سی اے اے کے حوالے سے وزارت داخلہ کا ’مثبت بیانیہ‘ جھوٹ اور آدھے سچ کا مرکب ہے

08:11 PM Mar 21, 2024 | سدھارتھ وردراجن

گزشتہ 12 مارچ کو جاری کیا گیا دستاویز منطق سے عاری، شہریوں کی آزادی کی نفی کرنے والا اور پوری طرح سے گمراہ کن ہے۔

نارتھ بلاک۔ (تصویر بہ شکریہ: انٹلی جنس بیورو پبلی کیشن آن دی ہسٹری آف دی ڈی جی پیز کانفرنس)

گزشتہ 12 مارچ کو مرکزی وزارت داخلہ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے امتیازی ہونےکے الزامات کی  تردید کی کوشش کے تحت سوالات اور جوابات کی ایک فہرست جاری کی ۔ یہ دستاویز بیہودگی کی مثال ہے۔ یہ عجلت میں تیار کیا گیا ہے، جس میں ناممکن دعوے کیے گئے ہیں اور یہ آدھے سچ اور حتیٰ کہ سفید جھوٹ کا  پلندہ ہے۔

میں یہاں وزارت داخلہ کے سوال، ان کے جواب اور ان کے ہر جواب کا اپنا تجزیہ (سچ) پیش کر رہا ہوں۔ بعد میں وزارت داخلہ نے اس شرمناک دستاویز کو ہٹا دیا، لیکن دستاویز کی اصل کاپی پی ڈی ایف کی صورت میں محفوظ ہے، جسے اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

§

وزارت داخلہ کا دعویٰ

آزادی کے بعد سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کے کسی بھی دوسرے مذہب کے شہریوں کی طرح اپنے حقوق سے لطف اندوز ہونے کی آزادی اور مواقع حاصل رہے ہیں، جن  کا استعمال وہ عام طور پر کرتےآئے ہیں، ان میں کسی بھی طرح کی کٹوتی کے بغیر سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) 2019 نے شہریت کے لیے درخواست دینے کے لیے اہل ہونے کی کم از کم مدت کو 11 سال سے گھٹا کر 5 سال کر دیا ہے۔ اس کا فائدہ افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ہراساں کیے گئے ان لوگوں کو ملے گا، جو31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان آچکے تھے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ہراسانی کے اپیزمنٹ کےلیے معاوضے کے طور پران  کے ساتھ فیاضی کا مظاہرہ کرنا۔

حقیقت

 مجھے اس بات کا ذرا بھی علم نہیں ہے کہ ‘ان کی ہراسانی کے اپیزمنٹ  کے لیے معاوضہ’ کا کیا مطلب ہے، لیکن یہ دعویٰ بے ایمانی کی مثال ہے۔ اگر مقصد سچ میں ظلم کا شکار ہونے والوں کو فائدہ پہنچانا اور ان کے ساتھ نرمی یا  ‘سخاوت ‘سے پیش آنا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت اس کی  وضاحت کرے؛

– اگر ارادہ فائدہ پہنچانے کا ہے ، تو یہ فائدہ صرف ان تین ممالک کے مہاجرین تک ہی کیوں محدود ہے؟

اور صرف مذہبی جبر کو ہی فائدے دینے کی بنیاد کیوں بنایا جا رہا ہے جبکہ ان تینوں ممالک میں بھی جبر و استحصال کی دوسری صورتیں ہیں، جن کی وجہ سے لوگ ان ممالک سے ہجرت کر رہے ہیں۔ ان میں سیاسی جبر یا نسلی یا جنسی یا صنفی رجحان کی بنیاد پر ہونے والی ہراسانی کے واقعات شامل ہیں۔

–مذہبی ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کو کیوں ان فائدہ اٹھانے والوں کی اس فہرست سے باہر رکھا گیا ہے جبکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان ممالک میں بعض مسلم فرقوں کو درحقیقت ظلم و ستم کا سامنا ہے۔

