دہلی پولیس اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہے کہ فروری میں دہلی میں ہوئے تشدد کے پیچھے ایک سازش ہے اور اس میں و ہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طورپر شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ پولیس کو یہ اسکرپٹ ان کے سیاسی آقاؤں نے دی اور جانچ ایجنسیوں نے اس کو کہانی کی صورت میں فروغ دیا ہے۔
دہلی میں ایک سازش کی جا رہی ہے سازش کی کہانی گڑھنے کے لیے۔
جس فرضی کہانی میں دہلی پولیس اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہے وہ یہ ہے کہ فروری کے اواخرمیں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کے پیچھے ایک سازش ہے اور اس سازش میں و ہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طور پر شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف ہوئے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
ان میں سے کچھ کو پہلے ہی قید کر لیا گیا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ جلد ہی اور بھی
گرفتاریاں ہوں گی۔ گرفتار لوگوں میں نوجوان اسٹوڈنٹ لیڈر، زیادہ تر
خواتین اور مسلمان کارکن ہیں۔ ان پر دنگے بھڑ کانے، قتل کی کوشش یاقتل جیسے سنگین الزام لگائے گئے ہیں۔کچھ پر تویو اے پی اے جیسا
سخت قانون تھوپ دیا گیا ہے۔ جانچ ایجنسیوں کاخیال ہے کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئےتشدد کو شروع کرانے کی سازش کی اور سی اے اے مخالف مظاہرہ اس سازش کا بس ایک کور تھا۔
پولیس کو اس کہانی کی اسکرپٹ اس کے سیاسی آقاؤں نے دی ہے۔ پارلیامنٹ میں حکمراں پارٹی کے رکن پارلیامان نے بیان دیا تھا کہ ‘یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ’ جیسی تنظیم اور عمر خالد جیسے لوگ تشدد کے لیے ذمہ دار ہیں۔
ہرش مندر کی تقریر کی کلپ کا استعمال کرکے ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے تشدد کی اپیل کی۔
جانچ ایجنسیوں نے اس اسکرپٹ کو کہانی کی صورت میں فروغ دیا اوراسکرپٹ کے مطابق کرداروں کو ڈھونڈ لیا اور اب عدالت اورعوام کو اس کہانی پر یقین کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔لیکن ایسے دور میں بھی، کم سے کم ایک سیشن کورٹ نے اس اسکرپٹ کی تہہ میں دیکھنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا اور پولیس کو وارننگ بھی دی کہ
ان کی جانچ پڑتال یک طرفہ ہے۔
اس جانچ پڑتال کا سازشی اصول بھیماکورے گاؤں تشدد کی جانچ میں استعمال کیے گئے طریقے کی یاد دلاتا ہے جس کے تحت دلتوں کے ساتھ ہوئےتشدد کو عوامی حافظہ سے پوری طرح مٹا دیا گیا ہے۔تشدد کے ملزم بےروک ٹوک گھوم پھر رہے ہیں، وہیں ہیومن رائٹس کارکنوں، سماجی اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جانچ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہی سازش کی اور تشدد کروایا۔
تو اس طرح پورے واقعے کی سچائی کو سر کے بل کھڑا کر دیا گیا۔ تشدد کے حقیقی کارناموں کو بھلا دیا گیا اور اس کی جگہ تشدد کی جھوٹی کہانی کا بیانیہ اور وزیر اعظم کے قتل کے فرضی منصوبہ سے دانشوروں کے تعلق کی باتیں پھیلا دی گئیں۔جانچ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔ دہلی تشدد کے معاملے میں بھی ‘جانچ’ کے اسی پیٹرن کااستعمال ہوا ہے۔
دہلی تشدد کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوئے میران حیدر، دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال، صفورہ زرگر اور آصف تنہا۔
فروری مہینے میں ہوئےتشدد میں لگ بھگ 60 لوگ مار دیے گئے، اس سے کہیں زیادہ لوگ زخمی ہوئے، بہت سارے گھروں اور کاروباری اداروں کو جلا کر برباد کر دیا، کئی مسجدوں کو بری طرح سے نقصان پہنچایاگیا۔ اس میں ہندوؤں کا بھی نقصان ہوا لیکن یہ بات صاف ہے کہ تشدد میں ایک مسلمان مخالف واضح آواز تھی۔
