ہریانہ کے بھیوانی ضلع کا باپوڑا گاؤں سابق آرمی چیف اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ جنرل وی کے سنگھ کا گاؤں ہے۔ گاؤں کے ہر دوسرے گھر میں آپ کو فوجی مل جائیں گے، لیکن ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے آنے کے بعد یہاں کے نوجوان فوج میں جانے کا خواب چھوڑ کر مستقبل کی تلاش میں کہیں اور بھٹک رہے ہیں۔
باپوڑا گاؤں کا داخلی دروازہ اور ٹینک ٹی55۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر)
بھیوانی: ہریانہ میں کھیل اور کھلاڑیوں کے لیے مشہور ضلع بھیوانی کے شہری علاقے سے صرف 8 کلومیٹر کی دوری پر فوجیوں کے لیے مشہور باپوڑا گاؤں ہے، جس کےمین گیٹ پر دوحصوں میں منقسم سڑک کے مرکز میں پاک بھارت جنگ (1971) کے دوران استعمال ہوا ٹی 55 ٹینک کھڑا ہے۔
ٹینک کے پاس لگی تختی بتاتی ہے کہ اس کی بنیاد سابق آرمی چیف اور سابق بی جے پی ایم پی جنرل (ر) وی کے سنگھ نے 2022 میں رکھی تھی۔ باپوڑا وی کے سنگھ کا آبائی گاؤں ہے۔ ان کا بچپن یہاں کی گلیوں میں گزرا تھا۔ تاہم، اس گاؤں سے فوج میں شامل ہونے والے نہ تو وی کے سنگھ پہلے شخص تھے اور نہ آخری۔
اس گاؤں کے لوگ ہندوستانی فوج سے پہلے برطانوی فوج اور مغل فوج میں بھی جاتے رہے ہیں۔ گاؤں کا ہر دوسرا گھر فوجی کا گھرہے۔ گاؤں کے کسی بھی چوپال میں پانچ میں سے دو لوگ سابق فوجی یا فوجی کے خاندان والے مل جاتے ہیں۔
‘ہمارے گاؤں میں بہت سے فوجی ہیں۔ وی کے سنگھ بھی اسی گاؤں کے ہیں،‘ 20 سالہ گولو تنور بتاتے ہیں۔
گولو مایوسی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے آنے کے بعدصورتحال میں کافی فرق آیا ہے… اب صرف معاشی طور پر کمزور خاندانوں کے بچے ہی فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔’
پہلوان گولو گاؤں کے میدان میں سناٹے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،’ پہلے میدان میں روزانہ صبح و شام 200-300 سے زیادہ لڑکے فوج کی تیاری کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اب صرف 40-50 ہی نظر آتے ہیں۔’
باپوڑا میں ایسے کئی نوجوان ملے، جو پہلے فوج کے لیے تیاری کرتے تھے، لیکن اب اپنا مستقبل کہیں اور تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے سابق فوجی بھی ملے،جو ‘اگنی پتھ’ اسکیم کی خامیوں کی فہرست بنائے بیٹھے ہیں۔
فوجی بننے کاخواب چھوڑکر بھینس کی چرواہی کرتے نوجوان
‘میں ٹائم پاس کرتا ہوں۔’ گاؤں کے ایک پارک کے باہر موٹر سائیکل پر بیٹھے 19 سالہ امیش کوشک نے یہ جملہ اس وقت کہا جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا کرتے ہیں؟
‘اگنی پتھ’ اسکیم آنے سے پہلے امیش فوج کی تیاری کر رہے تھے۔ ‘اگنی ویر’ بننے کے لیے 5 منٹ 30 سیکنڈ میں 1.6 کلومیٹر دوڑنا پڑتا ہے، امیش نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ فاصلہ صرف 4 منٹ 30 سیکنڈ میں پورا کرلیتے تھے۔ ‘اگنی پتھ’ اسکیم نے امیش کا خواب چکنا چور کردیا۔ انہوں نے 12ویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور اب خاندانی کاروبار میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے بعد گاؤں کے زیادہ تر نوجوانوں نے فوج میں جانے کا خواب چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا، ‘پہلے 200 سے زیادہ لوگ تیاری کرتے تھے۔ اب کوئی نہیں کرتا۔ کچھ لڑکے میدان میں جاتے بھی ہیں تو کبڈی کھیلنے۔’
ان سے تھوڑی دور دو نوجوان لاٹھی لیے اپنے مویشیوں کوہانکتے ہوئے گاؤں کی مرکزی سڑک سے کچی سڑک پر اتر رہے تھے،جو دونوں طرف سے کھیتوں سے گھری تھی۔ ایک نوجوان کا نام نیلیش بھاردواج اور دوسرے کا نام سنیل تنور تھا۔
بائیں سے- نیلیش بھاردواج اور سنیل تنور (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر )
نیلیش بھاردواج فوج کے لیے تیاری کر رہے تھے، لیکن ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے بعد فوجی بننے کا خواب ترک کر دیا۔ سنیل کہتے ہیں،’اس نے تیاری چھوڑ دی۔ پہلے 18-20 سال کی نوکری ہوتی تھی۔ اب چار سال میں کیا ہی کمالے گا آدمی۔’