– یہاں تک کہ اگر واحد مقصد مذہبی ظلم و ستم کے شکار غیر مسلموں کو مدد فراہم کرنا ہی ہے، تو کٹ آف کی تاریخ 31 دسمبر 2014 کیوں طے کی گئی ہے؟ حکومت ان لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی جن کے پاس اس تاریخ کے بعد اپنے ممالک سے ہجرت کرنے کی معقول وجہ تھی؟ یا ان لوگوں کے لیے حکومت کی کیا پالیسی ہے، جو آج بھی نقل مکانی کر کے یہاں آ سکتے ہیں۔

مودی حکومت کے پاس ان میں سے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ بتا سکتی ہے کہ سی اے اے کو لاگو کرنے اور ان پناہ گزینوں کے ساتھ اس ‘دریا دلی’ کے مظاہرے میں ساڑھے چار سال کیوں لگ گئے۔

§

سوال: ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اس ایکٹ کا کیا مطلب ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: ہندوستانی مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے نے ان کی شہریت کو متاثر کرنے کے لیے  کوئی اہتمام  نہیں کیا ہے اور اس کا موجودہ 18 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جن کے پاس اپنے ہندو ہم منصبوں جیسے مساوی حقوق ہیں۔ اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔

حقیقت: وزیر داخلہ امت شاہ ماضی میں کئی بار پناہ گزینوں اور ‘گھس پیٹھیوں’ کے تئیں مودی حکومت کی پالیسیوں کی ایک ‘کرونولاجی’کی بات کر چکے ہیں۔ اپریل 2019 میں، انہوں نے کہا؛ ‘پہلے ہم شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) لائیں گے، ہر پناہ گزین کو شہریت ملے گی، پھر ہم نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) لائیں گے۔ اس لیے مہاجرین کے پاس پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن گھس پیٹھیوں کے پاس یقیناً پریشانی کی ایک وجہ ہے۔ اس لیے کرونولاجی کو سمجھیے’۔ انہوں نے کہا کہ این آر سی صرف بنگال کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہوگا کیونکہ گھس پیٹھیے ہر جگہ ہیں۔’ 10 دسمبر 2019 کو شاہ نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ این آر سی یقینی طور پر آ رہا ہے اور جب اسے نافذ کیا جائے گا، ‘ایک بھی گھس پیٹھیا خود کو بچا نہیں پائے  گا۔’

شاہ کا کیا مطلب تھا؟ این آر سی ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہندوستان میں ہر شخص کی شہریت کی حیثیت کی جانچ ان کے فراہم کردہ دستاویزوں کی بنیاد پر کی جائے گی۔ آسام میں، جہاں این آر سی کا پہلا تجربہ کیا گیا، نتائج تباہ کن تھے؛ تقریباً 19 لاکھ لوگوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ وہ ہندوستانی تھے جو مطلوبہ دستاویز پیش کرنے سے قاصر تھے۔ ان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔

سی اے اے کے پس پردہ  مقصد این آر سی کے عمل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہے ان ہندوؤں کو یقین دلانا تھا کہ انہیں اخراج یا حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خطرہ نہیں ہے، کیونکہ سی اے اے ایسے لوگوں کے لیے شہریت کی راہ ہموار کرتا ہے جن کے پاس مناسب کاغذات نہیں ہیں۔ لیکن اگر مسلمان اس عمل کو مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں  تو ان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہیں ‘ گُھس پَیٹِھیے’ کا لیبل لگنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہاں تک کہ اگر مودی حکومت واقعی این آر سی کو لاگو کرنے کے اپنے منصوبوں کو باضابطہ طور پر ترک کر دیتی ہے، تو بھی وزارت داخلہ کا یہ دعویٰ کہ ہندوستانی مسلمانوں کو سی اے اے کی وجہ سے شہریت کے متاثر ہونے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جھوٹ ہے۔

