حجاب، حلال اور مسلمان مرد: مسلمانوں کے بارے میں ہندوتوا کے تعصبات کی کوئی انتہا نہیں

02:06 PM Apr 14, 2022 | سدھارتھ بھاٹیہ

مسلمانوں کے اوپر لعنت ملامت کرنا انتخابی جیت کا آزمودہ نسخہ ہے۔ اور ملک کے  حالات دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ناکام بھی ہو گا۔

3 اپریل 2022 کو دہلی کے براڑی میں منعقد ہندو مہاپنچایت میں یتی نرسنہانند کے ساتھ دیگر ہندوتوا رہنما اور کارکن۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اسّی (80) کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان، جن  کے خلاف ان کے ملک میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو چکی ہے اور اب وہ وزیراعظم پاکستان نہیں رہے، ہندوستان میں بے حد مشہور تھے، کھیل کے میدان میں بھی اور اس کے باہر بھی۔ ان کی گلیمرس سوشل  شخصیات اور اداکاراؤں کے ساتھ پارٹیوں کی تصاویر خوب  چھپا کرتی تھیں۔ وہ صابن کا ایک اشتہار بھی کرتے تھے، جس میں ان کی مردانہ وجاہت  کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا تھا – ہندوستان میں  اس اشتہار میں ونود کھنہ کو لیا گیا تھا۔

اس دور میں کہا جاتا تھا کہ عمران اور ان کےٹیم ممبر خواتین میں بے حد مقبول تھے اور ہندوستان میں انہوں نے اچھا وقت گزارا ۔ تب ہندوستانی کرکٹرز کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں اس طرح کی مہمان نوازی نصیب نہیں ہوتی۔

اب جا کریہ معلوم ہوا  کہ ہندوستانی خواتین کے محبوب صرف پاکستانی مرد نہیں تھے بلکہ عام طور پر مسلمان مرد ہیں۔ مدھو پورنیما کشور کا ‘سیکس جہاد’ کے سلسلے میں میں کیا گیا  ٹوئٹ کہ کس طرح تربیت یافتہ نوجوان مسلم لڑکےجنسی لحاظ سے پرکشش ہندو، عیسائی اور سکھ لڑکیوں کو اپنی بہتر تکنیک اور مہارت سے بہکا رہے ہیں اور اپنی طرف مائل کر رہے ہیں، چرچہ اور جگ ہنسائی کا موضوع بنا، لیکن یہ ‘خوف’ آج کا نہیں ہے، ایک طویل عرصے سے بناہوا ہے۔

مدھو کشور کا ٹوئٹ، جسے اب ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔

پٹودی کے خوبرو نوجوان نواب نے شرمیلا ٹیگور سے شادی کی اور بالی ووڈ کے خان اداکاروں نے بھی ہندو خواتین کو اپنی شریک حیات کے طور پر منتخب کیا، یا ان کے ساتھ رشتے  میں رہے۔ واضح طور پر یہ بھی اسی ‘سیکس جہاد’ کی سازش کا حصہ ہیں۔

بہر کیف ، ہنسی مذاق کی بات ختم، سنجیدہ مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ ہندو عورتوں کے ساتھ سفر کرنے پر عام مسلمان مردوں کو مارا پیٹا گیا، اور کئی  صوبوں نے ‘لو جہاد’ کے قانون پاس کیے ہیں، جس کے تحت اس طرح کی  شادیوں پر پابندی لگائی گئی ہےجس میں تبدیلی مذہب کی گئی  ہو۔

یہ ٹوئٹ — جسے اب حذف کر دیا گیا ہے —میں اب تک جوناگفتہ تھا۔ وہ کہہ دیا گیا؛بات محبت کی نہیں ہے، سیکس کی ہے، جس میں مسلمان مرد بہتر ہیں اور کمزور ہندو مرد نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ان کمیونٹیز کے مردوں ، بالخصوص ہندو مردوں، کیوں کہ وہ اکثریت میں ہیں، اس طرح  کے جنرلائزیشن کو اپنی ہتک کے طور پر لینا چاہیے۔

لیکن مسلمان مردخواتین،خصوصی طور پر ہندو خواتین کوپرکشش کیوں لگتے ہیں؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے، شایدگوشت خور ہونا اس کا جواب ہو! اس کا کوئی موقع نہ چھوڑتے ہوئے، کرناٹک میں ہندوتوا کے سپاہی حلال مٹن کے پیچھے پڑ گئے ہیں، وہ طریقہ جو صدیوں سے رائج ہے اور تمام برادریوں کے لوگ اسے پسند کرتے رہے ہیں۔ حلال کرنے کا ایک طریقہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ایک پروڈکٹ — نہ صرف مٹن/گوشت — اسلامی قانون کے تحت سب کے لیے جائز ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمد کی جانے والی اشیاء کو باقاعدگی سے حلال کے طور پر نشان زد کیا جاتا ہے (اس میں بابا رام دیو کے گروپ کی کمپنیاں  بھی شامل ہیں)، کوئی بھی بازار میں اپنے منافع کمانے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہتا۔

کرناٹک حکومت نے اس تنازعہ سے خود کو الگ کر لیا ہے، جو بظاہر انتخابات سے پہلے پولرائزیشن کے ارادے سے شروع کیا گیا ہے، لیکن اس کو روکنے کے لیے کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے۔

کرناٹک ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ ہے – یہیں  مسلمان لڑکیوں کو حجاب اتار کر کلاس میں آنے کے لیے کہا گیا تھا، وہ بھی پوری بیہودگی کے ساتھ۔ یہ اُڈوپی کے ایک سرکاری کالج سے شروع ہوا اور پھر پوری ریاست میں پھیل گیا۔ ایک موقع پر تو لڑکوں کے ایک گروپ نے ایک طالبہ کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بدتمیزی بھی کی تھی۔

