ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کی گرفتاری کے خلاف پارلیامنٹ کی نئی عمارت کے باہراحتجاج کے لیے مارچ کرنےکے دوران میڈل جیتنے والے پہلوانوں پر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اب ان کے خلاف فساد برپا کرنے، غیر قانونی طور پراکٹھا ہونے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی 28 مئی کو نئے پارلیامنٹ ہاؤس میں اور اسی دن پہلوان ساکشی ملک جنتر منتر پر ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: دہلی پولیس نے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزام پر اتوار کو پارلیامنٹ کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کررہے پہلوانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اتوار (28) مئی کو پولیس نے پہلوانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تھا اور انہیں اور ان کے حامیوں کو دہلی اور آس پاس کی ریاستوں میں
حراست میں لے لیا تھا۔ پہلوانوں کو گھسیٹنے، دھکیلنے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے کے ویڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے کے بعد کئی اپوزیشن رہنماؤں، حقوق نسواں کے کارکنوں اور دیگرسماجی کارکنوں نے پولیس کی کارروائی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، دہلی پولیس نے تقریباً 700 پہلوانوں کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس کے مطابق، دن کے دوران 500 سے زیادہ خواتین پولیس اہلکاروں اور 1400 مرد اہلکاروں کو ڈی سی پی (نئی دہلی) پرنوتائل کو رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ مظاہرین کو مختلف پولیس اسٹیشنوں- کالکاجی، میور وہار، مالویہ نگر، براڑی اور نجف گڑھ میں حراست میں لیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق، جنتر منتر سے 150 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا گیا، جبکہ طلبہ، کارکنوں، کسانوں اور ٹریڈ یونین لیڈروں سمیت 550 دیگر کو مختلف علاقوں سے حراست میں لیا گیا تھا۔
جب پہلوانوں کو حراست میں لیا جا رہا تھا اور پولیس کارروائی کی جا رہی تھی، برج بھوشن شرن سنگھ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں نئے پارلیامنٹ ہاؤس کی
افتتاحی تقریب میں حصہ لے رہے تھے۔
وہیں، دہلی پولیس، جس پر سنگھ کے خلاف درج دو ایف آئی آر ( جس میں ایک نابالغ کے ساتھ جنسی استحصال کے لیےپاکسو ایکٹ کے تحت ہے) میں سست کارروائی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، وہ پہلوان پارلیامنٹ ہاؤس کے باہر ‘مہیلا سمان پنچایت’ نہ کرسکیں،یہ یقینی بنانے کے لیےمستعدی سے کارروائی کرتی ہوئی نظر آئی۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، پہلوانوں کے خلاف مقدمہ اتوار کو انہیں حراست میں لیے جانے کے چند گھنٹے بعد درج کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف فساد برپا کرنے، غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے اور سرکاری ملازمین کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔میڈلسٹ ساکشی ملک، وینیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیاسمیت احتجاج میں حصہ لینے والے تمام پہلوانوں کومعاملے میں نامزد کیا گیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، پہلوانوں پر پارلیامنٹ اسٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے میں پبلک پراپرٹی کو نقصان کی روک تھام (پی ڈی پی پی) ایکٹ کے تحت بھی الزام عائد کیے گئے ہیں۔
ان پر آئی پی سی کی دفعہ 147، 149، 186، 188، 332، 353 اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ساکشی ملک نے اتوار کی رات ٹوئٹ کیا، ‘دہلی پولیس کوجنسی استحصال کرنے والے برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں 7 دن لگتے ہیں اور پرامن احتجاج کرنے پر ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں 7 گھنٹے بھی نہیں لگے۔ کیا اس ملک میں آمریت شروع ہو گئی ہے؟ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ حکومت اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔
پھوگاٹ نے بھی یہی الفاظ
ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔’
ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے پہلوان اور ان کے حامی جنتر منتر پر برج بھوشن کی گرفتاری اور ان کے خلاف الزامات کی منصفانہ جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں۔ اتوار کو، جب پہلوانوں اور ان کے حامیوں کو حراست میں لیا جا رہا تھا، اسی وقت دہلی پولیس نے جنتر منتر پرتوڑ پھوڑ کی، اور مظاہرین کے ٹینٹ، گدے، واٹر کولر وغیرہ بھی ہٹا دیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،اسپیشل کمشنر آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) دیپیندر پاٹھک نے کہا، پہلوانوں نے جو کیا وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا۔ اب ہم انہیں احتجاجی مظاہرہ نہیں کرنے دیں گے۔ ہم نے ان سے کہا تھاکہ (احتجاج کی جگہ سے) نہ ہٹیں، لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی۔ 8-9 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ انہوں نے قانون توڑا اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ ہم نے علاقے کو کلیئر کر دیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پہلوان دوبارہ احتجاج کے لیے آئے تو انہیں واپس بھیج دیا جائے گا یا حراست میں لے لیا جائے گا۔
اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر اے این آئی سے بات کرتے ہوئے ساکشی ملک نے کہا، ‘ہم پرامن طریقے سے مارچ کرنا چاہتے تھے، ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم نے بھی جانے کی درخواست کی لیکن جب ہم آگے بڑھنے لگے تو انہوں نے دھکا دینا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے ہمیں حراست میں لینا شروع کیا تو ہم نے احتجاج کیا اور پھر ہمیں حراست میں لے لیا گیا… جب ایک عورت پر 20-30 کا فورس لگا ہو تو ہم دنگا–فساد کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم تو صرف روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہمیں مت لے جاؤ… ہم نے کوئی دنگا–فساد نہیں کیا، کسی بھی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ ویڈیو دیکھ لیجیے۔
احتجاج کی جگہ کو کلیئر کرنے اور ان کی حراست کے باوجود پہلوان ڈٹے ہوئے ہیں۔ اتوار کو حراست سے رہا ہونے کے بعد ساکشی ملک نے دوبارہ ستیہ گرہ شروع کرنے کا
اعلان کیا۔
وہیں ،
ہندوستان ٹائمز کے مطابق حراست میں لیے جانے کے بعد رہا کیے گئے بجرنگ پونیا نے کہا کہ جب تک مظاہرین کو انصاف نہیں مل جاتا تب تک گھر جانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ برج بھوشن نئے پارلیامنٹ ہاؤس کے افتتاح کے موقع پر موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ پارلیامنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہو رہا تھا اور ایک ملزم وہاں موجود تھا۔’
اس سے پہلے، پونیا نے ایک ٹوئٹ کرکے دہلی پولیس پر الزام لگایا تھا کہ وہ بغیر کسی جرم کے انہیں حراست میں رکھے ہوئے ہیں۔
تقریباً 10 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد بالآخر انہیں رہا کر دیا گیا۔
اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس، عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس نے پولیس کارروائی کی مذمت کی۔ وزیر اعظم مودی پر طنز کرتے ہوئے راہل گاندھی نے لکھا، ‘تاجپوشی مکمل ہو گئی- ‘مغرور بادشاہ’ سڑکوں پر عوام کی آواز کو کچل رہا ہے۔’
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ ہمارے چیمپئنز کے ساتھ اس طرح کا سلوک شرمناک ہے۔
انہوں نے لکھا، ‘دہلی پولیس نے جس طرح ساکشی ملک، وینیش پھوگاٹ اور دیگر پہلوانوں کے ساتھ مار پیٹ کی ، اس کی سخت مذمت کرتی ہوں۔ یہ شرمناک ہے کہ ہمارے چیمپئنز کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی جڑیں رواداری میں ہوتی ہیں، لیکن آمرانہ قوتیں عدم برداشت اور اختلاف رائے کو دبانے سے پروان چڑھتی ہیں۔ میں اپنے پہلوانوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن نے کہا کہ نئی پارلیامنٹ میں نصب کیا گیا تمل ناڈو کےمٹھ کی طرف سے جواہر لال نہرو کودیا گیا سینگول اپنے افتتاح کے دن ہی ‘جھک گیا’۔
ایک بیان میں اسٹالن نے کہا،کئی مہینوں سے پہلوان بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج کررہے ہیں، لیکن پارٹی قیادت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
بتا دیں کہ ان کی پارٹی ڈی ایم کے نے نئی پارلیامنٹ کے افتتاح کا بائیکاٹ کیا تھا۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔
وہیں، سابق بھارتی کرکٹر عرفان پٹھان نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں کھلاڑیوں کے مناظر دیکھ کر دکھ ہوا، براہ کرم جلد از جلد اس معاملے کوحل کریں۔
مظاہرین کو دہلی بارڈر پر ہی روک دیا گیا تھا
دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارتیہ کسان یونین (شہید بھگت سنگھ) کی سات بسوں کو حراست میں لیا گیا۔ دو بسوں کو کنڈلی بارڈر پر روکا گیا،امبالہ سے جنتر منتر جا رہی تین اور ہریانہ کے امبالہ ضلع کے شاہ پور اور تھروا مجری گاؤں سے آ رہی دوبسوں کو روکا گیا۔
کسان لیڈر تیجویر سنگھ کے مطابق، جنتر منتر جانے والے تقریباً 35 کسان لیڈروں اور ان کے حامیوں کو دہلی-ہریانہ کی کنڈلی-سنگھو بارڈرسے حراست میں لیا گیا اور سونی پت کے قریب موہنا پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا۔
تیجویر نے الزام لگایا کہ مظاہرین کے لیے لنگر لے جانے والے ان کے پک اپ ٹرک کو ہریانہ میں روک دیا گیا۔ پنجاب کے ماجھا علاقے سے تعلق رکھنے والے کسان لیڈر سرون پندھیر کو 300 خواتین کسانوں کے ساتھ ہریانہ کے امبالہ ضلع میں مانجی صاحب گوردوارہ سےاحتجاج میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
معلوم ہو کہ جنوری کے مہینے میں ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے پہلوانوں نے دہلی کے جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا۔
کئی ہفتوں کے احتجاج کے بعد 23 جنوری کو معاملے کی تحقیقات کے لیے مرکزی وزارت کھیل کی طرف سے یقین دہانی اوراولمپک میڈلسٹ باکسر میری کوم کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل کے بعد پہلوانوں نےاپنی ہڑتال ختم کر دی تھی۔
اس دوران برج بھوشن کو فیڈریشن کے صدر کے عہدے کی ذمہ داریوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔
تاہم، کوئی کارروائی نہ ہونے کے بعد 23 اپریل کو بجرنگ پونیا، ونیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک سمیت دیگر پہلوانوں نے اپنا احتجاج دوبارہ شروع کیا ہے۔