’بلڈوزر جسٹس‘: شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی

قانونی ضابطہ اختیار کیے بغیر انسانوں کی رہائش کو اجاڑ دینا نہ صرف ملکی قانون بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

قانونی ضابطہ اختیار کیے بغیر انسانوں کی رہائش کو اجاڑ دینا نہ صرف ملکی قانون بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایکس)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایکس)

حالیہ برسوں میں ہندوستان میں ‘بلڈوزر جسٹس’ کا نظام  زور پکڑ رہا ہے۔ ریاست نے جرائم کے ملزموں  کی املاک کو سزا کے طور پر اور اکثر مناسب قانونی کارروائی کے بغیرمسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس چلن  نے بڑے پیمانے پر بحث اور قانونی چیلنجز کو جنم دیا ہے، اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جس میں اس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے17 ستمبر 2023 کو  بلڈوزر ایکشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عبوری فیصلہ سنایا  کہ ملک میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی  نہیں کی  جائے گی۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس فیصلے کا اطلاق عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں یا پانی کے ذخائر پر کیے گئےتجاوزات پر نہیں ہوگا۔

عدالت نے اپنے خصوصی اختیارات آرٹیکل 142 کے تحت یہ فیصلہ سنایا۔ تاہم، اس کا اطلاق ان غیر مجاز تعمیرات پر نہیں ہوگا جو عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ یا ریلوے لائنوں کے قریب تعمیر کی گئی ہیں۔

‘بلڈوزر جسٹس’ قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ کیوں ہے

قانون کی حکمرانی آئینی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور حکومت کا ہر عمل قانونی جانچ پڑتال کے تابع ہونا چاہیے۔ ہندوستان میں،یہ اصول آئین کے آرٹیکل13 میں درج ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ ریاست کے تمام اقدامات کو ملک کے قانون کے عین مطابق ہونا چاہیے۔

قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے کی جانے والی ہر کارروائی قانونی اور منصفانہ ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ عدلیہ کے پاس انتظامی کارروائیوں کی جانچ پڑتال کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ قانونی حدود میں ہیں۔

چیف سیٹلمنٹ کمشنر، پنجاب بنام اوم پرکاش کے معاملے میں  ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اس اصول کی توثیق کی کہ قانون کی حکمرانی ہندوستان کے آئینی ڈھانچے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی، حتیٰ کہ حکومت بھی، قانون سے ہٹ کر کام نہیں کر سکتی۔ ہر عمل کو قانونی ضابطوں کے خلاف پرکھا جانا چاہیے۔

تاہم ‘بلڈوزر جسٹس’ اس اصول کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، مسماری مناسب کارروائی کے بغیر کی گئی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ املاک کو منہدم کرنے سے پہلے اس کے مالک کو نوٹس دیا جائے۔ ہندوستان کے میونسپل قوانین کے مطابق، خلاف ورزی کرنے والے کو انہدامی کارروائی سے پہلے نوٹس دینا لازمی ہے۔

ہندوستان کے قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو سزا کے طور پر مجرموں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کی اجازت دیتی ہو۔ سیاسی دعوے پر مبنی یہ انہدامی کارروائی  نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ یہ قانون کا چنندہ طریقے سے استعمال بھی ہے، جو آئینی تحفظات کی خلاف ورزی ہے۔

آئینی خلاف ورزیاں اور ‘بلڈوزر جسٹس’

سپریم کورٹ نے اپنے کئی اہم احکامات کے توسط سے کہا ہے کہ قانون کو کسی بھی حالت میں من مانی طریقے سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ اگر کچھ انہدام کو قانونی طور پر جائز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن جن  لوگوں کے خلاف چنندہ  طریقے سے اس کا  استعمال کیا جاتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 13، آرٹیکل 14 (مساوات کا حق)، آرٹیکل 21 (زندگی اور شخصی آزادی کا حق)، اور آرٹیکل 300اے (حق ملکیت) کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کے جائیداد کے حقوق سے صرف قانونی عمل کے تحت ہی محروم کیا جا سکتا ہے۔ ‘بلڈوزر جسٹس’ اکثر ان تحفظات کو نظر انداز کر دیتا ہے اور قانونی کارروائی کے بغیر جائیدادوں کو مسمار کر دیتا ہے۔

