعد وہ چھ سال تک الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو جائیں گے، یہ واقعہ حال ہی میں ایک علاقائی رہنما کے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے قانون کی خلاف ورزی کےاس واقعہ کےبالکل برعکس ہے، جس میں نریندر مودی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی ) نے مذکورہ رہنما کی مدد کی تھی۔
عوامی نمائندگی ایکٹ1951 کی دفعہ 8 کے مطابق، اگر کوئی موجودہ ایم ایل اے، ایم ایل سی یا ایم پی کسی ایسے جرم کے لیے قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے جس میں کم از کم دو سال قید کی سزا ہوتی ہے تو وہ سزا کے فیصلے والی تاریخ سے ہی قانون ساز اسمبلی/ پارلیامنٹ سے نااہل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی جیل سے باہر آنے کے بعد بھی وہ آئندہ چھ سال کے لیے نااہل رہے گا۔ اس لیے وہ اس مدت میں الیکشن نہیں لڑ سکتا/لڑ سکتی۔
لہٰذا، اگر راہل گاندھی کو سورت کی عدالت کی جانب سے سنائی گئی دو سال کی سزا ہو جاتی ہے اور وہ اس پر ہائی کورٹ سے روک لگوانے میں ناکام رہتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کوتقریباً آٹھ سال تک الیکشن لڑنے سے روک دیاجائے گا۔
بہرحال،راہل گاندھی کو نااہل قرار دینےمیں لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے جس عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا گیااورعدالتی فیصلے کے اگلے ہی دن انہیں پارلیامنٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ اس موقع پرایسے ہی ایک غیر معمولی واقعے کو یاد کرنا ضروری ہوجا تا ہے، جس میں اکتوبر 2019 میں ای سی آئی نے سکم کے وزیر اعلیٰ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اتحادی
پریم سنگھ تمانگ گولے کو اس قانون سے تحفظ فراہم کیا۔
ایک اور بے مثال قدم، لیکن نتیجے الگ
سال 2010 میں گولے سکم ڈیموکریٹک فرنٹ (ایس ڈی ایف) حکومت میں وزیر تھے۔ تب ریاستی ویجیلنس ڈپارٹمنٹ نے انیمل ہسبنڈری کے محکمے میں9.5 لاکھ روپے کی ہیرا پھیری کے سلسلے میں ان کے خلاف
کیس درج کیا تھا ۔ اس میں گولے پریہ الزام تھا کہ انہوں نے ریاستی حکومت کی ایک اسکیم کے تحت گائے خریدنے کے لیے عوام میں تقسیم کی جانے والی رقم کا غبن کیا ہے۔ انہوں نے جلد ہی ایس ڈی ایف سے ناطہ بھی توڑ لیا تھا۔
دسمبر 2016 میں گولے کو ٹرائل کورٹ نے انسداد بدعنوانی ایکٹ 1988 کے تحت ایک سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2017 میں سکم ہائی کورٹ نے بھی نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا، جس کی وجہ سے گولے پر قانون کے سامنے سرینڈر کرنے کا دباؤ بڑھ گیا۔
سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد گولے انڈر گراؤنڈ ہو گئے تھے۔ اگست 2017 میں انہوں نے گنگ ٹوک کے سیچی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سرینڈر کیا، اور پھر دارالحکومت گنگ ٹوک کی رونگیک جیل میں ان کے ایک سال کی قید کی سزا کی شروعات ہوئی۔
گولے نے اس معاملے میں ایس ڈی ایف کے سپریمو اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پون کمار چاملنگ کے ذریعے ان کے خلاف مقدمہ کو ‘سیاسی انتقام’ قرار دیا۔ انہوں نے اگست 2018 میں اپنی جیل کی مدت پوری کی اور اپنی علاقائی پارٹی
سکم کرانتی کاری مورچہ (ایس کے ایم) بنائی۔
سال 2018 کے اسمبلی انتخابات میں گولے نے 25 سالہ ایس ڈی ایف حکومت کے خلاف مہم کی قیادت کی، لیکن خود الیکشن لڑنے سےدور رہے کیونکہ یہ مانا گیا تھا کہ عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 8 انہیں بدعنوانی کی بنیاد پر نااہل قرار دے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک بی جے پی نے گولے کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے ایس ڈی ایف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا – محض اس لیے کہ چاملنگ شمال–مشرقی ریاست میں نیشنل پارٹی کو قبل از انتخابات اتحاد میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں تھے – حالانکہ گولے بی جے پی کی شرطوں پر راضی تھے۔بس اتنی سی شرط تھی کہ اگر ان کی پارٹی 32 رکنی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو انہیں وزیر اعلیٰ بننے کے لیے سکیورٹی کور حاصل ہو گا۔
اس کے بعد ایک حیرت انگیز پیش رفت میں
ایس کے ایم بھی بی جے پی کے نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے) کا حصہ بن گیا اور اس کا قدیم حریف
ایس ڈی ایف بھی اس کا حصہ رہا۔ بی جے پی نے جلد ہی ایس کے ایم کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد قائم کیا۔ تاہم، مودی سرکار کے شہریت بل میں ترمیم کرنے کے کے فیصلے کے خلاف عوام کے رخ کو دیکھتے ہوئے ایس کے ایم کو رسمی اتحاد سے باہر نکلناپڑا۔
سال 2018 میں ووٹوں کی گنتی کے بعدایس کے ایم کو 17 سیٹیں ملیں، جبکہ چاملنگ کی پارٹی نے 13 سیٹوں پرجیت حاصل کی۔ پھر سوال کیا گیا کہ گولے نہیں تو
وزیر اعلیٰ کون بنے گا؟
ایس کے ایم کے اندرونی ذرائع نے اس وقت انکشاف کیا کہ نئی دہلی سے مدد کی یقین دہانی کے بعد، ایس کے ایم نے گولے کو قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کیا۔ جلد ہی گورنر نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔
