رافیل معاہدے میں ٹکنالوجی ٹرانسفر سے قیمت میں آئے فرق، ہندوستان کے لئے خاص طورپر کی جانے والی تبدیلیوں اور یوروفائٹر کی تجویز سے جڑے سوال اب بھی باقی ہیں۔
رافیل فائٹر جیٹ سودے کو لےکر ایک اہم سوال کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اس سوال کو این رام کے ذریعے حال ہی میں
د ی ہندو میں کئے گئے انکشاف میں بلاواسطہ طریقے سے اٹھایا گیا تھا۔تکنیک منتقلی (ٹکنالوجی ٹرانسفر) یو پی اے حکومت کے دوران 126 طیارے کے لئے کئے گئے معاہدے کا ضروری حصہ تھا۔ ٹکنالوجی ٹرانسفر کے لئے ہندوستان کافی قیمت چکاتا۔تکنیک حاصل کرنا اور اس کی ہندوستانیت (indigenisation)مفت میں نہیں ہوتی۔ اس کے لئے کافی قیمت چکانی پڑتی ہے۔اس لئے یو پی اے کے دوران جو 126 جنگی طیارے خریدے جانے کی پیشکش تھی، ان کے لئے چکائی جانی والی قیمت میں ٹکنالوجی ٹرانسفر کے لئے ادا کی جانے والی قیمت بھی شامل تھی۔
یہ قیمت فرانس سے اڑنے کو تیار حالت میں آنے والے 18 رافیل جیٹ کی قیمت میں متناسب طریقے سے جوڑی گئی ہوگی۔لیکن، این ڈی اے کے ذریعے اڑنے کو تیار حالت میں خریدے گئے 36 رافیل جیٹ کی قیمت میں ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت شامل نہیں ہے۔ اس لئے جب ہم این ڈی اے کے ذریعے معاہدہ کئے گئے 36 جیٹوں کی قیمت کے مقابلہ میں یو پی اے کے معاہدہ میں اڑنے کو تیار حالت میں آنے والے 18 جیٹوں سے کرتے ہیں، تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ 18 رافیل جیٹوں میں جڑی ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت کو گھٹاکر حساب کیا جائے۔
ایسا کرنے پر یو پی اے کے دور کے معاہدے کے فی ایئرکرافٹ قیمت میں بھاری کمی آئےگی۔ یہ حساب کسی نے نہیں لگایا ہے۔ کم سے کم یہ قواعد حکومت نے تو نہیں ہی کی ہے، جو معاہدے کے ان پہلوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔اگر یو پی اے دور کے معاہدے میں سے ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت کو ہٹا دیا جائے، تو 18 جیٹوں کی قیمت این ڈی اے کے ذریعے فی ایئرکرافٹ چکائی جانے والی قیمت سے کافی سستی ٹھہرنی چاہیے۔ قیمت میں فرق کا یہ پہلو-جو کافی اچھا خاصا فرق ہے-ابھی بھی پردے میں چھپا ہوا ہے۔
یو پی اے اور این ڈی اے کے معاہدے میں فی ایئرکرافٹ قیمت میں فرق اصل میں دی ہندو کی جانچ میں نکالے گئے 14 فیصد کے نتیجہ سے کافی زیادہ ٹھہرےگی۔دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یو پی اے کے معاہدے میں سے ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت کو ہٹا دیا جائے، تو این ڈی اے کا فی ایئرکرافٹ معاہدہ اور بھی زیادہ مہنگا ٹھہرےگا۔ڈیفینس اکاؤنٹس کے سابق سکریٹری سدھانشو موہنتی کا کہنا ہے،ٹکنالوجی ٹرانسفر کی لاگت اچھی خاصی ہوتی ہے، کیونکہ مقامی مینوفیکچرر کو ٹکنالوجی ٹرانسفر میں مدد کرنے کے لئے غیر ملکی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی پوری ٹیم کچھ سال گزارتی ہے۔ رافیل کے معاملے میں ہندوستان کے لئے خاص طور پر کئے جانے والے این ہانس مینٹ کو دیسی بنانے میں کافی خرچ آتا۔ ‘
غور طلب ہے کہ موہنتی نے 2016 میں سبکدوش ہونے سے پہلے معاہدے کی لاگت والے پہلو کی تفتیش کی تھی۔دی ہندو کے مضمون میں یہ بات بھی اٹھائی گئی تھی کہ کیسے رافیل کے حریف بولی لگانے والےیوروفائٹر نے این ڈی اے حکومت کے سامنے جو نئی پیشکش کی تھی، وہ 20 فیصد سستی تھی۔آپ کو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ سستی شرح کی اس پیشکش میں تکنیک کی منتقلی بھی شامل تھی کیونکہ یہ تجویز یو پی اے کے 126 جنگی طیارے کے معاہدےکے تناظر میں دی گئی تھی۔
