خصوصی رپورٹ: مکیش امبانی کی ملکیت والی ریلائنس کی مالی اعانت سے چلنے والی کمپنی نے 2019 کے عام انتخابات اور کئی اسمبلی انتخابات کے دوران فیس بک پر خبروں کی شکل میں بی جے پی کے حق میں ایسے اشتہارات چلائے جو پروپیگنڈہ اور فرضی نیریٹو سے بھرے ہوئے تھے۔
نئی دہلی: دہشت گردانہ حملے کی ملزم اور ہندو سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو 2019 کے پارلیامانی انتخاب میں ہندوستان کی مقتدرہ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے میدان میں اتارا تھا۔ اور جیسے ہی بی جے پی نے اس لوک سبھا انتخاب کے لیے پرگیہ کو اپنا امیدوار بنایا، فیس بک نےخبر کی شکل میں ایک اشتہار دکھایا، جس کی سرخی میں جھوٹے دعوے کیے گئے۔
اس میں دعویٰ کیا گیا کہ پرگیہ ٹھاکر کو مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے کے لیے اپنی موٹرسائیکل فراہم کرنے کے الزام سے ‘بری’ کر دیا گیا ہے۔
اس فرضی اور گمراہ کن اشتہار کو ایک دن میں 300000 بار دیکھا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ علاج کے لیے ضمانت پر رہا کی گئیں پرگیہ ٹھاکر، جو اب تک اس معاملے میں ملزم ہیں، انہوں نے اس انتخاب میں اپنی جیت در ج کی۔
(تمام اسکرین شاٹ بہ شکریہ: فیس بک ایڈ لائبریری)
سال2019 میں ہی 11 اپریل کو عام انتخابات کے لیے ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے فیس بک پر ایک اور
اشتہار نظر آیا، جس میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے اس وقت کے صدر راہل گاندھی کو تمسخر کا نشانہ بنایا گیا ۔
بتادیں کہ اپنی ایک تقریر میں گاندھی نے بی جے پی پر دہشت گردی کے لیے نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے
کہا تھاکہ 1999 میں بی جے پی کی حکومت نے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو رہا کردیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ، اس ادارے کی نشاندہی ہندوستان نے دہشت گرد تنظیم کے طور پر کی تھی۔
راہل گاندھی نے اپنی اس تقریر میں طنز یہ لہجہ میں مسعود اظہر کو ’اظہر جی‘ کہا تھا۔
اس کے بعد فیس بک پر سامنے آئے اشتہار میں راہل گاندھی کے اس بیان کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا گیا۔ اس کو کسی خبر کی طرح
نیوج کے
لوگوکے ساتھ راہل گاندھی کا میم نما سا کچھ بنا تے ہوئے لکھا گیا’جب راہل نے مسعود اظہر کو جی بولا’۔ اس خبر نما اشتہار کو چار دنوں میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ بار دیکھا گیا۔
فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا کے ذریعےاس کے مختلف پلیٹ فارم پر جانے والے اشتہارات کا لیکھا جوکھا رکھنے والی
ایڈ-لائبریری کے مطابق، یہ دونوں اشتہارات
نیوج نامی فیس بک پیج کی جانب سے دیے گئے تھے۔
نیوج یعنی ‘
نیو ایمرجنگ ورلڈ آف جرنلزم لمیٹڈ‘ یہ ہندوستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنی جیو پرائیویٹ لمیٹڈ کی معاون کمپنی ہے، اور اس کی ملکیت ارب پتی مکیش امبانی کے ریلائنس گروپ کے پاس ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کےاصول وضوابط کےنفاذمیں موجود نقائص اور فیس بک کی جانب سے اصول و ضوابط کےترجیحی استعمال نے ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری گروپ کو اِن سروگیٹ اشتہارات کو بروئے کار لانے کی کھلی چھوٹ دی۔ واضح ہو کہ اس کے لیے کسی سیاسی امیدوار کی طرف سے براہ راست فنڈمہیا نہیں کیے گئے تھے یا اس امیدوار کی طرف سےاس کمپنی کو اس کام کا مجاز نہیں بنایا گیا تھا – اس طرح اس گروپ نے بی جے پی کے ایجنڈہ کے پروپیگنڈہ پر لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دیے۔