ملک اوربیرون ملک کے صحافیوں اورتجزیہ نگاروں نے غور کیا کہ ایک بھی مندر کونقصان نہیں ہوا جبکہ مسجدوں کو بربریت سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک نوجوان دوست نے کہا کہ جس طرح سے مسجدوں اور قرآن کو جلایا گیا، جو مسلمانوں کی عقیدت کا حصہ ہے، اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانیت کو کس طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ویسے شروعاتی گھنٹوں کے حملوں میں ہندو اور مسلمانوں دونوں کو نقصان پہنچا، لیکن بہت جلد ہی یہ صاف ہو گیا کہ تشدد کاہدف مسلمان، ان کاروزگار، ملکیت اور ان کےمذہبی آثار ہیں۔بہت سے واقعات میں پولیس کی حصے داری اور اس کا مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ بھی دکھا۔ کئی معاملوں میں زخمی مسلمانوں کو طبی امداد پہنچانے سے انکار کر دیا گیا جان بوجھ کر ان تک مددہی نہیں پہنچنے دی گئی۔
آدھی رات میں
دہلی ہائی کورٹ میں دستک دینے اور اس کے آرڈرکے بعد ہی زخمیوں کو تشددکی جگہ سے باہر نکالنے کے لیے پولیس تیار ہوئی۔اس تشدد کا ایک اورچہرہ ان مقامات پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنا تھا جس جگہ پر دسمبر کے بعد سے ہی لگ بھگ دو مہینے سے بیٹھ کر مسلم عورتیں مظاہرہ کر رہی تھیں، جو شاہین باغ سےترغیب حاصل کر رہا تھا۔ ان مظاہروں کے مقبول نعروں میں سے ایک تھا ‘آزادی’لفظ اور اس کے لیے امید بھی۔
ان پر حملوں کے دوران مسلمانوں کو،خواتین بھی جس میں شامل تھیں، ‘آزادی چاہتے تھے نا، لو اب ہم تمہیں دے رہے آزادی’… کچھ نوجوانوں کو مارتے ہوئے پولیس یہ کہہ رہی تھی
جس کو فلمایا بھی گیا تھا۔ یہ سب
عوامی طور پردرج ہیں۔جسمانی تشدد سے پہلے سی اے اے مخالف مظاہروں کے خلاف اکسانے والے نعروں کے ذریعے اس کی زمین تیار کی گئی تھی۔وزیر اعظم مظاہرین کو
ان کے کپڑوں سے پہچاننا چاہتے تھے۔ انہوں نے جس طرح شاہین باغ کے مظاہرہ کو اپنے
زہریلے انداز میں ‘پر یوگ’ کہا، اس سے وہ ان کی عوام کو سازش سنائی پڑی۔
دہلی کے لوگوں کو شاہین باغ کے مظاہرین کو ایک کرارا جواب دینے کے لیے متاثر کیا گیا۔ ایک مرکزی وزیر نے اپنے
حامیوں سے نعرہ لگوایا کہ ‘دیش کے غداروں کو، گولی مارو ٭٭٭ کو۔’ حکمراں پارٹی کے ایک سینئر ایم پی نے ہندوؤں کو
یہ دعویٰ کرتے ہوئے ڈرایا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں میں ریپ کرنے والے اوردہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔
کہہ سکتے ہیں کہ نئےشہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تشدد کرنے کے لیے ایک ذہنی زمین تیاری کی گئی تھی۔ مظاہرین میں مسلمانوں کی موجودگی نے اس کام کو اور آسان بنا دیا۔گزشتہ سالوں میں ہندوتووادی تنظیموں نے عام ہندوؤں تک بھی اس خیال کو پہنچا دیا ہے کہ اکیلا مسلمان بھلے ‘اچھا’ ہو، پرمنظم مسلمان لازمی طور پرخطرناک ہے۔ لوگ اس بات پر حیران تھے کہ دہلی میں بنا شہر کے معمولات میں خلل پیدا کئے سینکڑوں ہزاروں عورتوں کا بیس سے زیادہ جگہوں پر دو مہینے سے زیادہ سےمظاہرہ چل رہا تھا۔
ایسا آزاد ہندوستان میں پہلی بار ہوا تھا کہ ‘آئین کی تمہید’ لوگوں کے احتجاج کی علامت اور ترنگا مظاہرین کا جھنڈا بنا۔ مظاہروں میں ایک رومانیت تھی، ان کا مزاج مدعو کرنے والا تھا اور جڑیں کمیونٹی میں تھیں۔ ان میں تھوڑی بدنظمی اورمنصوبے کی کمی ضرور تھی، پر وہ زیادہ ترامنگ سے بھرے تھے۔
نوجوان مسلم عورتوں کا بڑھ چڑھ کر آگے آنا بھی اس مظاہرہ کو لاثانی بناتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان میں سے اکثر مسلمان تھے پر وہ چاہتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی ان کی تشویش کو سمجھیں اور ان کے ساتھ جڑیں۔ان سب کے بیچ مظاہرین کو ہندومخالف اور ملک مخالف قرار دینے کی کاناپھوسی مہم بھی چل رہی تھی۔ اس کے ذریعے یہ حیرانی ظاہر کی جا رہی تھی کہ مسلمان پڑوسی مسلم ممالک میں استحصال برداشت کر رہے ہندوؤں کوشہریت دیے جانے کے خلاف کیوں ہیں۔
یہ سی اے اےمخالف مظاہروں کے مانگ کو بالکل کریہہ بنا کرکے پیش کرنا تھا لیکن میڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنے پروپیگنڈہ کے ذریعے اس کو توڑ مروڑ کر نشر کرتا رہا۔اپوزیشن پارٹیاں اس قانون کونافذ ہونے سے روک سکنے میں نااہل رہیں۔ پارلیامنٹ میں ملی ہار کے بعد وہ عوام ہی تھے جو اس کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
