نیلیش گجانن مراٹھے نام کے ایک شخص نے آر ٹی آئی درخواست دائر کرکے پوچھا تھا کہ کیا ان کے دو موبائل فون کی کوئی غیر قانونی فون ٹیپنگ کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں وزارت داخلہ نے کہا کہ ٹیلی گراف قانون کے تحت اصول کے مطابق فون ٹیپنگ کا اہتمام ہے، لیکن اس کی جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ یہ قانون کے مقصد کو ہی بے معنی کر دےگا۔
نئی دہلی:سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)کے ایک حالیہ آرڈر سے ان لوگوں کو مایوسی ہاتھ لگی ہے جو آر ٹی آئی قانون کے تحت فون ٹیپنگ سے متعلق جانکاری حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ایک معاملے کی شنوائی کے دوران وزارت داخلہ نے سی آئی سی میں کہا کہ انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ5(2)کے تحت قانوناً انٹرسیپشن کیا جاتا ہے اور اگر اس کا انکشاف کیا جاتا ہے کہ کسی فون کو انٹرسیپٹ کیا گیا تھا یا نہیں، تو یہ پورے قانون کے مقصد کو ہی بے معنی کر دےگا۔
نیلیش گجانن مراٹھے نام کے ایک شخص نے ٹیلی کمیونی کیشن محکمہ، ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (ٹرائی) اور وزارت داخلہ میں ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کرکے یہ جانکاری مانگی تھی کہ کیا ان کے دو موبائل فون کی کوئی ‘غیرمجازی انٹرسیپشن’ کی گئی تھی۔
حالانکہ ان محکموں نے مراٹھے کو جانکاری دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد انہوں نے سی آئی سی کا رخ کیا۔ شنوائی کے دوران انہوں نے سپریم کورٹ کے ستمبر 2018 کے اس فیصلے کو بھی ذکر کیا، جس میں عدالت نے پرائیویسی کے حق کوبنیادی حق ٹھہرایا تھا۔
جسٹس کے ایس پٹسوامی(سبکدوش)بنام یونین آف انڈیامعاملے میں عدالت نے یہ مانا تھا کہ پرائیویسی کے تحفظ کا دعویٰ سرکار اور غیر سرکاری دونوں کے خلاف ہو سکتا ہے کیونکہ تکنیکی ڈیولپمنٹ کےزمانےمیں خطرہ دونوں طرف سے پیدا ہو سکتا ہے۔
مختلف فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعدسینٹرل انفارمیشن کمشنر ونجا این سرنا نے کہا کہ ‘مراٹھے یہ ثابت نہیں کر پائے کہ آخر کیوں انہیں لگتا ہے کہ ان کے فون کی ٹیپنگ کی گئی ہوگی’ اور ‘ایسا لگتا ہے کہ محض اندیشہ کی بنیادپر انہوں نے خود کے فون کی انٹرسیپٹنگ کیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔’
ٹرائی کی جانب سے پیش ہوئیں سی پی آئی او ریتو پانڈے نے کہا کہ یہ جانکاری ان کے پاس نہیں ہے، ایسی جانکاری ٹیلی کام سروس پرووائیڈر (ٹی ایس پی)کے پاس ہوتی ہے۔
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ٹی ایس پی یہ جانکاری مہیا کرا سکتا ہے، وزارت داخلہ کےڈپٹی سکریٹری اور سی پی آئی او شیلیندر وکرم سنگھ نے کہا کہ انڈین ٹیلی گراف قانون کی دفعہ5(2) کے تحت قانونی انٹرسیپشن ہوتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ اگر یہ انکشاف ہو جاتا ہے کہ فون انٹرسیپٹ کیا گیا ہے یا نہیں، تو یہ ایکٹ کے مقصد کو بے معنی کر دےگا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کا انٹرسیپشن پبلک سیفٹی ، ہندوستان کی ایکتا،سالمیت اورسلامتی کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ انٹرسیپشن سے متعلق سبھی ریکارڈ اورخط وکتابت انڈین ٹیلی گراف رول، 1951 کےضابطہ 419 (اے) کے سب رول 18 میں درج اہتماموں کے مطابق ضائع کر دیے جاتے ہیں۔
وزارت نے کہا کہ مراٹھے نے مہانگر ٹیلی فون نگم لمٹیڈ(ایم ٹی این ایل)سے بھی اسی طرح کی جانکاری مانگی تھی، جس کے جواب میں نگم نے کہا تھا کہ ‘قانونی فون ٹیپنگ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور اس سے متعلق دستاویز/جانکاری کو ‘ٹاپ سیکریٹ’ رکھا جاتا ہے۔اس کا انکشاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں آر ٹی آئی ایکٹ2005 کی دفعہ8(1)(اے)، 8(1)(جی) اور 8(1)(ایچ) کے تحت انکشاف سے چھوٹ ملی ہوئی ہے۔’
وزارت داخلہ کے افسر نے آگے کہا کہ ‘انٹرسیپشن کے بارے میں جانکاری صرف ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ5 (2)کے تحت مجاز اتھارٹی کے ذریعے ہی فراہم کی جا سکتی ہے۔’
سال2018 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے کبیر شنکر بوس معاملے میں ٹرائی کو ہدایت دی تھی کہ وہ فون ٹیپنگ سے متعلق جانکاری درخواست گزار کو مہیا کرائیں۔ حالانکہ محکمہ اس آرڈر کے خلاف دہلی ہائی کورٹ چلا گیا گیا، جہاں عدالت نے دسمبر 2018 میں آرڈر پر روک لگادیا تھا اور فی الحال معاملہ زیر التوا ہے۔
جب شنوائی کے دوران اس کیس کا ذکر ہوا تو سرکاری افسروں نے کہا کہ فی الحال کمیشن کے اس آرڈر پر ہائی کورٹ کو فیصلہ لینا ہے، اس لیے اسے یہاں لاگو نہیں کیا جا سکتا ہے۔
پیشہ سے وکیل بوس نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ایک درخواست دائر کرکےیہ جانکاری مانگی تھی کہ کیا ان کے موبائل فون کو کسی ایجنسی کے ذریعے نگرانی یا ٹریکنگ یا ٹیپنگ کے تحت رکھا گیا تھا اور اگر ایسا ہے تو کس کی ہدایت پر ایسا کیا گیا تھا۔
بتادیں کہ 12 ستمبر، 2018 کو سی آئی سی نے ٹرائی کو ہدایت دی کہ وہ سروس پرووائیڈر سے یہ جانکاری اکٹھا کرکےدرخواست گزار کو مہیا کرائیں۔
ٹرائی نے بعد میں جسٹس سریش کمار کیت کی بنچ کے سامنے سی آئی سی کے آرڈر کو چیلنج دیا تھا، جنہوں نے 20 نومبر، 2018 کو اتھارٹی کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ یہ ایک ریگولیٹری اتھارٹی تھی اور اس کے پاس سروس پرووائیڈر سے مذکورہ جانکاری حاصل کرنے کا اختیار ہے۔
حالانکہ آگے چل کر چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جیوتی سنگھ کی بنچ نے جسٹس کیت کے آرڈر پر روک لگا دیا تھا۔
ان حقائق پرغورکرنے کے بعد سی آئی سی نے کہا کہ وزارت داخلہ کے سی پی آئی او نے مناسب وضاحت دی ہے اور اب اس میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)