دراصل یہ وہ اشتہارات تھے جو 2019 کے پارلیامانی انتخابات اور نو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی رسائی اور مقبولیت کو فروغ دینے کے لیے جاری کیے گئے تھے۔
ایسے میں جب ظاہری طور پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کی غرض سےفیس بک نے اس طرح کے سروگیٹ اشتہارات کے خلاف کارروائی کی ،تب بھی اس کے نشانے پراکثرایسے مشتہرین رہے جو بی جے پی کےمرکزی حریف کانگریس کو فروغ دے رہے تھے ، اس طرح
نیوج جیسے پیج کو جاری رکھنے کی منظوری حاصل رہی۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ہندوستان کے ایک غیرمنافع بخش صحافتی ادارے
دی رپورٹرز کلیکٹو اور سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہارات کا مطالعہ کرنے والے
ایڈ–واچنے ہندوستان میں ہوئےانتخابات پر فیس بک کی اشتہاری پالیسیوں کےاثرات کا
جائزہ لینے کے لیےفروری 2019 سے نومبر 2020 تک فیس بک اور انسٹاگرام پر پوسٹ کیے گئے تمام 536070 سیاسی اشتہارات کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔
انہوں نے فیس بک کے
ایڈ-لائبریری ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس (اے پی آئی) کے توسط سے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور پایا کہ 22 مہینوں میں، جس مدت میں 2019 کے عام انتخابات اور نو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات شامل ہیں، کیسے فیس بک کا اشتہاری پلیٹ فارم دنیا کی سب سے بڑی انتخابی جمہوریت میں منظم طریقے سےسیاسی مقابلہ آرائی کو محدود کرتے ہوئے بی جے پی کو اس کے حریفوں کے مقابلے غیر منصفانہ طور پر فائدہ پہنچاتا رہا۔
چارحصوں کی اس سیریز کے پہلے حصے میں ہم بتائیں گے کہ کس طرح فیس بک نے ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری گروپ کی مالی اعانت سے چلنے والی ایک فرم کو بی جے پی کے حق میں سروگیٹ اشتہار شائع کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیےقانون کی خامیوں کا سہارا لے کر کام کرنے کی اجازت دی۔
نیوز رپورٹ کی شکل میں اشتہارات
نیوج اپنے آپ کو ایک
اسٹارٹ اپ بتاتا ہے جو دیہاتوں اور چھوٹے شہروں کے لوگوں کے لیے،بالخصوص سوشل میڈیا کے توسط سے ‘خبروں کا مواد’ تیار کرتا ہے۔
بتادیں کہ یہ کمپنی فیس بک اور انسٹاگرام پر ایسے ویڈیو شائع کرنے کے لیےاشتہار کی جگہ (ایڈ اسپیس)خریدتی ہے جو دراصل سیاسی اشتہارات ہوتے ہیں، لیکن خبروں کی شکل میں تیار کیے جاتے ہیں۔
ان اشتہارات کا ایک ہی بنیادی موضوع ہوتاہے – غلط اور فرضی مواد کے سہارے پر بی جے پی اور اس کے ایجنڈے کو فروغ دینا، ملک میں مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانا اور حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنا۔
فیس بک کے صارف یا پیج کی پوسٹ کے برعکس، جو بالعموم دوستوں اور پیروکاروں کی ٹائم لائن پرہی نظر آتی ہیں، یہ اشتہارات ‘پیڈپوسٹ’ ہوتے ہیں، جو فیس بک کے ذریعےاس ریچ (پہنچ)سے باہر کے صارفین کو بھی بڑے پیمانے پر دکھائے جاتے ہیں۔