ایک مشہور سوشلسٹ کے انجینئر بیٹے بسواراج بومئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اسکول میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنےکا حکم دیا تھا، جس کو عدالت نے بھی برقرار رکھا۔ ایسے میں کئی طالبات کے پاس پڑھائی چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ۔

ان سب کا پیٹرن ایک ہے۔ مسلمانوں کو اکثر ان کے سب سےبنیادی شناختی نشانات یا قدرےآسان کلیشے (فرسودہ نظریات)کی عینک سے دیکھا جاتا ہے، جن سے اکثرسب سے ‘سمجھدار’ سمجھا جانے والا ہندو بھی اتفاق کرتے ہیں، ایسے کئی ہیں جو فخر سے کہیں گے کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ والے نہیں ہیں۔ اور اصل ان کے مسلمان دوست بھی ہیں ۔ اور پھر بھی وہ سوال کرتے ہیں کہ کسی اسکول کے یونیفارم پر اصرار کرنے میں کیا غلط ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب کراس، پگڑی یا ماتھے پر اپنی ذات سے متعلق کوئی نشان لگانے پر لاگو نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں کیوں مسلمان الگ تھے، یا وہ زیادہ مسلمان نظر آتے ہیں۔

ظاہری طور پریتی نرسنہانند کے ‘مسلمان وزیر اعظم بن گیا تو… کہہ کر ہندوؤ ں کو ہتھیار اٹھانے کے لیے اکسانے والے بیان اور کرناٹک حکومت کے مسلمان لڑکیوں کے لیے حجاب پر روک لگانے کے فیصلے میں فرق نظر آ سکتا ہے، لیکن اس کو قتل عام کی اپیل کہیں یا یا توہین کی ، اس کا مقصد ایک ہی ہے- ایسی بے بنیاد باتیں پھیلاؤ کہ ملک کے تقریباً 200 ملین مسلمان کسی گنتی میں ہی نہ رہیں۔

چاہے قانون سازی کے طریقے – شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے ذریعے – یا مندروں کے قریب مسلم تاجروں کو اجازت نہ دے کر، جو ان کے روزگار کو چھین لے گا، ہندوتوا کی طاقتیں مسلمانوں کو غیر شہری میں بدل رہی ہیں، جن کا راضی خوشی رہنا ہم باقی لوگوں کے لیے معنی نہیں رکھتا یا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔

بایو کان کی صدر اور بااثر کاروباری خاتون کرن مجمدار شا نے، خصوصی طور پر کرناٹک،جہاں وہ رہتی ہیں، میں اس طرح کی حرکتوں کے خطرات کو محسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تفرقہ انگیز اقدامات ریاست میں کاروبار کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ ایسے وقت میں جب زیادہ تر بڑے تاجر سفارت کاری یا خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، کرن کا یہ بیان جرأت مندانہ ہے۔ بی جے پی فطری طور پر بوکھلا گئی ، لیکن اس تبصرے سے حکومت کو کم از کم معاشی گراوٹ  کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

لیکن ایسا شاید ہی ہو گا۔ بی جے پی اور ہندوتواوادیوں کے لیے مسلمانوں کوکوسنا،  ان  پرلعنت ملامت کرنا انتخابی جیت کو یقینی بنانے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے، اور یہاں وہی  حتمی مقصد ہے، چاہے معیشت اور سماجی ہم آہنگی برباد ہی کیوں نہ جائے۔ ہندوتوا کی فوج اسی یکساں ارادے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور وقتاً فوقتاً اشاروں کے مطابق کام میں لگ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم مسلمانوں کے لیے شدید نفرت کے سوا بہت کچھ نہیں جانتی۔

لیکن انتخابات بھی صرف ایک حصہ بھر ہیں – اس نفرت کی جڑیں گہری ہیں۔ حجاب اور حلال گوشت کے خلاف مہم جلد ختم نہیں ہوگی بلکہ ملک کی ان ریاستوں میں بھی پھیل جائے گی جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ ہندوتوا کی بھیڑ دوسرے کاروباروں کے پیچھے بھی جارہی ہیں جو مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمد کرنے کے لیے اپنے سامان پر حلال کی مہر لگاتے ہیں یا یہاں تک کہ اپنے سامان کے بارے میں عربی میں چھاپتے ہیں (احمقانہ طور پر جس کو اردو سمجھ لیا گیا) گیا، جس کو ایک اور ‘مسلم’ علامت کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔) اور یہ صرف مسلمانوں کی ملکیت والے کاروبار تک ہی محدود نہیں ہے — انہوں نے ہلدی رام جیسے برانڈ کو بھی نہیں بخشا ہے۔ ہر وہ چیز جس کے مسلمان ہونے کا اندیشہ بھر ہو، اس کو مٹا دینا ہے۔

یہ ہندوتوا کے تعصبات اور خدشات ہیں۔ جو کچھ بھی مسلمانوں سے وابستہ ہے، اسے نظروں سے، دماغ سے اور ہوسکے تو ملک سے باہر کر  دینا چاہیے۔ ہندو راشٹر میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے،یا کسی ایسے شخص کے لیے، جس کی پہچان ایک کٹر ہندو کی نہیں ہے۔ یہ ایک احمقانہ اور بیہودہ تصور ہے، لیکن یہ پاگل بھیڑ اسے حاصل کرنے کے لیے خطرناک حد تک جا سکتی ہے۔

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)