جیسا کہ میں نے ایک اور مضمون میں لکھا ہے ، دو ہندوستانی خواتین کی مثال سے چیزیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ہم دو عورتیں لے سکتے ہیں، جن میں سے ایک ہندو ہے اور دوسری مسلمان۔ ایک ایسی صورتحال کا تصور کیجیے جس میں ان کی شادی دو نامعلوم بنگلہ دیشی مردوں، بالترتیب؛  ایک ہندو اور ایک مسلمان سے ہوئی ہے۔ ترمیم شدہ شہریت ایکٹ کے تحت، دونوں خواتین کے بچوں کو ‘غیر قانونی تارکین وطن’ تصور کیا جائے گا اور وہ اپنے اپنے باپ  کے ساتھ ملک بدری کے اہل ہوں گے۔ سی اے اے ہندو عورت کو ملک بدری کے خطرے کے بغیر ایک عام خاندانی زندگی گزارنے کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کرتا ہے، لیکن مسلم خاتون کے پاس اپنے خاندان کے ہندوستان سے بے دخلی کے خطرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور اگر اس کے خاندان کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے، اور وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو اس کے لیے واحد راستہ ہندوستان چھوڑنا ہی ہوگا۔

§

سوال: کیا غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کو بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان واپس بھیجنے کا کوئی اہتمام یا معاہدہ ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: ہندوستان کا تارکین وطن کو واپس ان ممالک میں بھیجنے کے لیے ان میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ یا سمجھوتہ نہیں ہے۔ اس شہریت ایکٹ کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے نہیں ہے اور اس لیے مسلمانوں اور طلبہ سمیت لوگوں کے ایک حصے کی یہ تشویش کہ سی اے اے مسلم اقلیتوں کے خلاف ہے، جائز نہیں ہے۔

حقیقت: یہ ایک مکر و فریب پر مبنی جھوٹ ہے۔ حکومت کے پاس پہلے ہی غیر ملکی ایکٹ (فارنرز ایکٹ) (دفعہ 3) اور پاسپورٹ (انٹری ان انڈیا) ایکٹ (دفعہ 5) کے تحت ایسے لوگوں کو ملک بدر کرنے کا اختیار ہے جو اس کے حساب  سے ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ (‘ہٹانے کی طاقت’)۔ واپس بھیجنے کے معاہدے کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ غیر قانونی سمجھے جانے والے افراد کو طویل عرصے تک جیلوں یا حراستی مراکز میں رکھا جا سکتا ہے۔ اگر اسے این آر سی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ‘مسلمانوں اور طلبہ سمیت لوگوں کا ایک حصہ’ سی اے اے میں دیے گئے عمل کو مسلم مخالف کیوں سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر حتمی نتیجہ ملک بدری یا نظربندی کے طور پر نہ نکلے، تو بھی یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، حق رائے دہی سے محروم ہو جائیں گے۔

§

سوال: غیر قانونی مہاجر کون ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: شہریت ایکٹ، 1955 کی طرح، سی اے اے غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی دستاویزوں کے بغیر ہندوستان میں داخل ہونے والے ایک غیرملکی  کے طور پر بیان کرتا ہے۔

حقیقت: 2003 میں، اس وقت کی واجپائی حکومت نے ‘غیر قانونی تارکین وطن’ کو نیچرلائزیشن یا شادی کے ذریعے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر پابندی لگانے کے لیے شہریت ایکٹ میں ترمیم کی تھی ۔ 2016 میں، مودی حکومت نے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم ‘غیر قانونی تارکین وطن‘ بشرطیکہ وہ 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے ہوں، کو کو اس شق سے چھوٹ دینے کے لیے شہریت ایکٹ میں ترمیم کی۔ 2019 میں لایا گیا سی اے اے شہریت کی درخواستوں پر تیزی سے کارروائی کی اجازت دے کر اس عمل کو مزید آگے لے جاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، موجودہ قانون کے مطابق، 31 دسمبر 2014 تک قانونی دستاویزوں کے بغیر ہندوستان آئے کسی غیر ملکی کو صرف اسی صورت میں غیر قانونی مہاجر تصور کیا جائے گا جب وہ مسلمان ہو۔ تمام غیر مسلموں کو اب غیر قانونی تارکین وطن نہیں سمجھا جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر یہ امتیازی سلوک ہندوستانی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جیساکہ  وکیل ایس پرسنا کا کہنا ہے کہ یہ امتیازی سلوک شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے آرٹیکل 26 میں کہا گیا ہے؛

‘تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں اور بغیر کسی امتیاز کے قانون کے یکساں تحفظ کے حقدار ہیں۔ اس سلسلے میں قانون کسی بھی امتیازی سلوک کی ممانعت کرے گا اور تمام افراد کو نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی نظریے یا دیگر رائے، قومی یا سماجی اصل، جائیداد، پیدائش یا کسی اور صورتحال کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف یکساں اور مؤثر سیکورٹی کی ضمانت دے گا۔’