اشتہاردینے والے صارفین کی لوکیشن،ڈیموگرافی اور طرز عمل جیسے متعدد ڈیٹا پوائنٹ جن پرفیس بک نظر رکھتا ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرتاہے،اس کو بنیادبناکر صارفین کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ فروری 2019 میں ہندوستان میں عام انتخابات سے ٹھیک پہلے شفافیت کا دعویٰ کرتے ہوئے فیس بک نےایڈ-لائبریری میں ہندوستان میں ‘سیاست سے متعلق تمام اشتہارات’ کو
ٹیگ کرتے ہوئے دکھانا شروع کیا تھا۔
اس ایڈ-لائبریری سے پتہ چلتا ہے کہ
نیوج کے فیس بک پیج نے پارلیامانی انتخابات سے پہلے کےتین ماہ میں تقریباً 170 سیاسی اشتہارات شائع کیے۔
ان میں سے زیادہ تر یا تو بی جے پی لیڈروں کی قصیدہ خوانی میں تھے یا مودی کے لیے ووٹروں کی حمایت کا اندازہ لگارہے تھے۔ یہ ‘قوم پرستی’ کے احساس اور مذہبی جذبات کو بھڑکارہے تھے، جو اکثر بی جے پی کے انتخابی ایشوز ہوتے ہیں، یا اپوزیشن لیڈروں اور ان کی ریلیوں کو تمسخر کا نشانہ بنارہے تھے۔
ان اشتہارات کو
نیوج کی جانب سے اپنےسوشل میڈیا چینلوں پر پوسٹ کیے جانے والے غیر سیاسی مواد، ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں معلوماتی ویڈیو یا صارفین کی طرف سے بنائے گئے وائرل ویڈیو – مثلاًکوئی معذور عورت جو یونیورسٹی کے امتحان میں اپنے پاؤں سے لکھ رہی تھی، یا ایک پولیس افسر کسی معذور شخص کو کھانا کھلا رہا تھا،وغیرہ کو لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے
بہت احتیاط سے نشر کیے گئے تھے۔
سروگیٹ ایڈورٹائزر
نیوج کے بانی شلبھ اپادھیائے کے ریلائنس اور بی جے پی دونوں کے ساتھ قریبی اور خاندانی تعلقات ہیں۔ان کے والد امیش اپادھیائے ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کے چیئرمین اور میڈیا ڈائریکٹر ہیں اور اس سے پہلے وہ ریلائنس کی ملکیت والے نیٹ ورک 18 گروپ جو ہندوستان میں کئی نیوز چینل چلاتا ہےمیں’پریسیڈنٹ آف نیوز’کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کے چچا ستیش اپادھیائے بی جے پی لیڈر ہیں اور پارٹی کی دہلی یونٹ کے سابق صدر رہ چکے ہیں۔
حالاں کہ،
نیوج بی جے پی کے ساتھ باضابطہ طور پر اپنی وابستگی کا اعلان نہیں کرتی، اور نہ ہی سیاسی اشتہارات بنانے یا شائع کرنے کے لیے
نیوج کو پارٹی کی طرف سے اس سلسلے میں ادائیگی کا کوئی عوامی ریکارڈ موجود ہے۔
جنوری 2018 میں اس کے قیام سے سے مارچ 2020 تک، جس عرصے کے لیے ہم نے
نیوج کا مالی جائزہ لیا، اس نے خبروں کے آپریشنز، یہاں تک کہ اشتہارات کے لیے فیس کی صورت میں کوئی ریونیو حاصل نہیں کیا۔ کمپنی کی بیلنس شیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بجائے اس نے ریلائنس گروپ کے ذریعےاشتہارات پر لگائے گئے پیسے کوخرچ کیا۔
سروگیٹ یا گھوسٹ ایڈورٹائزنگ،یعنی کسی سیاسی امیدوار کے حق میں اشتہارات، جو اس امیدوار کے ذریعے براہ راست فنڈیڈ یا مجاز نہیں ہیں، ہندوستانی قانون کے تحت
جرم ہے۔ اس کے توسط سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ان کی جانب سے فراہم کردہ تمام معلومات کےلیے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا اور انتخابی مہم کے اشتہارات کی ادائیگی کے لیےپیسے کے نامعلوم ذرائع کے استعمال کو روکا جائےگا۔
