مودی سرکار کے ترقی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ 19.5 کروڑ ناقص غذائیت کے شکار افراد ہندوستان میں ہیں۔ یو این کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے نصف سے زیادہ لوگ (79 کروڑ) اب بھی ‘مقوی یا صحت بخش غذا’ کے اخراجات برداشت کرنے کےمتحمل نہیں ہیں، جبکہ 53 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
نئی دہلی: ترقی کے تمام بلند بانگ دعووں کے درمیان دنیا میں سب سے زیادہ 19.5 کروڑ ناقص غذائیت کے شکار افراد ہندوستان میں ہیں۔ یہ جانکاری ‘اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ ‘ (ایس او ایف آئی) کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے ، جو بدھ (24 جولائی) کو جاری کی گئی۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی تیار کردہ یہ رپورٹ اقوام متحدہ (یو این ) اور یونیسیف سمیت اقوام متحدہ کی چار دیگر تنظیموں نے مشترکہ طور پر شائع کی ہے۔
اس رپورٹ میں، ایف اے او نے ناقص غذائیت کو ایک ایسی صورتحال کے طور پر بیان کیا ہے، جس میں ایک شخص کو عام اور فعال زندگی جینے کے لیے ضروری خوراک سے ملنے والی توانائی اس کے معمول کی خوراک سے پوری نہیں ہو پاتی ہے۔ ناقص غذائیت کے پھیلاؤ کو بھوک کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم، اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ناقص غذائیت کے حوالے سے ہندوستان کی حالت گزشتہ سالوں کے مقابلے قدرے بہتر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر 2004-06 کے دوران ملک میں ناقص غذائیت کے شکار افراد کی تعداد 24 کروڑ تھی، جو اب کم ہو کر 19.5 کروڑ رہ گئی ہے۔
نصف سے زیادہ ہندوستانی اب بھی ‘ صحت بخش غذا’ کا خرچ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں
ایس او ایف آئی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آدھے سے زیادہ ہندوستانی (55.6فیصد) اب بھی ‘مقوی یا صحت بخش غذا’ کے اخراجات برداشت کرنے کےمتحمل نہیں ہیں، جو کہ عددی لحاظ سے 79 کروڑ لوگ ہیں۔ یہ تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
اس کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ ‘ناقص غذائیت کا شکار’ نہ ہونا اور روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے توانائی حاصل کرنے کے لیے بھرپور کھانا کھانا ایک بات ہے، جس کی زیادہ تر ہندوستانی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن معیاری غذا یا ‘مقوی غذا’ کھانا الگ بات ہے، جس کولینے سے آدھے سے زیادہ ہندوستانی قاصر ہیں۔
ایف اے او کے مطابق ‘مقوی یا صحت بخش غذا’ وہ ہے جس میں چار اہم پہلو شامل ہوں – غذائی اجناس میں تنوع، خوراک میں غذائی اجزاء ، صحت کو نقصان پہنچانے والے کھانے میں اعتدال اور جسم کے مطابق توانائی اور میکرو نیوٹرینٹس کا متوازن استعمال۔
ہندوستان میں صحت بخش غذا لینے سے قاصر لوگوں کے تناسب میں 2022 کے مقابلے 2023 میں تقریباً تین فیصدی بہتری آئی ہے، جبکہ پچھلے پانچ سالوں میں اس میں اسی شرح سے کمی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اسی مہینے کی شروعات میں جاری کی گئی نیتی آیوگ کی رپورٹ ‘پائیدار ترقیاتی اہداف انڈیا انڈیکس 2023-24’ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سال 2023-2024 میں، 99 فیصد اہل مستفید افراد کو نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ 2013 کے تحت کو ر کر لیا گیا ہے۔
پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم یعنی پی ڈی ایس نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ 2013 کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ ہر مہینے ‘انتودیہ انا یوجناپریوار’ کو 35 کلو گرام غذائی اجناس اور ‘ترجیحی خاندانوں’ کو 5 کلو گرام غذائی اجناس کا حق دیتا ہے۔ اس میں موٹے اناج، گیہوں اور چاول 1 روپے، 2 روپے اور 3 روپے فی کلو کی رعایتی قیمت پر دستیاب کرائے جاتے ہیں۔
