پولی ٹیکنک یونیورسٹی کیمپس میں موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرین نے پولیس پرتیر چلائے اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
نئی دہلی: ہانگ کانگ کی پولی ٹيکنک يونيورسٹی کے کیمپس ميں سنیچر اور اتوار کی درميانی شب پولیس اور جمہوریت نواز مظاہرین کے درمیان شروع ہونے والی شديد جھڑپوں کے بعد افراتفری پھیل گئی۔ پوليس نے مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے آنسو گيس اور تیز دھار نیلے رنگ کی مائع کا استعمال کیا جبکہ مظاہرين یونیورسٹی کی عمارت کے چھتوں سے سکیورٹی اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکتے رہے اور اور تیر برساتے رہے۔
پولی ٹیکنک یونیورسٹی کیمپس میں موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرین نے پولیس پرتیر چلائے اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ان جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ہانگ کانگ پولیس نے ٹوئٹر پر زخمی پولیس اہلکار کی تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین پولیس پر اینٹیں، پیٹرول بم، اور تیر پھینک رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار ٹانگ میں تیر لگنے سے زخمی ہوگیا۔ اس پولیس اہلکار کو ہاسپٹل منتقل کردیا گیا۔
Rioters continue to occupy roads outside the Polytechnic University of Hong Kong and charge at Police officers using lethal weapons including bricks, petrol bombs, bows and arrows. At around 2 PM, one member of the Force Media Liaison Cadre was hit in the calf by an arrow. pic.twitter.com/FJMjiBiXV9
— Hong Kong Police Force (@hkpoliceforce) November 17, 2019
ہانگ کانگ ميں طلبہ نے پچھلے ايک ہفتے سے کئی يونيورسٹيوں ميں احتجاج جاری رکھا ہوا تھا تاہم پولی ٹيکنک يونيورسٹی ميں يہ احتجاج ابھی تک جاری ہے اور يونيورسٹی کے باہر بھاری پولیس فورس تعينات ہے۔پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے کیمپس کے کچھ حصوں کا منظر ایک ایسے جنگی میدان کی طرح لگ رہا ہے جہاں سیاہ پوش مظاہرین مورچوں میں چوکنا بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کے پاس اینٹیں، پیٹرول بم کے کریٹ، تیر اور کمان دیکھے جا سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم آہ لونگ نے بتایا کہ وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں،’اگر ہم ثابت قدم نہیں رہے تو ہم ناکام ہوجائیں گے۔ لہٰذا کیوں نہ (سب کچھ) داؤ پر لگایا جائے۔‘
دریں اثنا جمہوریت نواز قانون سازوں نے امن و امان قائم کرنے کے ليے ہانگ کانگ ميں چينی فوج کی موجودگی پر شدید تنقيد کی ہے۔ شہری حکومت کے ترجمان کے مطابق، ’ہانگ کانگ انتظامیہ نے چینی فوج کو طلب نہیں کیا بلکہ چینی فوج کی جانب سے رضاکارانہ طور پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ ‘ہانگ کانگ میں جون میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ چین کے اس خصوصی انتظامی علاقے کی سربراہ کیری لیم ایک ایسا قانون نافذ کرنا چاہتی تھیں، جس کے بعد مشتبہ افراد کی چین کو حوالگی کی راہ ہموار ہو جاتی۔ تاہم بعد ازاں حکومت نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین ابھی بھی پولیس تشدد اور بیجنگ حکومت کے اثر و رسوخ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
(ڈی ڈبلیو کے ان پٹ کے ساتھ)