دی رپورٹرز کلیکٹوکی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کی درخواست کے جواب میں موصولہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں انتخابات کو کنٹرول کرنے والاالیکشن کمیشن برسوں سے ان خامیوں اور نقائص سےواقف ہونے کے باوجود فیس بک جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اس پابندی کی توسیع نہیں کرتا۔
یہاں تک کہ فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے بھی اس قانون کو نافذ نہیں کیا، اور ریلائنس کی مالی امداد سے چلنے والی
نیوج کو انتخابات کے دوران فیس بک اور انسٹاگرام پر بڑی خاموشی سے بی جے پی اور اس کے امیدواروں کے لیے جھوٹی اور نفرت انگیز مہم چلانے کی اجازت دی ۔
مزید برآں، حال ہی میں فیس بک کے وہسل بلور فرانسس ہیگن کے
لیک کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک نےہندوستانی ادارے انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا (آئی اے ایم اے آئی) کوپارلیامانی انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سخت قوانین نافذ نہ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے لابنگ کرنے کو کہا تھا۔
اگرچہ فیس بک نے پارلیامانی انتخابات سے قبل سروگیٹ ایڈورٹائزرز کے خلاف کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس کے نشانے پر زیادہ تر کانگریس کے حق میں تشہیر کرنے والے مشتہرین تھے۔ اس بدنام زمانہ کارروائی ، جسے ‘کوآرڈینٹیڈ ان اتھانٹک ویہیبیر’ کہا گیا تھا، کے ذریعے اس کمپنی نے کئی ممالک میں اپنے پلیٹ فارم پر کارروائی کی۔
بتایا گیا کہ ہندوستان میں اس کارروائی میں اس نے 687 پیج اور اکاؤنٹ کو
ہٹا یا، جو کانگریس پارٹی کے لیے مہم چلاتے تھے، لیکن اس سے اپنی وابستگی چھپاتے تھے۔ بی جے پی کے ایجنڈے کو فروغ دینے والے صرف ایک پیج اور 14 اکاؤنٹ
اس کارروائی کے دائرے میں آئے۔ وہ سلور ٹچ نامی ایک آئی ٹی فرم کی ملکیت تھے، جس نے رسمی طور پر بی جے پی کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان نہیں کیا تھا۔
اس وقت ایک
انٹرویو میں فیس بک کے سائبر سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ، نتھینیل گلیچر نے کہاتھا، ہم یہاں ایسے پیج اور گروپ کو ڈھونڈ رہے ہیں، جو اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ آزاد ہیں، لیکن دراصل وہ کسی تنظیم یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور اس بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے ایسے اکاؤنٹ کی مثال دی جو کہ خبروں سے متعلق پیج ہونے کا بہانہ کرتے تھے، لیکن درحقیقت سیاسی جماعتو ں کی طرف سے چلائے جارہے تھے۔
فیس بک کی ایک سابق ملازمہ سوفی یانگ، جو بعد میں وہسل بلور بن گئیں نےدی رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ ، اس اعلان کے چند ہفتوں بعدہی فیس بک نے داخلی طور پربتایا کہ کسی بھی ملک کے اندر سے پیدا ہونے والےکوآرڈینٹیڈ ان اتھانٹک ویہیبیرکے خلاف کارروائی پر عالمی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
دوسرے لفظوں میں سمجھیں تو اس شروعاتی کارروائی؛ جو زیادہ تر کانگریس سے منسلک پیج کے خلاف تھی،کے بعد 2019 کے انتخابات کے دوران یا اس کے بعد کسی بھی پارٹی کے مشتہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