ناراض ایس ڈی ایف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ درخواست میں ایک دلیل یہ تھی کہ گورنر گنگا پرساد کی طرف سے تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ جے جئے للیتا کے معاملے میں سپریم کورٹ کے 2001 کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے وہ کردارادا کیاجس نے گولے اور گورنر کو پانچ ججوں کی بنچ کے حکم کے خلاف جانے کی اجازت دی۔
پون کمار چاملنگ۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی ٹی آئی)
الیکشن کمیشن آف انڈیا کا کردار
بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کے دعووں کے باوجود مودی حکومت نے اٹل بہاری واجپائی حکومت کے ذریعے 2003 میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں لائی گئی
ترمیم کو منسوخ کردیا۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 8 (1)(ایم) کے تحت – جیسا کہ واجپائی حکومت نے ترمیم کی تھی –بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ (پی سی اے) کے تحت قابل سزا جرم کے لیے قصوروار شخص کوسزا کی بنیاد پر الگ الگ مدت کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔اگر سزا جرمانہ ہے، تو وہ شخص سزا کی تاریخ سے چھ سال کی مدت کے لیے نااہل ہو جائے گا۔ اگر سزا قید ہے، جیسا کہ تمانگ کے معاملے میں تھا، تو اس شخص کو سزا کی تاریخ سے اور رہائی کے بعد چھ سال کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔
مودی کی جانب سے اس ترمیم کو ہٹانے کا مطلب یہ تھا کہ انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت کیے گئے جرائم کو اب ‘سنگین’ نہیں سمجھا جائے گا۔ اس طرح مودی حکومت نے ایسے جرائم کے مجرم سے الیکشن لڑنے کے لیے چھ سال کی نااہلی اور رہائی کے بعد اضافی چھ سال کی نااہلی واپس لے لی۔
لیکن گولے کا جرم 2010 میں ہوا تھا، جب واجپائی دور کی ترمیم نافذ تھی، اور دسمبر 2016 میں ان کو سزا سنائی گئی۔ اگر مودی حکومت نے 2003 کے ترمیمی ایکٹ کو منسوخ نہ کیا ہوتا تو ان کی نااہلی 28 دسمبر 2016 کو شروع ہو چکی ہوتی اور جیل سے ان کی رہائی کے چھ سال بعد 10 اگست 2024 کو ختم ہوتی۔
چیف منسٹرکے طور پر گولے جانتے تھے کہ انہیں حلف اٹھانے کے چھ ماہ کے اندر لازمی ضمنی انتخابات میں حصہ لینا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو عہدہ برقرار رکھنے کے لیے انہیں 27 اکتوبر 2019 تک سکم قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہونا پڑے گا۔ لیکن اگر انہیں 2024 تک الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تو وہ کیسے منتخب ہو سکتے ہیں؟
جولائی 2019 میں گولے نے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی، جس میں کمیشن سے کہا گیا کہ وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت انہیں معاف کرنے کے لیے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرے۔ اس درخواست پر عمل کرتے ہوئے کمیشن نے اکتوبر میں گولے کے حق میں فیصلہ دیا – اس طرح ان کے لیے الیکشن لڑنے کا راستہ صاف ہوگیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیشن نے اپنے سات صفحات پر مشتمل حکم نامے میں
اس بات کو بھی اہمیت دی کہ گورنر، جو ایک آئینی اتھارٹی ہے، نے انہیں وزیر اعلیٰ بننے کی دعوت دی تھی، اور ان کا حلف بھی لیا تھا، اس لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ گولے کو ‘معاف’ کر دیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گولے کو معاف کرنے کے لیے کمیشن کے صوابدیدی اختیارات کا استعمال،تین اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات لڑنے کے لیے ایس کے ایم کے ساتھ بی جے پی کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد کے اعلان کے ٹھیک دو دن بعد کیا گیا۔ کمیشن کے فیصلے سے پرجوش گولے نے 21 اکتوبر 2019 کو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپناپرچہ نامزدگی داخل کیا، جبکہ بی جے پی کے لیے دو دیگر نشستیں چھوڑ دی گئیں، تاکہ ایوان میں ان کو اپنی تعداد بڑھانے میں مدد ملے۔
دریں اثنا، سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک عرضی زیر التوا ہے۔ اس پر قانونی فیصلہ آنا باقی ہے کہ آیا ایکٹ کی دفعہ 8 گولے کی ایک سال کی سزا پر بھی لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔
مارچ 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے گولے اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیاتھا، لیکن اس کے بعد سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
سال 2019 میں کمیشن کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دی ہندو نے ایک اداریے میں اس قدم کو ‘اخلاقی طور پر غلط’ قرار دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ یہ ایک ‘خطرناک مثال’ قائم کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے راہل گاندھی کو عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت نااہلی سے تحفظ فراہم کرے گا یا گولے اس معاملے میں استثنائی مثال تھے؟
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)