این ایف ایس ایکٹ کے علاوہ، نریندر مودی حکومت نے اپریل 2020 میں پردھان منتری غریب کلیان یوجنا شروع کی تھی، جس میں 1 جنوری 2023 کو مزید پانچ سال کے لیے توسیع کی گئی۔ اس اسکیم کے تحت ہر اہل خاندان کو ہر ماہ 5 کلو چاول یا گیہوں فی شخص اور 1 کلو دال فی خاندان مفت ملتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت تقریباً 80.48 کروڑ مستفیدین شامل ہیں۔
ہندوستان میں غذائیت کے محاذ پر پیش رفت کے لیے مزید اسکیموں کی ضرورت
ایس او ایف آئی کی رپورٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں غذائیت کے محاذ پر پیش رفت کے لیے ان دو اسکیموں سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہوگی۔
خوراک کی مقدار اور معیار سے متعلق ان دو اشاریوں کے علاوہ، رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ‘بھوک’ یا طویل مدتی ناقص غذائیت کس کو کہا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ‘بھوک کھانے سے ملنےوالی ناکافی توانائی کی وجہ سے ایک غیر آرام دہ یا تکلیف دہ احساس ہے۔’ اس رپورٹ میں بھوک لفظ کو طویل مدتی ناقص غذائیت کا مترادف بتایا گیاہے اور اس کی پیمائش غذائی قلت (پی او یو) کے پھیلاؤ سے کی جاتی ہے۔ یہ آبادی کے کسی بھی گروپ میں ناقص غذائیت کی سب سے خطرناک شکل سمجھی جاتی ہے۔
ہندوستان کی تقریباً 13 فیصد آبادی اس غذائی قلت یعنی بھوک کا شکار ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ سال گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کی رپورٹ میں 125 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 111 ویں نمبر پر تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 14 ممالک ہی ہندوستان سے بدتر صورتحال میں تھے۔ آئرلینڈ اور جرمنی کی دو این جی اوز ‘کنسرن ورلڈ وائیڈ’ اور ‘ویلٹ ہنگر ہلف’ نے یہ رپورٹ تیار کی تھی ۔ تاہم، دیگر عالمی رپورٹوں کی طرح ہندوستانی حکومت نے اس رپورٹ کو بھی مسترد کر دیا تھا۔
بچوں کی غذائیت کی بات کریں تو ہندوستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں ان کے قد کے حساب سے کم وزن کا ایک پیٹرن دیکھنے کو ملتا ہے، جو 18.7 فیصد ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں بونے پن(عمر کے لحاظ سے کم اونچائی) کا پھیلاؤ 31.7فیصد ہے۔
بچوں میں غذائی قلت کی یہ شکل بدترین تصور کی جاتی ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان میں زیادہ ہے۔
ہندوستان میں پیدائش کے وقت کم وزن والے بچوں کا فیصد 27.4 ہے ،جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر پیدائش کے وقت بچے کا وزن 2500 گرام سے کم ہے تو اسے کم وزن والا بچہ کہا جاتا ہے۔
ہندوستان میں نصف سے زیادہ خواتین میں خون کی کمی
ڈبلیو ایچ او کے مطابق، پیدائش کے وقت کم وزن والے بچوں کی موت زیادہ وزن والے بچوں (ایک سال سے کم عمر کے بچوں) کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ بچے کا پیدائش کے وقت کم وزن بھی حاملہ خواتین میں غذائیت کی کمی کی طرف اشارہ کرتاہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں نصف سے زیادہ خواتین (53.0فیصد) خون کی کمی کا شکار ہیں، جو کہ جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ خواتین میں خون کی کمی کا پھیلاؤ، خاص طور پر تولیدی عمر میں، نہ صرف ان پر بلکہ بچے کی پیدائش کے وقت جنین کی صحت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
اوہیں، اگر ہم عالمی سطح پر خواتین (15 سے 49 سال) میں خون کی کمی کے پھیلاؤ کو دیکھیں تو یہ 2012 میں 28.5 فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 29.9 فیصد ہو گئی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