بارہویں پاس نیلیش اب گھر کی گائے اور بھینسیں چراتے ہیں۔ ان کے پاس مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، دیکھتے ہیں بھائی، بی اے ایم اے کرلیں گے۔’
جنرل وی کے سنگھ کے گاؤں میں گھومتے ہوئے ایک بھی نوجوان ایسا نہیں ملا جو ‘اگنی پتھ’ اسکیم سے مطمئن ہو۔ لیکن بھلے ہی نوجوانوں میں فوج میں شمولیت کی کشش کم ہوئی ہو، لیکن وردی پہننے کا خواب پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔ گاؤں کے 20 سالہ امت ایس ایس سی یا این ڈی اے کے ذریعے اس خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
سابق فوجی نے بتائی اگنی ویر اسکیم کی کمی
گاؤں کی ایک چوپال پر ملے ملکھان سنگھ نے پہلے تو ‘اگنی پتھ’ اسکیم پر کچھ کہنے بھی سے گریز کیا، لیکن یہ سنتے ہی کہ اگر ان کی نوکری بھی 4 سال کی ہوتی تو کیسا رہتا، وہ فوراً کھڑ ے کر غصے میں بولنے لگے، چار سال میں کیا سیکھے گا کوئی… اس ملک میں جوان کی کوئی اہمیت نہیں ہے جناب۔’
سابق فوجی ملکھان سنگھ (تصویر: انکت راج/ دی وائر )
انہوں نے وضاحت کی کہ اتنے کم وقت میں ایک سپاہی تیار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ‘پہلا سال صرف ٹریننگ میں ہی نکل جاتا ہے۔ ایک سال کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ باقی دو سالوں میں اگر کوئی طبی مسئلہ پیش آیا تو اس میں چھ ماہ گئے۔ بچے ڈیڑھ سال ۔ ڈیڑھ سال کی آرمی سروس میں کوئی کیا سیکھے گا، ملک کے بارے میں کیا جانے گا۔’
انتخابات پر اثر
بیس ہزار سے زیادہ آبادی والے باپوڑا گاؤں میں راجپوت اور برہمنوں کا غلبہ ہے۔ ایک چھوٹی سی تعداد پسماندہ طبقے اور دلت طبقے کی بھی ہے۔ کچھ گھر مسلمانوں کے بھی ہیں۔
باپوڑا گاؤں کے سرپنچ سگریو سنگھ، جو بی جے پی سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، نے دی وائر کو بتایا کہ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کی وجہ سے گاؤں کے نوجوان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ناراض ہیں۔ اس کی وجہ سے پارٹی کو انتخابات میں نقصان ہو سکتا ہے۔’
باپوڑا کے سرپنچ سگریو سنگھ (تصویر: انکت راج/ دی وائر)
دیگر بی جے پی کے حمایتی ووٹر بھی ‘اگنی پتھ’ اسکیم سے مایوس نظر آئے۔ تاہم، مویشی چراتے ملے نیلیش اور سنیل نے کہا کہ ووٹ ڈالتے وقت، لوگ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کو یاد نہیں رکھیں گے، جس کا جس پارٹی یا امیدوار سے کام بن رہا ہوگا، وہ اسے ووٹ دیں گے۔
برہمن برادری سے تعلق رکھنے والے امیش کوشک نے ہندوستانی ووٹر کے انوکھے انداز میں دونوں پارٹیوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘اگنی ویر یوجنا سے فرق توپڑتا ہے لیکن باپوڑا کے لوگ کانگریس کو ووٹ نہیں دیں گے۔اتنا ضرور ہے کہ بی جے پی گاؤں میں ہارے گی۔’
وہ بی جے پی کے باغی آزاد امیدوار ششی رنجن پرمار کی جیت کے بارے میں بات کرتے ہیں، جنہیں ٹھاکر برادری کی حمایت حاصل ہے۔ پرمار پہلے منڈھال سیٹ سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ یہ سیٹ اب وجود میں نہیں ہے۔
سرپنچ سگریو سنگھ، جو ٹھاکر برادری سے آتے ہیں،وہ بھی کہتے ہیں کہ پرمار کاپلڑا بھاری ہے۔
برہمنوں اور ٹھاکروں دونوں کے ووٹ کو نشانہ بنانے کے لیے بی جے پی نے کچھ دن پہلے راجستھان کے وزیر اعلیٰ بھجن لال شرما کو گاؤں بلایا تھا، جنہوں نے پارٹی امیدوار شروتی چودھری کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ کوشک کہتے ہیں، ‘ ضروری نہیں ہے کہ برہمن شروتی چودھری کو ووٹ دیں۔’
شروتی چودھری موجودہ ایم ایل اے کرن چودھری کی بیٹی ہیں۔ کرن چودھری، جو کانگریس کے ٹکٹ پر 2005 سے مسلسل توشام کی ایم ایل اے منتخب ہوئی ہیں،لیکن حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد وہ راجیہ سبھا ممبر بن گئی ہیں۔
شروتی چودھری کے کزن انیرودھ چودھری کانگریس کی طرف سے میدان میں ہیں۔ وہ سابق ایم ایل اے اور 2004 سے 2005 تک بی سی سی آئی کے صدر رہے رنویر سنگھ مہیندر کے بیٹے ہیں اور ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری بنسی لال کے پوتے ہیں۔
شروتی اور انیرودھ دونوں پہلی بار انتخابی میدان میں ہیں۔