کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ کے اختلاف رائے کے بعد ریاست کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ ایسے میں ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطے میں کسی بھی مذہبی علامت کی گنجائش نہیں ہوگی۔
نئی دہلی: کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے جمعرات کو کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا اسکول اور کالج کیمپس میں حجاب پر ریاستی حکومت کی پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے اس معاملے پر اختلاف رائے کے بعد بھی جاری ر ہے گا۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کر نے والے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر متفقہ فیصلہ نہیں سنا یا تھا۔
جسٹس ہیمنت گپتا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو خارج کر دیا تھا، جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی اجازت دے دی تھی۔
وزیر بی سی ناگیش نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں حجاب اور برقع کے خلاف تحریک چل رہی ہے اور خواتین کی آزادی موضوع بحث ہے، کرناٹک حکومت کو ایک بہتر فیصلے کی توقع تھی جس سے تعلیمی نظام میں یکسانیت آتی، لیکن ایک منقسم فیصلہ آیا ہے۔
ناگیش نے کہا کہ یہ معاملہ اب ہائی بنچ کو بھیج دیا گیا ہے اور کرناٹک حکومت ہائی بنچ کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔
ناگیش نے کہا، ‘کرناٹک ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار رہے گا۔ ایسے میں ہمارے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطے میں کسی بھی مذہبی علامت کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس لیے ہمارے اسکول اور کالج کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق چلیں گے۔ بچوں کو اسی حساب سے اسکولوں میں آنا ہو گا۔
ناگیش نے کہا، حجاب پر پابندی جاری رہے گی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطہ کلاس روم کے اندر کسی بھی مذہبی چیز کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس لیے ہم بالکل واضح ہیں کہ کوئی بھی طالبہ کلاس روم کے اندر حجاب نہیں پہن سکتی ہے۔
کرناٹک کے وزیر داخلہ آراگا گیانندرا نے کہا کہ انہوں نے میڈیا میں حجاب کا فیصلہ دیکھا ہے، جہاں ایک جج نے عرضی کو مسترد کر دیا، جبکہ دوسرے نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کر دیا ہے۔
گیانیندر نے نامہ نگاروں سے کہا، یہ ایک منقسم فیصلہ ہے اور یہ معاملہ چیف جسٹس کی بنچ میں چلا گیا ہے۔ یہ چیف جسٹس کے فیصلے پر منحصر کرےگا۔ کرناٹک حکومت چیف جسٹس کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حجاب کو لے کر یہ تنازعہ سب سے پہلے اُڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب دسمبر 2021 میں حجاب پہن کر چھ لڑکیاں کلاس میں آئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔ ان کے حجاب پہننے کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں تک پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔
فروری میں کرناٹک حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کی خلاف ورزی کرنے والے کپڑے پہننے پر پابندی لگا دی تھی، جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اس تنازعہ کے درمیان ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہیں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
تعلیمی اداروں میں حجاب پر تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے اور اس نے کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیاں خارج کر دی تھیں اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
مسلم لڑکیوں نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ اس حکم کو اسی دن سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر ایک عرضی میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ نے مذہب کی آزادی اور ضمیر یا صوابدیدکی آزادی کے درمیان فرق میں غلطی کی ہے، جس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذہب پر عمل کرنے والے کو صوابدید کا حق حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ، ہائی کورٹ یہ مشاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے کہ حجاب پہننے کا حق پرائیویسی کے حق کے دائرے میں آتا ہے جس کی ضمانت آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت دی گئی ہے۔
درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے سامنے یہ بھی دلیل دی تھی کہ اسلامی حجاب یا اسکارف پہننا عقیدے کا معاملہ ہے اور ایک ضروری مذہبی عمل ہے نہ کہ مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ۔
کرناٹک حکومت حجاب سے متعلق فیصلہ واپس لے: مسلم پرسنل لاء بورڈ
دریں اثنا، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حجاب کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جمعرات کو کہا کہ کرناٹک حکومت کو تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کا فیصلہ واپس لینا چاہیے، تاکہ یہ سارا تنازع ختم ہو سکے۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے یہ بھی کہا کہ جسٹس سدھانشو دھولیا کا حکم آئین اور شخصی آزادی کے اصولوں کے مطابق ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ جسٹس دھولیا نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے اور ان کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے کہا کہ اس پہلو کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے، حالانکہ جسٹس ہیمنت گپتا کے فیصلے میں یہ پہلو غائب تھا۔
رحمانی نے کہا، ‘کرناٹک حکومت سے حجاب سے متعلق حکم واپس لینے کی درخواست ہے۔ اگر کرناٹک حکومت اس فیصلے کو واپس لے لیتی ہے تو پورا تنازع خود بخود ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے کسی قدم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، جس سے لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)