معاملہ سپیتی ضلع کے کازہ گاؤں کا ہے، جہاں مقامی کمیٹی نے یہاں آنے والوں کے لیےلازمی کورنٹائن کا ضابطہ بنایا ہے۔گزشتہ دنوں ریاست کے وزیر زراعت رام لال مارکنڈہ یہاں پہنچے تھے اور اس ضابطہ کو نہ ماننے پر آدیواسی خواتین کے گروپ نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
ریاست کے کابینہ وزیر کے ذریعےکووڈضابطوں کی خلاف ورزی کیے جانے کو لےکرمظاہرہ کرنے والی ہماچل پردیش کے سپیتی ضلع کے کازہ گاؤں کی200آدیواسی خواتین کے خلاف مقامی انتظامیہ نے معاملہ درج کر لیا ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، ہماچل پردیش کے وزیر زراعت رام لال مارکنڈا کے خلاف پچھلے مہینے گاؤں کے انٹری گیٹ پر مظاہرہ کرنے کے لیے پولیس نے مہیلا منڈل کی 200 ممبروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
دراصل، گزشتہ9 جون کو کازہ گاؤں کی مہیلا منڈل کی 200ممبروں نے گاؤں کےانٹری گیٹ پر یہ مانگ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا تھا کہ عوامی کمیٹی کی جانب سے طے کیے گئے کووڈ ضابطوں کے مطابق سپیتی گھاٹی میں داخل ہونے کے لیے وزیر اور ان کے حامیوں کو کورنٹائن کیا جائے۔
اس کے بعد لاحول سپیتی کے ایم ایل اے مارکنڈا واپس لوٹ گئے اور اپنا اسمبلی حلقہ چھوڑ دیا۔ اگلے دن پولیس نے مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کیا۔مظاہرین کو معاملہ درج کیےجانے کی جانکاری تب ملی جب کچھ دن بعد انہیں سمن آنے لگے۔کازہ گاؤں کی آبادی لگ بھگ1700ہے۔ 200 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے گاؤں کی کل آبادی کے 10 فیصدی لوگوں کے خلاف معاملہ درج ہو چکا ہے۔
ان خواتین پر آئی پی سی کی دفعہ341(کسی شخص کو غلط طریقے سے روکنا)، 143(غیرقانونی اجلاس) اور 188(پبلک آرڈر کی خلاف ورزی)کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے ایف آئی آر کا سامنا کر رہیں مہیلا منڈل کی صدرسونم ڈولما نے کہا، ‘مظاہرین کی پہچان کرنے کے لیے پولیس ہر گھر میں آ رہی تھی اس لیے ہم نے خود ایک فہرست پیش کی ہے۔ ناموں میں لگ بھگ گاؤں کی ہر گھر کی خواتین شامل ہیں اور اب ان تمام پر معاملہ درج ہو چکا ہے۔’
ابھی تک اس معاملے میں کسی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
کیا تھا معاملہ
معلوم ہو کہ کورونا وائرس انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سپیتی آدیواسیوں کی ایک مقامی کمیٹی نے 15 مارچ کو باہری لوگوں کے داخلے پرپابندی لگا دی تھی۔اس کمیٹی میں پانچ گومپاکے ممبر اوردوسری کمیونٹی کےرہنما شامل ہیں۔ زیادہ تر آدیواسی علاقوں کی طرح یہاں بھی مقامی گروپوں کی جانب سے لیے گئے فیصلے کئی بار سرکاری فیصلوں سے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔
اپریل میں جب ریاستی حکومت نے ہماچل کے لوگوں کو واپس لوٹنے کی منظوری دے دی تب کمیٹی نے واپس لوٹنے والے تمام لوگوں کو کورنٹائن کرنے کا فیصلہ کیا۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ ضابطوں پر عمل کروانے کے لیے وہ گاؤں کے گیٹ پر کھڑے رہنے لگے۔ ان کے ضابطہ کے مطابق، صرف مقامی لوگوں کو کازہ میں داخلہ کی اجازت ہے۔
وہیں، ریاست کے دوسرے حصوں سے آنے والوں کو 14 دن تک کورنٹائن میں رہنے پڑےگا۔ گزشتہ9 جون کو جب مارکنڈا کے گاڑیوں کا قافلہ وہاں پہنچا تب مہیلا منڈل، یووا منڈل اور دوسرے گروپ کے لوگ سرکار کے ساتھ مقامی مدعوں پر چرچہ کے لیے گیٹ پر کھڑے ہو گئے۔
مظاہرہ میں حصہ لینے والی یووا منڈل کی صدرکیسانگ نے کہا، ‘مظاہرہ یہ یقینی بنانے کے لیے تھا کہ ایم ایل اے دوسروں کی طرح کورنٹائن پر عمل کریں۔’مارکنڈا نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ انہیں سرکاری کام کاج کے لیے واپس شملہ جانا تھا، جس کی وجہ سے وہ کورنٹائن کے لیے راضی نہیں ہوئے اور واپس لوٹ گئے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف کیا گیا مظاہرہ سیاسی تھا اور کچھ مظاہرین نے کانگریس کے حق میں نعرے بھی لگائے۔سونم ڈولما ان الزامات کو صاف طور پر خارج کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا،‘سیاسی نعرےبازی کے لیے کچھ لوگوں نے ہم سے تحریری طور پرمعافی مانگی۔ ہم کسی ایسے کام کے لیے معافی نہیں مانگیں گے جو ہم نے کیا ہی نہیں۔ یہ ایک غیرسیاسی اور کووڈ مخالف مظاہرہ تھا۔
وہیں لاحول سپیتی کے ایس پی راجیش دھرمانی کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں نے کورنٹائن پر عمل کرنے کے لیے وزیرکو چنا اور ان کا راستہ روک دیا۔ ریاستی حکومت کے ضابطوں کے تحت ریاست کے اندر سفر کرنے پر کورنٹائن کی ضرورت نہیں ہے اس لیےمعاملہ درج کیا گیا ہے۔ ابھی تک سپیتی کووڈسے متاثر نہیں ہے۔
خبررساں ایجنسی آئی اے اےاین یس کے مطابق، آدیواسی خواتین کو ہراساں کیے جانے کی تنقید کرتے ہوئے ہمدھرا انوائرنمنٹ کلیکٹو کی ہمشی سنگھ نے کہا، ‘پوری ریاست میں ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے جو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں وہیں جب مقامی لوگ حلقےمیں اپنے بنائے لاک ڈاؤن ضابطوں پر عمل کرنے کی مانگ کر رہے ہیں تب پولیس نے ان کے خلاف ہی کارروائی شروع کر دی۔ یہ دوہرا رویہ دکھاتا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘یہاں دھیان دینے والی بات ہے کہ سپیتی پانچویں شیڈول کے تحت آنے والا علاقہ ہے اور آئین مقامی کمیونٹی کو اپنی حکومت کاحق دیتا ہے۔’انہوں نے آدیواسی خواتین کے خلاف درج معاملوں کو واپس لینے اور ان کے استحصال کو روکنے کی مانگ کی۔