ہریانہ: پانی پت میں انتظامیہ نے مہاجر مزدوروں کے لیے سڑی ہوئی کھچڑی بھجوائی

04:02 PM Apr 02, 2020 | دھیرج مشرا

ہریانہ کے پانی پت میں رہ رہے کئی مہاجر مزدوروں نے شکایت کی ہے کہ یا تو انتظامیہ انہیں کھانا مہیا نہیں کرا رہا ہے اور اگر کہیں پر کھانا پہنچ بھی رہا ہے تو وہ بے حد خراب ہے۔

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کو رونا وائرس کے انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کی وجہ سےملک بھر کے شہروں میں پھنسے ہزاروں مزدوروں کو شدیدمشکلوں کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ ریاستی حکومتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ مزدوروں کو ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور شہر میں ہی ان کے رہنے کھانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ زمینی حقیقت سرکاروں کےغیرذمہ دارانہ  اور بے حسی کو بیان کر رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ مزدوروں کو باسی، خراب یا سڑا گلا کھانا دیا جا رہا ہے۔دی  وائر نے ہریانہ کے کئی مزدوروں سے اس بارے میں بات چیت کی ہے، جنہوں نے یہ تصدیق  کی ہے کہ یا تو ان تک راشن پہنچایا ہی نہیں جا رہا ہے اور اگر باربار گزارش کے بعد تھوڑی بہت راحت پہنچ بھی رہی ہے تو کھانا بےحد خراب ہے۔

بنیادی طور پر بہار کے نالندہ ضلع کے رہنے والےاور اس وقت پانی پت کے کباڑی روڈ پر رہ رہے مزدور، وکی نے بتایا کہ گزشتہ منگل یعنی کہ 31 مارچ کو انتظامیہ کی طرف سے شام چھہ بجے کے آس پاس 45 مزدوروں کے لیے کھچڑی بھجوائی گئی تھی، لیکن وہ بالکل خراب تھی۔ وکی نے الزام لگایا کہ کھانا سڑ چکا تھا اور اس سے بدبو آ رہی تھی۔

وکی دھاگہ مل میں مزدوری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ہمیں یہ کھانا ڈسٹ بن میں پھینکنا پڑا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، یہ سب کھاکر ان کی طبیعت اور خراب ہو جاتی۔ سرکار ہمیں سوکھا راشن دے دے، ہم خود بنا لیں گے۔’پانی پت کے دیس کالونی میں رہنے والے شاہد گزشتہ  رات سو رہے تھے کہ رات دس بجے ان کے پاس فون آیا اور کہا گیا کہ آکر راشن لےکر جاؤ۔

شاہد راشن لینے نہیں گئے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو پہلے ہی بسکٹ کھلا کر سلا دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ہم دن بھر کھانے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ کوئی کھانا دینے نہیں آیا۔ ایک ہفتے ہو گئے ہمیں کچھ بھی نہیں ملا ہے۔’مدھیہ پردیش کے ٹیکم گڑھ ضلع کے رہنے والے گھنشیام موجودہ وقت میں رامائنی چوک پر رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گھر پر گیس بالکل ختم ہو گئی ہے، پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں دے پا رہے ہیں۔

گھنشیام نے کہا، ‘چار دن پہلے میں اپنی بیوی  کے ساتھ مدھیہ پردیش میں اپنے گاؤں جانے کے لیے نکل گیا تھا۔ لیکن پولیس نے ہمیں سونی پت میں پکڑ لیا اور واپس پانی پت چھوڑ گئی۔ تب انہوں نے پانچ کیلو آٹے کی ایک تھیلی، آلو،، ایک لیٹر تیل اور دال دیا تھا۔ حالانکہ سیلنڈر نہیں ہے، اس راشن کا کیا کریں ہم۔’

