ہریانہ کے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے تیار کی گئی 9 ویں جماعت کی تاریخ کی ایک نئی کتاب میں تقسیم کے لیے کانگریس کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے آر ایس ایس اور اس کے بانیوں کی ‘ثقافتی قوم پرستی’ کی تعریف کی گئی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر بھوپندر سنگھ ہڈا کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی طرف سے تعلیم کو ‘سیاسی’ بنانے کی واضح کوشش ہے۔
وی ڈی ساورکر، کے بی ہیڈگیوار اور بھارت چھوڑو تحریک کے دوران ایک مظاہرہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: کریٹیو کامنز)
بھارتیہ جنتا پارٹی مقتدرہ ہریانہ میں سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کی طرف سے تیار کی گئی 9 ویں جماعت کی
تاریخ کی ایک نئی کتاب نے 1947 میں تقسیم ہند کے لیے کانگریس کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
یہ کتاب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کے بانیوں کے ذریعے ‘ثقافتی قوم پرستی اور آزادی کی جدوجہد کو بیدار کرنے’ میں ادا کیے گئے ‘مثبت’ کردار کی بھی تعریف کرتی ہے۔
بورڈ کے عہدیداروں نے بتایا کہ نئی کتاب 20 مئی سے دستیاب ہوگی۔ دوسری جماعتوں کی تاریخ کی کتابیں بھی ‘اپ ڈیٹ’ کی گئی ہیں۔
تاریخ کی اس کتاب کے دوسرے آخری باب میں ملک کی تقسیم کے اسباب کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس میں تقسیم کے لیے کانگریس پارٹی کے ‘اقتدار کی لالچ اور اپیزمنٹ کی سیاست’ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
وہیں تقسیم کے لیے محمد علی جناح کی ‘ضد’ اور ‘پھوٹ ڈالو اور راج کرو’ کی برطانوی پالیسی کے علاوہ مسلم لیگ کے ‘فرقہ وارانہ نظریہ’ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ 1940 کی دہائی میں کانگریس کے رہنما ‘تھک چکے’ تھے اور اب آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے خواہش مندنہیں تھے۔
کتاب کہتی ہے، کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیےکچھ کانگریسی لیڈر جلد از جلد آزادی چاہتے تھے۔
مزید کہا گیا ہے، مہاتما گاندھی نے تقسیم کی مخالفت کی تھی۔ جب کانگریس قیادت نے اس میں کوئیدلچسپی نہیں دکھائی تو گاندھی کو بھی تقسیم کو قبول کرنا پڑا۔
کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ کئی معاملوں پر ‘کانگریس کی مسلسل مخالفت’ کر رہی تھی۔ لیکن دوسری طرف کانگریس برطانوی حکومت کے خلاف مسلم لیگ کے ساتھ تعاون پر آمادہ تھی۔
سال 1916 کا لکھنؤ معاہدہ، جس میں دونوں فریق صوبائی اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کی اجازت دینے پر متفق ہوئے، 1919 کی خلافت تحریک جس نے انگریزوں سےخلافت کے دفاع کی اپیل کی، اور 1944 میں گاندھی-جناح نے دو قومی نظریہ پر تعطل کو کم کرنے کے لیے بات چیت کو کتاب میں ‘کانگریس کی اپیزمنٹ کی پالیسی’ کی مثال بتایا ہے، جس نے فرقہ پرستی کو فروغ دیا۔
کہا گیا ہے کہ،محمد علی جناح کو بار بار لبھایا گیا اور ان کی بے جا توجہ نے انہیں مزید طاقتور بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کمزور ہو رہا تھا، فرقہ وارانہ تصادم عام تھا… اس نے کانگریس کو یقین دلایا کہ ملک میں امن کا واحد راستہ تقسیم ہے۔
کتاب میں سوال کیا گیا ہے کہ کیا دونوں ملکوں کے درمیان امن کو یقینی بنانے کے لیے تقسیم ضروری تھی، ‘آج بھی امن و امان قائم کیوں نہیں ہوئی ہے؟
ایجوکیشن بورڈ نے کہا کہ تبدیلی ‘حقائق پر مبنی’
جب سے یہ کتاب آن لائن اپ لوڈ ہوئی ہے، ریاستی کانگریس کے لیڈر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر بھوپندر سنگھ ہڈا نے دی وائر کو بتایا کہ یہ بی جے پی کی طرف سے تعلیم کو ‘سیاسی’ بنانے کی واضح کوشش ہے۔
ہڈا نے کہا کہ بی جے پی تاریخ کو بھگوا بنانے اور نوجوانوں کا برین واش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف جدوجہد آزادی میں کانگریس کی خدمات کی حقیقت سب کو معلوم ہے۔ تاریخ اس طرح نہیں بدلتی۔ وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب ہریانہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر جگ بیر سنگھ نے اپوزیشن کے ان الزامات کی تردید کی کہ نئی کتاب میں حقائق کو توڑ مروڑ کر سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ نئی کتابوں کا مواد ‘تاریخ میں دستیاب ریکارڈ’ پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا، اس کام میں تاریخ کے 40 سے زیادہ اسکالرز شامل تھے اور ہمارے پاس ان کے ذریعے منقول تصدیق شدہ ماخذہیں۔ میں غیر ضروری سیاست نہیں کرنا چاہتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ نوجوان نسل کے سامنے صحیح حقائق پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے خاطر خواہ کوششیں کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے سیشن سے کلاس 6 سے 10 تک کی تاریخ کی نئی کتابوں کی 10 لاکھ سے زائد کاپیاں تقسیم کی جائیں گی۔ یہ 20 مئی سے مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ کتابوں پر نظر ثانی کا عمل 2017 میں شروع ہوا تھا۔ اپریل 2017 میں اس وقت کے ایجوکیشن سکریٹری انل سوروپ کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر ریاست تاریخ کی کتابوں میں اپنے طریقے سے ترمیم کرسکتی ہے۔