§

سوال: یہ قانون اسلام کی شبیہ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: ان تین مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا نام بری طرح سے بدنام  ہوا ہے۔ تاہم، اسلام ایک پرامن مذہب ہونے کے ناطے کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر نفرت/تشدد/کسی قسم کے ظلم و ستم کا پیغام یا مشورہ نہیں دیتا ہے۔ مظلوموں کے تئیں ہمدردی اور معاوضے کا اظہار کرنے والا یہ قانون جبر و استحصال کے الزامات کے نام پر اسلام کو بدنامی سے بچاتا ہے۔

حقیقت: اگر ہم اس جواب کی انتہائی بیہودہ صورت کو نظر انداز کر دیں تو بھی وزارت داخلہ اور مودی حکومت یہ نہیں بتا سکی کہ یہ قانون صرف مسلم ممالک کے مذہبی طور پر ظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کو ہی قبول کرنے کے لیے کیوں بنایا گیا ہے، اور غیر مسلم پڑوسی ممالک میانمار، چین اور سری لنکا کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا حکومت یہ پیغام نہیں دے رہی کہ مسلم ممالک میں  ظلم  و ستم ایک انوکھی چیز ہے جس کی وجہ سے اسے ان کے متاثرین کے لیے نیا قانون بنانا پڑ رہا ہے؟ ہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں حکومت کے رویے کے بارے میں یہ کیا بتاتا ہے؟

سرکاری ‘ذرائع’ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے پناہ گزینوں کو خصوصی طور پر اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ یہ تینوں ہندوستان کے پڑوسی ہیں اور ان کا ایک ‘سرکاری (ریاستی) مذہب’ ہے؛ ان کا دعویٰ ہے، ‘ ایک سرکاری (ریاستی) مذہب کا وجود پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہو رہا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا بھی ایک ایسا ملک ہے جس کا ریاستی مذہب (بدھ مت) ہے اور جیسا کہ امریکی کمیٹی برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی میانمار کے بارے میں کہتی ہے، ‘اگرچہ وہاں کوئی ریاستی مذہب نہیں ہے، لیکن اس کے آئین میں کہا گیا ہے کہ حکومت ‘ ملک کے شہریوں کی اکثریت کے ذریعے اپنائے گئے عقیدے کے طور پر بدھ مت کی خصوصی حیثیت  کو تسلیم کرتی ہے۔’

دوسری بات، سی اے اے کا اسلام کی شبیہ پر کوئی اثر ہو یا نہ ہو لیکن ملک کی شبیہ پر اس کا برا منفی اثر پڑچکا ہے۔ ہندوستان نے تین ہزار سال سے زیادہ عرصے سے دنیا کے تمام حصوں سے آنے والے پناہ گزینوں اور لوگوں کا خیرمقدم کیا ہے اور انہیں رہائش فراہم کی ہے۔ لیکن اب تاریخ میں پہلی بار تین ممالک کے مہاجرین کے لیے شہریت (اور رہائش کے حقوق) کے حصول کے لیے مذہب کو ایک پیمانہ بنایا گیا ہے۔ وسیع تر دنیا اسے ہندوستان کی طرف سے اپنے اقدار اور ثقافت کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتی ہے، آئین اور انسانی حقوق سے اس کی وابستگی کی بات کو تو چھوڑ ہی دیں۔

§

سوال: کیا مسلمانوں کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: نہیں۔ شہریت ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے کے مسلمانوں کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ دھارا نیچرلائزیشن کے ذریعے شہریت سے متعلق ہے۔

حقیقت: 2003 سے شہریت ایکٹ ،کسی بھی غیر قانونی تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے سے روکتاہے۔ سی اے اے  پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم غیر قانونی تارکین وطن اور ان کے ہندوستان میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا دروازہ کھولتا ہے۔ لیکن، غیر قانونی مسلمان تارکین وطن اور ہندوستان میں پیدا ہونے والے ان کے بچوں کے شہریت حاصل کرنے پر پابندی برقرار رہے گی۔

