نوح تشدد کے باعث جاری کشیدگی کے درمیان حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گڑگاؤں میں اتوار کو ایک ‘ہندو مہاپنچایت’ کاانعقاد کیا گیا،جس میں مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ دنوں ایک مسجد پر حملہ کرنے والے لوگ بے قصور ہیں۔
نوح کے الور اسپتال میں بھیڑ کے ذریعے کی گئی توڑ پھوڑ کی تصویر۔ (تصویر: اتل ہووالے)
نئی دہلی: گڑگاؤں کے سیکٹر 57 میں حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتوار کو سینکڑوں لوگ ‘ہندو مہاپنچایت’ میں جمع ہوئے اور مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ ہفتے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ہندوتوا ہجوم نے ایک مسجد پر حملہ کیاتھا اور ایک
امام کوہلاک کر دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ،یہ مہا پنچایت تگرا گاؤں میں کی گئی تھی، جو انجمن مسجد کے قریب ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، میٹنگ کے شرکاء نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جن لوگوں پر مسجد پر حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ، وہ ‘بے قصور’ ہیں اور ان کا نام سات دنوں کے اندر کیس سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے چکہ جام کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اخبار کے مطابق سیکٹر 57 کے وزیر آبادکے سابق سرپنچ صوبے سنگھ بوہرا نے کہا، “ہمیں ان لوگوں کے خلاف ثبوت دیکھنا ہے جنہیں تشدد کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ مسجد کے قریب رہنے والے لوگوں کی طرف سے اہل خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن ہم اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بجرنگ دل کے رکن کل بھوشن بھاردواج نے کہا،’گڑگاؤں میں سینکڑوں مسلمان بڑھئی، نائی ، سبزی فروش، مکینک اور کیب ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ہم نے ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے، لیکن اب ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انہیں کہیں سے بھی کوئی مدد نہ ملے کیونکہ وہ شہر میں امن وامان کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں کو شہر میں کوئی پیار نہ دے اور انہیں کام کرنے کی اجازت نہ دی جانی چاہیے۔ ہم شہر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپارٹمنٹ یا جھگیاں کرایے پر نہ دیں۔’
دریں اثنا، ڈی ایل ایف گڑگاؤں کے سینئر پولیس افسر وکاس کوشک نے اے این آئی کو بتایا کہ منتظمین نے پولیس کو بتایا تھا کہ یہ میٹنگ پرامن رہے گی۔
کوشک نے کہا، ‘گڑگاؤں میں پچھلے دو تین دنوں سے امن ہے۔ کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ پنچایت پرامن طریقے سے مکمل ہوگی۔ ہم نے تمام فریق سے بات چیت کی تھی۔ انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ پنچایت پرامن طریقے سے منعقد ہوگی… پنچایت صبح 9 بجے شروع ہوئی۔ تقریباً 500-1000 لوگوں کی شرکت متوقع تھی۔’
تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکم امتناعی کے نافذ ہونے کے باوجود پولیس مداخلت کیوں نہیں کر رہی ہے۔
دوسری طرف، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے اتوار کو بائیکاٹ کی اس اپیل پر سوال اٹھایا اور ایک خط کا حوالہ دیا جس میں ایک سرپنچ نے اپنے سرکاری لیٹر ہیڈ پر یہی مطالبہ لکھا تھا۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، سی پی آئی نے ایک بیان میں کہا، ‘ہریانہ کے ضلع ریواڑی کے بلاک ڈہینا سے زین آباد پنچایت کی سرپنچ بھاونا یادو کے لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا یہ خط اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے، جس کو بی جے پی کے راج میں منظم طریقے سے سرپرستی حاصل ہے۔’
بیان میں کہا گیا، ‘خط کے مندرجات چونکانے والے ہیں۔ یہ مقامی پولیس افسران کو مسلمانوں یا شرپسندوں کو پنچایت کے علاقے میں کوئی بھی کاروبار یا پھیری والی سرگرمی کی اجازت نہیں دینے کا فیصلہ سنا تا ہے۔ یہ مسلمانوں کو چور اور مویشی چور بتاتا ہے۔