آر ایس ایس، ہیڈگیوار اور تعریفوں کے پل
کلاس 9 کی کتاب کا پہلا باب ‘ہندوستان میں سماجی اور ثقافتی نشاۃ ثانیہ’ مہارشی اروبندو اور آر ایس ایس کے بانی کیشوراؤ بلی رام ہیڈگیوار جیسی 20 ویں صدی کی شخصیات کی خدمات کے بارے میں ہے، جہاں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ‘جدوجہد آزادی کی تحریک’ کو آگے بڑھانے کے لیے ‘ثقافتی قوم پرستی کے خیال کا استعمال کیا۔’
اس میں لکھا ہے، اس نے ہندوستانی سماج کی سماجی، ثقافتی اور فکری بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
اس باب کے صفحہ 11 پر ہیڈگیوار پر ایک تفصیلی مضمون بھی ہے، جہاں انہیں ایک ‘عظیم محب وطن اور اپنی زندگی میں انقلابی نظریات کا پیروکار’ بتایا گیا ہے۔
کتاب میں ہیڈگیوار کی سیاسی زندگی کا تفصیلات دی گئی ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کانگریس نے ایک بار ملک کی مکمل آزادی کے ان کے خیال پر مبنی قرارداد لانے سے انکار کر دیا تھا۔
کتاب میں آر ایس ایس کے لیے وقف حصے بھی ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ یہ ذات پات کے نظام اور اچھوت کے خلاف تھا۔
‘ساورکر کی خدمات کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا’
کتاب کا چوتھا باب ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں ونایک دامودر ساورکر کے کردار کے لیے وقف ہے۔ ساورکر ہندوتوا کے سخت حامی تھے اور انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کی بھی سخت مخالفت کی تھی۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی نے 1920 میں ینگ انڈیا میگزین میں ساورکر کی رہائی کی اپیل کی تھی – یہ ایک ایسادعویٰ ہے، جس کو لے کر اپوزیشن جماعت حقائق کو مسخ کرنے کا الزام لگا چکی ہے۔
کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ساورکر کو جیل سے کیسے رہا کیا گیا تھا۔ ساورکر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے جیل سے رہائی کے لیے برطانوی حکمرانوں سے معافی مانگی تھی۔
وادی سندھ کی تہذیب اور سرسوتی–سندھ کی تہذیب
دسویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں ‘وادی سندھ کی تہذیب’ کو ‘سرسوتی-سندھ تہذیب’ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
قدیم ہندوستانی کتابوں میں ایک ندی سرسوتی کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی ندی ہے جس کے چاروں طرف قدیم ہندوستانی تہذیب کا آغاز ہوا تھا۔
کروکشیتر یونیورسٹی میں جغرافیہ پڑھانے والے ایم ایس جگلان نے فیس بک پوسٹ میں اس موضوع پر ایک مضمون شیئر کیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دریائے سرسوتی کے وجود کے بارے میں افسانوی مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے، انڈو-گنگا ڈیوائیڈ (ہمالیہ کے دامن سے لے کر گجرات کے ساحل تک) میں کئی پیلیو چینل (پرانے ندی کے راستےتلچھٹ کے نیچے دبے ہوئے ہیں) ہیں۔ ریموٹ سینسنگ سائنسدانوں نے اس خطے میں مختلف پیلیو چینل کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے جوش و خروش سے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جن چینلوں کی نشاندہی کی تھی ، وہ سرسوتی کے تھے۔
انہوں نے مزید لکھا، یہ نتیجہ تاریخی حقائق پر مبنی ہونے کے بجائے ان کے افسانوی عقائد کے مطابق تھا۔ اگر ہم ان کے نتیجے پر جائیں تو اس پورے خطے میں سرسوتی سے متعلق سینکڑوں چینل موجود ہیں۔ لیکن کوئی بھی مکمل تصویر نہیں دے سکتا کیونکہ اس کی تشکیل ان کے علمی دائرہ کار سے باہر ہے۔
جگلان مزید لکھتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ ماقبل تاریخی زمانے کے دوران ایک دریا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے مغلیہ دور کے زمینی ریکارڈ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘سائنس کا استعمال متھ کو ثابت کرنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا، اس کا استعمال دھند صاف کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)