نیوج کی طرف سے سیاسی اشتہارات سمیت ای میل پر بھیجے گئےتفصیلی سوالات کی فہرست کے جواب میں میٹا نے کہا، ہم اپنی پالیسیاں کسی فرد کی سیاسی حیثیت یا پارٹی سے وابستگی سے قطع نظریکساں طور پر لاگو کرتے ہیں۔انٹیگرٹی ورک یا کنٹینٹ کو فروغ دینے کے فیصلے کسی ایک فرد کے ذریعےیکطرفہ طور پر نہیں کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کیے جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں کمپنی میں موجود تمام مختلف خیالات کوشامل کیا جاتا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیاکہ،کوآرڈینٹیڈ ان اتھانٹک ویہیبیرکے خلاف ہماری کارروائی کبھی نہیں روکی گئی اور اپریل 2019 کے انتخابات کے بعد بھی جاری ہے۔
میٹا کا مکمل جواب یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
بی جے پی کو کسی جانچ پڑتال کا سامنا کیے بغیر
نیوج جیسے پیج کے ذریعے پارٹی لیڈروں اور پارٹی کے بارے میں پوسٹ اور اشتہارات سے خوب فائدہ ہوا۔
ایڈ آرکائیو کے ڈیٹا کے مطابق، فروری 2019 سے نومبر 2020 تک،
نیوج نے 22 ماہ اور 10 انتخابات کے عرصے میں 718 سیاسی اشتہارات دیے،جنہیں فیس بک کے صارفین نے مجموعی طور پر 29 ملین سے زیادہ بار دیکھا۔ کمپنی نے ان اشتہارات پر 52 لاکھ روپے خرچ کیے۔
ان میں سے کئی اشتہارات نے
مسلم مخالف اور پاکستان مخالف جذبات کو ابھارا، کئی میں بی جے پی کے مخالفین اور ناقدین کو نشانہ بنایا گیا، اور مودی حکومت کی بے تحاشہ تعریف کی گئی۔ اس کی مثالیں دیکھیے۔
اپریل 2019 میں عام انتخابات کے لیے جاری پولنگ کے بیچ مودی نے ایک انتخابی ریلی میں پاکستان کو ہندوستان کی ایٹمی طاقت کی وارننگ دے کر ‘راشٹر وادی ‘ جذبات کو ابھارا۔
راجستھان کے باڑمیر میں ہوئی
ایک ریلی میں مودی نے کہا تھا کہ ، ہندوستان نے پاکستان کی دھمکیوں سے ڈرنابند کر دیا ہے، میں نے ٹھیک کیا ہے نہ؟ ہر دوسرے دن وہ (پاکستان) کہتے تھے کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں…. پھر ہمارے پاس کیا ہے؟ کیا ہم نے یہ (ایٹمی ہتھیار) دیوالی کے لیے رکھے ہیں؟
ان کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور ریاست میں مودی کی حریف محبوبہ مفتی نے
ٹوئٹ کیا تھا کہ ، اگر ہندوستان نے اپنے ایٹمی بم دیوالی کے لیے نہیں رکھے ہیں تو ظاہر ہے کہ پاکستان نے بھی ایسے ہتھیارعید کے لیے نہیں رکھے ہوں گے۔نہ جانے کیوں پی ایم مودی کو اتنا نیچے نہیں آنا چاہیے اور سیاسی بحث کو اس سطح تک نہیں لانا چاہیے۔
محبوبہ مفتی کے ٹوئٹ کو مودی کی تقریر کے سیاق و سباق سےالگ کرکے،
نیوج نے اپنے اشتہار میں انہیں پاکستان کی ہمدرد کے طور پر پیش کیا۔ اشتہار میں لکھا تھا، دوبارہ ظاہر ہوا محبوبہ کا پاکستان پریم۔
نیوج نے اپنے اشتہارات میں ہندو مذہبی جذبات کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی، جودراصل بی جے پی کا ایک بڑا سیاسی ہتھیار ہے۔ مئی 2019 میں، ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ بائیکاٹ امیزون ٹرینڈکر رہا تھا، کیوں کہ اس عالمی آن لائن ریٹیل کمپنی اور ہندوستان میں ریٹیل مارکیٹ میں ریلائنس کی حریف کمپنی پر ہندو دیوتاؤں کی تصاویر والی مصنوعات فروخت کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔
نیوج نے فوری طور پر
ایک اشتہار چلایا، جس میں کہا گیا تھا کہ ‘امیزون کو ہندوستان نے دکھا ئی اپنی طاقت ، نکلا لوگوں کا غصہ – دیوی دیوتاؤں والے پروڈکٹس نکالنا پڑا بھاری۔
مئی 2019 کے عام انتخابات کے بعد بھی
نیوج نے سرکاری پالیسیوں اور بی جے پی لیڈروں کی تعریف میں، یا کسی نئے خطرے کے بارے میں ڈرانے والی کہانیاں پوسٹ کرنا جاری رکھی۔
دسمبر 2019 میں، جب بی جے پی کے زیرقیادت مرکزی حکومت نے شہریت قانون میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرےکئی مذاہب کے پناہ گزینوں کو شہری بنایا جا سکے تو ملک بھر میں
احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔
نومبر 2020 میں،
نیوج نے فیس بک پر ایک
اشتہار چلایا، جس میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے گھروں پر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنےوالی ایک مبینہ فیس بک پوسٹ سے متعلق
افواہوں کے سلسلے میں ہندوستان میں مظاہرین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ انہیں شہریت کے نئے قانون کی حمایت کیوں کرنی چاہیے؟
اس میں لکھا تھا، فرانس اب اسلامک کٹرواد (بنیاد پرستی) کا شکار بننے لگے اقلیتی ہندو خاندان، سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو بنگلہ دیش کے ہندو خاندانوں کا حال دیکھنا چاہیے۔
اسی طرح جب گلوکارہ ریحانہ اور دیگر عالمی شخصیات نے ہندوستانی کسانوں کے لیے بات کی جو مودی حکومت کے نئے زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے تھے، تو
نیوج نے ایک اشتہار چلایا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘بھڑکائے گئے کسانوں کی تحریک پر سوال کرنے والے۔ یہ سیلبرٹی ہندوستان پر ہونے والے حملوں پر خاموش کیوں ہوجاتے ہیں؟
اس سلسلے میں بی جے پی کے چیف ترجمان انل بلونی اور آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے سربراہ امیت مالویہ نے کئی بار یاد دہانی کے باوجود رپورٹرز کلیکٹیو کی طرف سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
منظم سرمایہ کاری
نیوج کے سی ای او شلبھ اپادھیائے اور ان کی بہن دکشا نے جنوری 2018 میں 100000 روپے کے پیڈ اپ کیپٹل کے ساتھ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر
نیوج کا قیام کیا۔
نومبر کے وسط میں ریلائنس گروپ کی کمپنی ریلائنس انڈسٹریل انویسٹمنٹ اینڈ ہولڈنگس لمٹیڈ (آرآئی آئی ایچ ایل) نے
نیوج میں 75 فیصد ایکویٹی حصص کے ساتھ اوورٹیک کیا۔ اس کے بعد اس نے کمپنی کو کنورٹیبل ڈیبینچرز کے ذریعے 8 کروڑ 40 لاکھ روپے کا قرض دیا۔
نقد پانےکےساتھ
نیوج نےصرف ایک کام کیا – سوشل میڈیا پر ویڈیوپروڈکشن اور پبلی کیشن، جو اکثر اشتہارات کی شکل میں تھے، جو بی جے پی کاپروپیگنڈہ کرتے تھے، مالیاتی ریکارڈ اور فیس بک اور یوٹیوب شوز پر نیوز پروڈکشن۔
نیوج نے مالی سال مارچ 2019 کو صرف 33.7 لاکھ روپے کےریونیو کے ساتھ ختم کیا، جس سے 22.06 ملین روپے (22060000 روپے) کا خالص نقصان ہوا۔
اگلے سال، ریلائنس نے ڈیبینچرز کے ذریعے
نیوج میں دوبارہ 12.50 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ مارچ 2020 کو ختم ہوئے مالی سال کے لیے
نیوج نے کوئی آمدنی درج نہیں کی، لیکن پچھلے سال کے 60.60 لاکھ روپے کے مقابلے اس بار اس کے اشتہاری مہم کے اخراجات بڑھ کر 2.73 کروڑ روپے ہو گئے۔