موہنتی کا کہنا ہے کہ اور کچھ نہیں تو حکومت یوروفائٹر کی پیشکش کا استعمال رافیل سے قیمتوں کو اور کم کرانے کے لئے کر سکتی تھی۔اس لئے جب مودی نے تکنیک کی منتقلی کے پہلو کو اڑنے کے لئے تیار حالت میں آنے والے 36 جنگی طیارے خریدنے کے نئےمعاہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا، تو یہ پوچھنا وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کا فرض بنتا تھا کہ ٹکنالوجی ٹرانسفر کے بغیر اسی سجاوٹ والے جنگی طیارے کی قیمت یوروفائٹر کے ذریعے کتنی لگائی جاتی؟
لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس لئے فطری طور پر-قابل اعتماد اعداد و شمار اور اطلاع کی غیرموجودگی میں-ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت کے ساتھ یا اس کے بنا فی رافیل جیٹ کی قیمت میں موازنہ کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔دی ہندو کا مضمون، رافیل کے ذریعے خاص طور پر فرانس کے ذریعے تیار کئے جا رہے ہندوستان کی مانگکے مطابق کئے جانے والے 13 خاص این ہانس مینٹ کے لئے چکائی جانے والی قیمت کے سوال کو بھی اٹھاتا ہے، جس کی لاگت 1.3 ارب یورو ٹھہرتی ہے۔
ایک صورت میں 1.3 ارب یورو کو 36 حصوں تقسیم کیا گیا ہے اور یو پی اے کے معاہدے میں اس کو 126 ایئرکرافٹ کے ساتھ ہی بعدکے مرحلے میں پیچھے سے خریدے جانے والے (فالو-آن) 50 اور ایئرکرافٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔قیمت میں اس فرق پر بھی تقریباً کوئی وضاحت نہیں آئی ہے کیونکہ این ڈی اے حکومت نے فالو آن معاہدہ کو ہٹا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعد میں کی جانے والی کسی خرید کے لئے ہندوستان اپنی مانگکے حساب سے کئے جانے والے این ہانس مینٹ کے لئے، یو پی اے کے معاہدے کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمت چکائےگی۔
یہاں ایک اہم سوال اٹھتا ہے۔ اگر کل رافیل وزارت دفاع کے ذریعے ایم ایم آر سی اے جنگی طیارے کے لئے منگائے گئے ٹینڈر میں حصہ لیتا ہے، تو کیا ہندوستان اپنے لئے کئے جانے والے خاص این ہانس مینٹ کے لئے فی طیارے-126 کی جگہ 36 کے معاہدے پر مبنی-زیادہ اونچی مستحکم قیمت چکائےگا؟یہ پریشان کرنے والے سوالات ہیں، جو اس معاہدے کو ضرورت سے زیادہ دھندلاپن کو دیکھتے ہوئے بنے رہیںگے۔
ایک حساب سے، مستقبل میں رافیل ایم ایم آر سی اے کے دیگر بولی لگانے والے کے اوپر صاف فائدے کی صورت میں ہے کیونکہ یہ پہلے ہی ہندوستان کے لئے اس کے حساب سے خاص این ہانس مینٹ کی تعمیر کر چکا ہے۔وہ پہلے ہی ہندوستان کی ضرورت کے حساب سے کئے جانے والے این ہانس مینٹ پر کام کر رہا ہے اور اس کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے کی ترقی کر رہا ہے۔موہنتی کا کہنا ہے کہ اگر ان تکنیک کو ہندوستان میں ایچ اے ایل کے ساتھ ملکر ترقی یافتہ کیا جاتا ہے، تو یہ کافی بہتر ہوتا۔ اس سے مستقبل میں ہندوستان کی قومی سلامتی کو اصل میں مضبوطی ملتی۔
The post
ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت کو جوڑیں تو یو پی اے کارافیل معاہدہ این ڈی اے سے کہیں سستا پڑتا ہے appeared first on
The Wire - Urdu.