یہ بھی پڑھیں: لاک ڈاؤن میں پانی پت کے 3500 فیملی کو راشن کا انتظار

گھنشیام نے بتایا کہ انہوں نے ہریانہ کے ہیلپ لائن نمبر 1100 پر کال کیا تھا لیکن وہاں سے جواب آیا کہ تمہارا مدھیہ پردیش کا آدھار کارڈ نہیں چلےگا، راشن نہیں مل سکتا۔55 سالہ  بیوہ اورجسمانی طور پرمعذورگیتا دیوی ریہڑی لگاکر اپنا گزرا چلاتی تھیں۔ وہ راج نگر کی گلی نمبر تین میں رہتی ہیں۔ ان کے پڑوس میں رہنے والی رینو گھروں میں صفائی کرنے کا کام کرتی تھیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دونوں کا کام بند ہو گیا ہے اور دونوں کو ابھی تک کسی طرح کا راشن نہیں دیا گیا ہے۔

گیتا دیوی نے کہا، ‘میرے دونوں ہاتھ اور پاؤں بالکل خراب ہو رکھے ہیں۔ چلنا پھرنا بھی مشکل ہے۔ ابھی تک کوئی بھی مدد نہیں ملی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے بھوکی بیٹھی ہوں۔’ایک دوسری مزدور پریتی نے بتایا کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے بیمار ہیں، علاج بھی نہیں ہو پا رہا اور کھانا بھی نہیں مل رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ رات کو انتظامیہ کی طرف سے کھانے کے نام پر انہیں نمکین چاول کا پیکیج بھجوایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘اس سے کیا ہوگا۔ میں بیماری کے حالت میں یہ سب کیسے کھا سکتی۔’الزام  ہے کہ ہریانہ انتظامیہ مہاجر مزدوروں کو راحت پہنچانے کے لیےمناسب رقم  نہیں خرچ کر رہا ہے اور جو ہیلپ لائن نمبر جاری کئے گئے ہیں، اس پر کال کرنے پر کوئی فون نہیں اٹھا رہا، اگر ایک آدھ بار فون لگ بھی جا رہا تو حکام  معاملے کوٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ ہریانہ کے پانی پت انتظامیہ کا کہنا ہے کئی لوگ ہیلپ لائن پر فرضی کال کرکے جمع خوری کر رہے ہیں، اس لئے اب سوکھا راشن دینا بند کر دیا گیا۔پانی پت کی ضلع  کلکٹر ہیما شرما سے جب اس بارے میں سوال کیا تو پہلے تو انہوں نے ایسی کوئی دقت ہونے کے امکانات سے انکار کیا۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے کہا کہ آپ ان مزدوروں کا رابطہ دیں، مدد کی جائےگی۔

انہوں  نے دی  وائر سے بات چیت میں کہا، ‘اب ہم نے سوکھا راشن دینا بند کر دیا ہے، کیونکہ لوگوں نے سوکھا راشن جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک ہی شخص الگ الگ نمبر سے کال کرکے سوکھا راشن منگاتا تھا اور اپنے یہاں جمع کر لیتا تھا۔’شرما نے کہا کہ ضلع انتظامیہ نے ہر وارڈ میں اہلکاروں  کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے، جو وہاں جاتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں کہ کسے کھانے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ راشن ہے یا نہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ فری میں جو بھی مل رہا ہے لے لیں گے۔’

مقامی انتظامیہ نے 20 پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ٹائی اپ کیا ہے، جو کہ آرڈر آنے پر کھانا بناکر ڈلیوری کرنے کا کام کرتے ہیں۔ حالانکہ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہر ٹائم کے لیے انہیں کال کرنا پڑتا ہے اور ہر بار انہیں کھانا پہنچانے کے لیے انتظامیہ کی منظوری لینی پڑتی ہے۔مزدورتنظیم  انڈین فیڈریشن آف ٹریڈ یونینس  نے کہا کہ وہ پرسوں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں پی آئی یال  دائر کریں گے، تاکہ بھوک مری کے شکار ان مہاجر اورمقامی مزدوروں ، بنکروں کو فوری طور پر راشن و معاشی  مدد سرکار دے، ان کے زندہ  رہنے کے  حق  کی حفاظے ہو پائے۔

دی  وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے مہاجر بنکروں، رکشہ  ڈرائیوروں سمیت ہزاروں یومیہ مزدوروں کو راشن نہیں مل پا رہا ہے۔ اس میں سے کئی لوگ اپنے گاؤں واپس لوٹ رہے تھے، لیکن انتظامیہ نے انہیں یہ یقینی دلا کر روکا ہے کہ انہیں کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں ہونے دی جائےگی۔