واقعہ روہتک کا ہے، جہاں رائٹ ونگ گروپوں کے ممبروں نے مبینہ طور پر آٹھ دسمبر کو چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ہندوتوا ہجوم کاالزام تھا کہ چرچ مذہب تبدیل کرا رہا ہے لیکن پولیس نے بتایا کہ انہیں ابھی تک ایسی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ہریانہ کے روہتک میں رائٹ ونگ ہجوم نےمبینہ طور پر آٹھ دسمبر کو چرچ میں گھسنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں روک لیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، بھیڑ کا الزام ہے کہ چرچ مذہب تبدیل کرا رہا ہے لیکن پولیس کے مطابق ابھی تک ایسی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔
چرچ کے ایک پادری نے کہا،‘لوگ یہاں دیگر عبادت گاہوں کی طرح اپنی عقیدت کے ساتھ آتے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی کو یہاں آنے پر مجبور نہیں کیا۔’
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ بھیڑ اکٹھا ہونے سے پہلے پولیس نے چرچ کا دورہ کیا تھا اور اور انہیں بتایا گیا تھا کہ احتجاج ہو سکتا ہے۔
بتا دیں کہ ہریانہ، اتر پردیش جیسےدوسرے بی جے پی مقتدرہ صوبوں میں منظور شدہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو نافذ کرنے کا منصوبہ ہے۔
الزام ہے کہ ایسے قوانین کا استعمال اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
روہتک پولیس کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن منوج کمار نے کہا، ‘ہمیں اس طرح کی شکایت ملی تھی کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک چرچ میں جبراً مذہب تبدیل کرنے کو لے کر کوئی شکایت نہیں ملی ہے’
گزشتہ کچھ ہفتوں میں ملک کے کئی حصوں کے چرچ پر رائٹ ونگ ہجوم نے جبراً تبدیلی مذہب کاالزام لگاکر حملہ کیا ہے۔
اکتوبر میں روڑکی میں ایک چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور وہاں پوجا کر رہے لوگوں پر حملہ کیا گیا تھا۔
نومبر میں دوارکا کے ایک نئے چرچ میں بھی اسی طرح کا حملہ کیا گیا تھا۔ اس ہفتے کی شروعات میں مدھیہ پردیش کے ایک مشنری اسکول میں بھی جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگاکر حملہ کیا گیا تھا۔
ان تمام معاملوں میں چرچوں اور اسکولوں نے تبدیلی مذہب کے الزامات سے انکار کیا ہے اور پولیس کو بھی جبراًتبدیلی مذہب کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