اتر پردیش کی بی جے پی حکومت اور دہلی میں پولیس نے اسے بربریت سے کچل دیا۔ اتر پردیش میں لگ بھگ بیس لوگ مارے گئے۔ یہ صورتحال تب اور خوفناک ہو گئی جب پولیس نے قتل کی ذمہ داری لینے سے منع کر دیا۔ جس کا مطلب یہ نکلا کہ مظاہرین اپنی موت کے ذمہ دار خود تھے۔
پولیس نے بڑی بے رحمی سے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مظاہرہ کرنے والے طلباپر حملہ کیا۔ سپریم کورٹ نے یہ صاف کر دیا کہ وہ نہ تودخل اندازی کرےگا اور نہ اس کا ارادہ تشدد روکنے کا ہے۔اس سے بھی برا یہ جاننا تھا کہ متاثرین کی شنوائی تبھی ہوگی جب وہ سڑکوں کو خالی کر دیں گے۔ اس سے اشارہ لےکر سرکار نے جلد ہی مظاہرہ کو ہی غیرقانونی قرار دیا اور یہ سمجھ بنائی گئی کہ لوگوں کو اس قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کا کوئی حق نہیں جس کو پارلیامنٹ نے پاس کر دیا ہو۔
اگر آپ سرکار کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں تو آپ فطری طور پر ان کے بھی خلاف ہیں جنہوں نے اس سرکار کو چنا ہیں۔ سرکار نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ صرف عوام کی خواہش کی نمائندگی کرتی ہے۔اس موقع پر شاہین باغ سامنے آیا۔ مسلم عورتوں نے سڑک کے حصہ کو گھیر کر دھرنا شروع کیا۔ اس کی قیادت خواتین کر رہی تھیں۔ نوجوان مسلم عورتوں نے تمام کاموں کی ذمہ داری کو بخوبی سنبھالا تھا۔ بہت جلد شاہین باغ ایک مثال بن گیا تھا۔
دہلی کے اور کئی حصوں میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے قصبوں اور گاؤں میں اس کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔ سرکار کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کو سنبھالا کیسے جائے تو انہوں نے سازش کی کہانی بنائی کہ مسلم عورتیں تو صرف ‘خطرناک’ مسلم مردوں کو چھپانے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے پیچھے ماؤوادی، مارکسسٹ اور ‘اربن نکسل’ گروپ بھی ہیں ۔
اس کاناپھوسی مہم کو کھلے طور سے کام کرنے کا موقع انتخابی تشہیر کے بہانے ملا۔ بی جے پی نے یہ بھی الزام لگایا نے کی کوشش کی کہ عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال ان مظاہروں کے پیچھے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کیجریوال نے شاہین باغ سے خود کو دور کر لیا اور مرکز ی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مظاہرہ کوجاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس ان کے ماتحت ہوتی تو وہ شاہین باغ کو دو دنوں میں خالی کروا دیتے۔
مین اسٹریم کی اپوزیشن پارٹیوں نے اس پرخاموش رہنا طے کیا اور سوچا کہ اگر وہ مظاہروں کی طرفداری کریں گے تو ہندو ان کی پارٹی سے درکنار ہو جائیں گے۔ ان سب نے شاہین باغ مظاہرین کو الگ تھلگ کرنے میں بی جے پی کی مدد کی۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اکیلے پڑ گئے تھے۔ خواتین کے حقوق، دلت حقوق اورہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والی الگ الگ تنظیم ان کے ساتھ تھیں۔ ان کی وابستگی کو بھی اربن نکسل اور ‘جہادیوں’ کا خطرناک گٹھ جوڑ کہہ کرمشتہرکیا گیا۔
دھیرے دھیرے، مظاہرین کے خلاف تشدد کی اپیل بھی کی جانے لگی۔ ایک عجیب وغریب نعرہ سننے میں آیا ‘مودی جی لٹھ بجاؤ،ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’اور پھر بعد میں سنا گیا ‘دہلی پولیس لٹھ بجاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’مسلم مظاہرین کے خلاف سڑک اور ریاست کی طاقت کا انضمام ہو گیا۔ اسی پس منظر میں شمال مشرقی دہلی میں تشدد شروع ہوا۔ اس تشدد کی صحیح جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔
تشدد کا ڈسکورس، جس کو منظم طریقے سے ان لوگوں نے پھیلایا جو سی اے اے مخالف مظاہروں کے خلاف تھے اور تشدد کے حقیقی کارناموں کے بیچ کی کڑی کو سمجھنا چاہیے۔پر جانچ ایجنسیاں نوجوان اسٹوڈنٹ لیڈر، زیادہ تر خواتین کو گرفتار کرکے اس جانچ کو الٹی سمت میں لے جا رہی ہیں اور انہیں جھوٹ کے دم پر پولیس کی فرضی کہانی کے کرداروں کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)