اگرچہ جائیداد کا حق بنیادی حق نہیں ہے، لیکن یہ آرٹیکل 300اےکے تحت ایک آئینی حق ہے، اور مناسب قانونی اختیار کے بغیر جائیدادوں کو مسمار کرنا اس حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انسانی حقوق اور بین الاقوامی اقدار کی خلاف ورزیاں

‘بلڈوزر جسٹس’ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اقدار کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (یو ڈی ایچ آر) کے آرٹیکل 25(1) اور انٹرنیشنل کاوننٹ آن  اکانومی، سوشل اینڈ  کلچرل رائٹس (آئی سی ای ایس سی آر) کے آرٹیکل 11 کے تحت رہائش کے حق کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

قانونی اصولوں کے بغیر انسانوں کی رہائش کو اجاڑ دینا نہ صرف ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

‘بلڈوزر جسٹس’ کا موازنہ ‘اجتماعی سزا’ سے کیا جا رہا ہے، جو جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 87 (3) کے تحت ممنوع ہے۔ اجتماعی سزا کا مطلب ہے جب کسی فرد کےجرم کے لیے اس کے  خاندان یا برادری کو بھی سزا دی جاتی ہے۔ اس معاملے میں ملزم کے اہل خانہ کو گھر سے بے دخل کر کے انہیں بے گھر کر دیا جاتا ہے۔

یہ عمل ان  جابرانہ حکومتوں کے مماثل  ہے جو تاریخ میں نازی جرمنی اور شمالی کوریا جیسی جگہوں پر اپنایا گیا تھا۔ اس طرح کی مسماری زندگی بسر کرنے اور رہائش کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے، جو ایک باوقار زندگی کے لیے ضروری ہے۔

قانون کی حکمرانی سے متعلق سپریم کورٹ کے اہم فیصلے

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بہت سے تاریخی فیصلوں میں قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو برقرار رکھا ہے۔ سوم راج بنام ریاست ہریانہ کے معاملے میں  ، عدالت نے فیصلہ دیا کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب من مانی طاقت کی عدم موجودگی ہے۔ اسی طرح مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا کے مشہور کیس میں،  عدالت نے کہا کہ قانون منصفانہ، غیر جانبدار اور تعصب سے پاکہونا چاہیے۔ ان فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ریاستی اقدامات قانونی اصولوں پر مبنی ہوں۔

اولگا ٹیلس بنام بمبئی میونسپل کارپوریشن کے معاملے میں  سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ پناہ اور روزی  کمانے کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق کا حصہ ہے۔ اس فیصلے میں واضح کیا گیا کہ متبادل انتظامات کے بغیر مکانات گرانا اور روزی روٹی چھیننا ناانصافی ہے۔ ‘بلڈوزر جسٹس’، خاص طور پر اقلیتوں یا کمزور برادریوں کے خلاف، ان حقوق کو کمزور کرتا ہے اور لوگوں کو قانون کے مناسب عمل کے بغیر بے گھر کر دیتا ہے۔

پناہ کا حق اور بازہ آبادی کی ضرورت

آئین کے آرٹیکل 300اے کے تحت نجی جائیداد کے حق کو صرف درست قانون کے ذریعے ہی محدود کیا جا سکتا ہے۔ انتظامی احکامات یا من مانی فیصلوں کی بنیاد پر کسی کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے باوجود ‘بلڈوزر جسٹس’ کا استعمال بغیر کسی قانونی عمل کے گھروں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے، خاص طور پر فرقہ وارانہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں۔ جائیدادیں غیر قانونی ہونے کے باوجود ریاست کا آئینی فرض ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی بازآبادی کو یقینی بنائے۔

یہ سچ  ہے کہ ریاست ہر شخص کے لیے رہائش فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے، لیکن اسے پناہ کے بنیادی حق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

عبدالمتین صدیقی بنام یونین آف انڈیا کے حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے ہلدوانی میں ریلوے کی زمین سے 50000 لوگوں کو بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی تھی ۔

عدالت نے کہا کہ لوگ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں اور ان کی بازآبادی کے بغیر بے دخل کرنا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جہاں حقوق  موجود نہ ہوں وہاں بھی انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے بازآبادی کو یقینی بنایا جائے۔