اس وقت آرآئی آئی ایچ ایل کی حصہ داری کو ریلائنس گروپ کی ایک اورکمپنی جیو پلیٹ فارمز لمٹیڈ نےٹیک اوور کرلیا، جو ملک کا سب سے بڑا ٹیلی کام آپریٹر ہے، جس نے مارچ 2021 کو ختم ہوئے مالی سال کے لیے 902.9 بلین روپے کا
ریونیو حاصل کیا تھا۔
جیوکے اس میں حصہ داری لینے سے چھ دن پہلے
نیوج نے اپنے ‘آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن’ میں ترمیم کیا تھا جس کی وجہ سے اس کے ‘سرمایہ کاروں’ جو اس معاملے میں ریلائنس گروپ کی کمپنی ہے، کو اس کنٹینٹ گائیڈلائن کو منظوری دینے کا اختیار مل گیا، جو یہ طے کرتی ہے کہ
نیوج کیاپروڈیوس کرے گا،کس کو فروغ دے گااور کیا نشر کرے گا۔
جیونے مارچ 2021 کو ختم ہوئے والے مالی سال میں
نیوج کو0.0001فیصد سالانہ شرح سود پر 84.96 ملین روپے (8490000 روپے) کامزید قرض دیا۔ جیو فیس بک کو ایک
سرمایہ کار سمجھتا ہے۔
نیوج کا کہنا ہے کہ اس کےشارٹ فارم ویڈیو، جسے وہ ‘خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر’ شائع کرتے ہیں، کل 4 بلین منٹ تک دیکھے جاچکے ہیں اور اس کی مجموعی رسائی 22 بلین سے زیادہ ہے- جو ‘دنیا کی آبادی کا تین گنا’ ہے۔
رپورٹرز کلیکٹو کو بھیجے گئے جواب میں
نیوج کے سی ای او شلبھ اپادھیائے نے کہا، سب سے بڑے سوشل فرسٹ پبلشرز میں سے ایک کے طور پر،
نیوج شفاف اور مؤثر آزاد صحافت کے لیے وقف ہے۔ اس کے لیے ہمارے کام کی ایمانداری، شفافیت اور معیار کو یقینی بنانے کے لیے ہم میٹا کی کمیونٹی گائیڈلائن، اشتہاری پالیسیوں اور مجوزہ اتھارائزیشن کےطریقہ کار پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔
حالاں کہ، انھوں نے
نیوج کے ذریعے نشر کیے جانے والے اشتہارات، جن میں بی جے پی کی حمایت میں پروپیگنڈہ کیا گیا تھا یا مسلم مخالف جذبات کو بھڑکایاگیا تھا، اس کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا ۔
الیکشن کمیشن اور فیس بک کی آنکھوں پر پڑاپردہ !
انتخابات کو پیسے کی بے قابو طاقت سے بچانے کے لیے ہندوستانی
انتخابی قانون ایک امیدوار کے ذریعےانتخابی مہم پر خرچ کیے جانے والے پیسے کو محدود کرتا ہے ۔ اگر کوئی تیسرا فریق، جس کا امیدوار کے ساتھ کوئی اعلانیہ تعلق نہیں ہے، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اس امیدوار کے اشتہارات کے لیے ادائیگی کرتا ہے، تو الیکشن کمیشن اسے امیدوار کا خرچ کا مانتا ہے۔
کمیشن ان مثالوں کی بھی جانچ کرتاہے، جہاں روایتی میڈیا میں پیڈ اشتہارات کو خبر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر یہ پایا جاتا ہے کہ کسی امیدوار کےاشتہارکے لیے کسی ‘خبر’ کے لیے درحقیقت ادائیگی کی گئی تھی، تو کمیشن اس اشتہار پر کیے گئے حقیقی یا خیالی اخراجات کو امیدوار کے انتخابی اخراجات میں شامل کر دیتا ہے۔
تاہم، یہ قوانین سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے اشتہارات پر لاگو نہیں ہوتے۔
سال2013 میں کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور ان کے مجاز ایجنٹوں کے لیے کمیشن سے سوشل میڈیا اشتہارات کے لیے پری سرٹیفیکیشن حاصل کرنے اور ان پر ہوئے اخراجات کی رپورٹ کرنا