§

سوال: ترمیم کی ضرورت کیا ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: ان تینوں ممالک کی مظلوم اقلیتوں پر رحم کرنے کے لیے یہ قانون ہندوستان کے سدا بہار لبرل کلچر کے مطابق انھیں ایک خوشگوار اور خوشحال مستقبل دینے کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ شہریت کے نظام کو اس ضرورت کے مطابق ڈھالنے اور غیر قانونی تارکین وطن کو کنٹرول کرنے کے لیے اس ایکٹ کی ضرورت تھی۔

حقیقت: مظلوم افراد کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرنے کے لیے مذہب پر مبنی چھوٹ کا اہتمام  ضروری نہیں تھا۔ حکومت کو صرف اتنا کہنا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی غیر قانونی تارکین وطن جو اپنے ملک میں ظلم و ستم کا خوف رکھتا ہے اسے غیر معینہ مدت تک ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی جائے گی اور وہ صحیح وقت پر ہندوستانی شہریت کے اہل ہوں گے۔ درحقیقت دنیا بھر کے ممالک مہاجرین کو نیچرلائز کرنے کے لیے اسی پر عمل کرتے ہیں اور اس کے لیے مہاجرین کا کسی خاص مذہب سے ہونا ضروری نہیں ہے۔

§

سوال: حکومت کے سابقہ اقدامات کیا رہے ہیں؟

وزارت داخلہ کا جواب: 2016 میں مرکزی حکومت نے ان تینوں ممالک کی اقلیتوں کو ہندوستان میں رہنے کے لیے طویل مدتی ویزا کے لیے اہل بنایا۔

حقیقت: یہاں کچھ ‘اقدامات’ ہیں جن کا ذکر کرنا وزارت داخلہ بھول گئی۔ حکومت افغانستان، پاکستان اور آس پاس کے علاقوں میں مذہبی طور پر ستائے جانے والے لوگوں کے لیے اتنی مددگار رہی ہے کہ  اس نے افغانستان میں سکھوں کے لیے ہندوستانی ویزے کا حصول اور طالبان کی حکومت سے بھاگنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

 کابل میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک سکھ شخص کے معاملے کو یہاں یاد کیا جاسکتا ہے، جس کا ہندوستان کا ویزا کبھی نہیں آیا ۔ صرف 2021-22 میں، ہندوستان میں رہنے کے خواہش مند1500 پاکستانی ہندوؤں کو حکومت کی طرف سے ان کے راستے میں پیدا کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے گھر  لوٹنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ۔ میانمار میں مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے بھاگ رہے روہنگیاؤں کو ہندوستانی حکومت نے ملک سے ڈی پورٹ کر دیا ہے۔

§

سوال: کیا کسی بیرونی ملک سے آنے والے مسلمان تارکین وطن کے لیے کوئی پابندی ہے؟

وزارت داخلہ کا جواب: سی اے اے نیچرلائزیشن قوانین کو رد نہیں کرتا ہے۔ لہذا، کسی بھی بیرونی ملک سے آنے والے مسلمان تارکین وطن سمیت کوئی بھی شخص جو ہندوستانی شہری بننا چاہتا ہے، موجودہ قوانین کے تحت اس کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ یہ ایکٹ ان تینوں ممالک میں اسلام کے اپنے اپنے فرقے کی پیروی کرنے کی وجہ سے ستائے گئے کسی بھی مسلمان کو موجودہ قوانین کے تحت ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے سے نہیں روکتا ہے۔

حقیقت: اس جواب میں وزارت داخلہ کے منہ سے غلطی سے سچ نکل گیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ایسے مسلمان موجود ہیں جنہیں اسلام کے اپنے فرقے کی پیروی کرنے کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ درست کاغذات کے بغیر ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں، یا اپنے ویزے کی مدر سے زیادہ قیام کرتے ہیں، تو وہ خود بخود غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر درجہ بند ہوجاتے ہیں اور اس طرح موجودہ قوانین کے تحت ہندوستانی شہریت کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔ یعنی، صاف لفظوں میں کہیں  تو، وہ موجودہ قوانین کے تحت ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست نہیں دے سکتے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)