راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہندوستان ، ہندوستان بنا رہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ رہنا چاہتے ہیں، رہیں۔ آباؤ اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں۔ انہیں بس یہ سوچ ترک کرنی ہوگی کہ ہم کبھی بادشاہ تھے، پھر سے بادشاہ بنیں۔
موہن بھاگوت(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے آر ایس ایس سے وابستہ
دی آرگنائزر کو دیےایک انٹرویو میں کہا کہ ہندو سماج تقریباً ہزار سال سے ایک جنگ میں ہے اور لڑنا ہے تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارت کو ہندوستان بتاتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنی اصلاح کا درس دیا۔
انہوں نے کہا، ‘ہندو سماج تقریباً ایک ہزار سال سے جنگ میں ہے۔ غیر ملکی لوگ، غیر ملکی اثرات اور غیر ملکی سازشیں، ان سے جنگ جاری ہے۔ سنگھ نے کام کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کام کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں کہا ہے۔جس کی وجہ سے ہندو سماج بیدار ہوا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ لڑناہے تو مضبوط ہونا ہی پڑتا ہے۔
مذہبی متون کا حوالہ دیتے ہوئے
انہوں نے مزید کہا، ‘اگرچہ (
بھگود گیتا میں) کہا گیا ہے کہ امیداور خواہش کو ، میں اور میری انا کے احساس کو ترک کرکے ، اپنی انا کی حدت سے آزاد ہوکر جنگ کرو، لیکن سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن لوگوں نے اس کے بارے میں سماج کوہمارے ذریعےبیدار کیا۔ بیداری کی روایت، اس دن سے چلی آ رہی ہے جب پہلا حملہ آور سکندر ہندوستان آیا تھا۔
ہندو مذہب، ثقافت اور سماج کی حفاظت کی بات کرتے ہوئے سنگھ کے سربراہ نے کہا، ‘ہندو سماج ابھی بیدار نہیں ہوا ہے۔ یہ لڑائی باہر سے نہیں ہے،یہ لڑائی اندر سے ہے۔ ہندو مذہب، ہندو ثقافت، ہندو سماج کی سلامتی کا سوال ہے، اس کے لیے لڑائی جاری ہے۔ اب غیر ملکی نہیں ہیں، لیکن غیر ملکی اثر و رسوخ ہیں، بیرون ملک سے سازشیں ہورہی ہیں۔ اس لڑائی میں لوگوں میں شدت پسندی آئے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، پھر بھی سخت بیانات آئیں گے۔
تاہم، اس شدت پسندی کا ثبوت
چاروں طرف سے دکھائی بھی دے رہا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے
گزشتہ ماہ پارلیامنٹ کو بتایا کہ 2017 سے 2021 کے درمیان ہندوستان میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے 2900 سے زیادہ واقعات درج کیے گئے تھے۔
سال 2021 میں فرقہ وارانہ فسادات کے 378، 2020 میں 857، 2019 میں 438، 2018 میں 512 اور 2017 میں 723 معاملے درج کیے گئے۔
وزیر نے کہا کہ این سی آر بی کے ذریعہ چوکس گروہوں، ہجوم یا ہجوم کے ذریعہ ہلاک یا زخمی ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی علیحدہ ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا ہے۔
بھاگوت نے کہا، ‘ ہماری سیاسی آزادی کو چھیڑنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو جائے گا نہیں ، یہ طے ہوچکا ہے۔ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں اندرونی جنگ جیتنی ہے۔
چین کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج چین نے جس طاقت میں اضافہ کیا ہے اس کی منصوبہ بندی 1948 میں کی گئی تھی، اس لیے ہمیں (ہندوؤں) بھی آگے بڑھنے کے لیےابھی پہل کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا، ‘آج ہم مضبوطی کی پوزیشن میں ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ آج ہمیں اپنی طاقت کی پوزیشن میں کیا اقدام کرنا ہے، تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔ یہ کارروائی نہیں ہے، لیکن ہمیشہ لڑائی کے موڈ میں رہیں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھاگوت نے جبری تبدیلی مذہب، غیر قانونی تارکین وطن اور ‘گھر واپسی’ کی بات بھی کی۔
انہوں نے کہا، ‘ہندوستان، ہندوستان بنا رہے، یہ سادہ سی بات ہے۔ اس میں آج ہمارے ہندوستان میں جو مسلمانوں ہیں ، ان کا کوئی نقصان نہیں۔ وہ ہیں، رہنا چاہتے ہیں، ر ہیں۔ آباؤ اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں، آئیں۔ یہ ان پر ہے۔ ہندوؤں کا یہ اصرار بالکل نہیں ہے۔ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں ہم بڑے ہیں۔ ہم کبھی بادشاہ تھے۔ ہم دوبارہ بادشاہ بنیں۔ یہ چھوڑنا پڑے گا۔ ہم صحیح ہیں باقی غلط ۔ یہ سب چھوڑنا پڑے گا۔ ہم الگ ہیں، اس لیے الگ ہی رہیں گے، ہم سب کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے، یہ چھوڑنا پڑے گا۔کسی کو بھی (یہ سوچنا) ترک کرنا پڑے گا۔ ایسا سوچنے والاکوئی ہندو ، ہے اسے بھی چھوڑنا پڑے گا۔ وہ کمیونسٹ ہے، ان کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اسی لیے آبادی پر کنٹرول ایک اہم سوال ہے۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے… تبدیلی مذہب اور دراندازیوں سے زیادہ عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اسے روکنے سے عدم توازن ختم ہو جاتا ہے۔