لازمی قرار دیا تھا۔ لیکن اس قانون سے تیسرے فریق یا امیدواروں کے ساتھ باضابطہ طور پر وابستہ نہیں ہونے والے اداروں کے ذریعے نشر کیے جانے والے اشتہارات کوباہر رکھا گیا اور اس طرح سروگیٹ اشتہارات کے لیے ایک راستہ کھلا چھوڑ دیا گیا۔
کمیشن نے 25 اکتوبر 2013 کے اپنے حکم نامے میں کہا تھاکہ سوشل میڈیا الکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ ہے اور اشتہارات کو بھی اسی طرح ریگولیٹ کیا جائے گا۔ لیکن اس میں کہا گیا ہےکہ یہ ابھی بھی اس بات پر غور کر رہا تھا کہ امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے پوسٹ کردہ مواد سے کیسے نمٹا جائے ‘جہاں وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے مہم چلا رہے ہیں، یا ان سے وابستہ ہوسکتے ہیں۔
ان مشاورتوں کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیےاس سال کے شروع میں دی رپورٹرز کلیکٹو کی طرف سے دی گئی ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں کمیشن نے
‘رضاکارانہ ضابطہ اخلاق‘ کا حوالہ دیا، جسے انٹرنیٹ اور موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے مارچ 2019 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘انتخابی عمل کی سالمیت کے تحفظ کے لیے’تیار کیاتھا۔
ان
قوانین میں سروگیٹ اشتہارات کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں ہے، جن کا فائدہ گزشتہ عام انتخابات نو ریاستوں کےاسمبلی انتخابات کے وقت اٹھایا گیا تھا۔
انتخابات کو مبینہ طور پر متاثر کرنے کے لیے امریکہ میں مخالفت کا سامنا کرنے کے بعد فیس بک نے 2018 میں سیاسی اشتہار دینے والے لوگوں کی شناخت اور پتوں کی تصدیق کے لیے ایک
پالیسی وضع کی۔
اب یہ ایسے تمام مشتہرین سے کہتا ہے کہ وہ اعلان کریں کہ اشتہارات کے لیے کون ادائیگی کر رہا ہے اورایڈ-لائبریری میں فنڈنگ یونٹ کی تفصیلات دکھاتا ہے۔
تاہم فیس بک اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ آیا مشتہر کی طرف سے فراہم کردہ معلومات درست ہیں یا نہیں۔ نہ ہی یہ اس بات کی تحقیق کرتا ہے کہ کیا یہ ان اشتہارات کو سیاسی جماعتوں یا ان کے امیدواروں کی جانب سے فنڈز فراہم کر رہا ہے۔
فیس بک تمام ‘کوالیفائیڈ’ نیوز آرگنائزیشن کے ذریعے دیے گئے اشتہارات کو فنڈنگ کی تصدیق یا انکشاف سے چھوٹ دیتا ہے۔ فیس بک نے ان چھوٹوں کا اطلاق
نیوج کے اشتہارات پر نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں،
نیوج فیس بک کے اپنے معیارات کے مطابق ایک آزاد نیوز آرگنائزیشن بننے کے لیے اہل نہیں تھا۔
رپورٹرز کلیکٹو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، شلبھ اپادھیائے نے
نیوج کا موازنہ الجزیرہ جیسے میڈیا اداروں سے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ، ہم میٹا ایڈ لائبریری کا استعمال مختلف جانرس میں اپنے مواد کو فروغ دینے کے لیے کرتے ہیں، جو ہمارےناظرین کے ساتھ ہائی انگیجمنٹ کو ظاہر کرتا ہے، جو دوسرے ڈیجیٹل پبلشرز جیسےناؤ دس ، بروٹ، وائس اور اے جے+ کے ذریعے کیا جانے والا ایک معیاری عمل ہے۔ ایسا کرکے ہم حقیقی خبروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچتے ہیں جو دلچسپی کےمطابق ہوتے ہیں۔
شلبھ اپادھیائے کا مکمل جواب یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
(کمار سمبھو اور نین تارا رنگناتھن رپورٹرز کلیکٹو کے ممبر ہیں۔)
یہ رپورٹ الجزیرہ انگریزی میں شائع ہواہے۔