صرف ’پاکستان زندہ باد‘ کہنا ملک سے غداری نہیں: ہماچل پردیش ہائی کورٹ

01:40 PM Aug 23, 2025 | دی وائر اسٹاف

عدالت نے کہا کہ صرف کسی دوسرے ملک کے حق میں نعرہ لگانا یا تعریف کرنا، جب تک کہ اس میں اپنے ملک کی توہین شامل نہ ہو، سیڈیشن یعنی غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔

(تصویر بہ شکریہ: seelatest.com)

نئی دہلی:  ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے منگل 19 اگست کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی مذمت یا توہین کیے بغیر کسی دوسرے ملک کی تعریف کرنا یا نعرے لگانااس وقت تک سیڈیشن / غداری نہیں ہے، جب تک کہ یہ علیحدگی پسند جذبات  کو ابھارنے یا تخریبی سرگرمیوں  کو بھڑکانے کا باعث نہ بنتا ہو۔

جسٹس راکیش کینتھلا نے یہ تبصرہ ایک اسٹریٹ وینڈر سلیمان کو ضمانت دیتے ہوئے کیا،جس پر مبینہ طور پر ‘پاکستان زندہ باد’ کے نعرے کے ساتھ پی ایم  مودی کی اے آئی جنریٹیڈ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام ہے۔

جسٹس راکیش کینتھلا نے گزشتہ منگل کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ درخواست گزار نے حکومت ہند کے خلاف نفرت، عدم اطمینان یا علیحدگی پسند  کے رجحان کوبھڑکایا ہے۔

عدالت نےمزید کہا،’پاکستان زندہ باد‘ کے الفاظ بذات خود سیڈیشن یعنی بغاوت کا جرم نہیں بنتے، کیونکہ یہ نہ تو مسلح بغاوت کو اکساتے ہیں اور نہ ہی تخریبی یا علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،’شکایت میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں قانون کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے خلاف نفرت یا عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا  ہے۔ الزامات سے پتہ چلتا ہے کہ پوسٹ میں ‘پاکستان زندہ باد’ کے الفاظ درج کیے گئے تھے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ،’مادر وطن کی مذمت کیے بغیر کسی ملک کی تعریف کرنا بغاوت کا جرم نہیں بنتا…اورپہلی نظرمیں ، درخواست گزار کو جرم کے ساتھ جوڑنے کے لیے  خاطرخواہ ثبوت  موجودنہیں ہیں۔’

تاہم، ریاست کی طرف پیش ہوئے وکیل نے دلیل دی  کہ اُس وقت ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور’پاکستان زندہ باد‘کا نعرہ  ملک دشمنی کے مترادف ہے۔

غورطلب ہے کہ اس سال مئی میں سرمور ضلع کی پاونٹا صاحب پولیس نے ملزم سلیمان کے خلاف اس کی پوسٹ کو اشتعال انگیز اور قومی مفاد کے خلاف تصور  کرتے ہوئے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا ۔

بی این ایس کی دفعہ 152ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے والی سرگرمیوں کو جرم قرار دیتی ہے اور یہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 124 اے کی بدلی ہوئی شکل ہے، جو بغاوت کو جرم بناتی ہے۔

سلیمان نے 8 جولائی کو پولیس کے سامنے خودسپردگی کی تھی۔

عدالت نے کہا کہ ملزم سلیمان کی حراست میں توسیع کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں ہے۔

عدالت نے ضمانت دیتے ہوئے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار غریب اور ان پڑھ اسٹریٹ وینڈر ہے۔ اس کے پاس سوشل میڈیا چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس کا فیس بک اکاؤنٹ اس کے بیٹے نے بنایا اور مدعی، جس کی  اس فون تک رسائی تھی، نے متنازعہ پوسٹ شیئر کیا تھا۔

بتایا گیا کہ درخواست گزار اور مدعی کے درمیان پیسے کا لین دین تھا، جو اس شکایت کے پس پردہ بدنیتی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، درخواست گزار گزشتہ24 برسوں سے پاونٹا صاحب میں مقیم ہے، اور اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔

 عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس پہلے ہی ملزم کا موبائل فون ضبط کر چکی ہے اور اسے فرانزک جانچ کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔ عدالت نےکہا کہ’درخواست گزار سے اب حراست میں پوچھ گچھ  کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