ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کے ساتھ ہی امتناعی احکامات نافذ کر دیے گئے ہیں۔ سوموار کی شام تک تشدد گڑگاؤں کے قریب سوہنا چوک تک پھیل گیا تھا، جہاں مبینہ طور پربجرنگ دل کے ارکان نے کچھ گاڑیوں میں آگ لگا دی تھی اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
گزشتہ سوموار کو ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ (فوٹو: ویڈیو اسکرین گریب)
نئی دہلی: ہریانہ کے نوح میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی طرف سے نکالے گئے جلوس کے دوران سوموار (31 جولائی) کو ہوئی جھڑپ میں دو ہوم گارڈ سمیت تین لوگوں کی موت ہوگئی اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ضلع میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات کو بند کر دیا گیا اور امتناعی احکامات نافذ کر دیے گئے۔ ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے مرکز سے اضافی فورس کا مطالبہ کیا،یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ‘3000-4000 لوگوں کو ایک مندر میں یرغمال بنایا گیا تھا’، انہیں شام دیر گئے وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گڑگاؤں پولیس نے ہلاک ہونے والے ہوم گارڈ کی شناخت نیرج اور گروسیوک کے طور پر کی ہے۔ دونوں گڑگاؤں کے کھیڑکی دولا پولیس اسٹیشن تعنیات تھے۔ پولیس نے بتایا کہ ایک اور نامعلوم شخص کو ہسپتال میں مردہ قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، شام تک تشدد گڑگاؤں کے قریب سوہنا چوک تک پھیل گیا تھا، جہاں مبینہ طور پر بجرنگ دل کے ارکان نے کچھ گاڑیوں کو آگ لگا دی اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
ضلع انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ، مذہبی جلوس نوح کے نلہر مندر سے نکالا گیا تھا، جس کے لیے اجازت لی گئی تھی۔ اس میں شرکت کرنے والے دوپہر ایک بجے کے قریب بسوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر فیروز پور جھرکا کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں تین مقامات پر ایک ہزار کے قریب پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی
پی ٹی آئی نے پولیس کے حوالے سے بتایا کہ وشو ہندو پریشد کی ‘برج منڈل جلابھشیک یاترا’ کو نوح کے کھیڑلا موڑ کے قریب نوجوانوں کے ایک گروپ نے روکا اور جلوس پر پتھراؤ کیا گیا، جس کی وجہ تشدد شروع ہو ا۔ اس دوران جلوس میں شامل کم از کم چار کاروں کو آگ لگا دی گئی۔
جلوس کو سوموار کی صبح گڑگاؤں کے سول لائنس سے بی جے پی ضلع صدر گارگی ککڑ نے ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا تھا۔ جلوس کو نوح سے ہوتے ہوئے فیروز پور جھڑکا پہنچنا تھا۔ دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب نوح پہنچتے ہی تشدد پھوٹ پڑا۔ حکام کے مطابق جلوس کے لیے اجازت لی گئی تھی اور تقریباً ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
پولیس نے بتایا کہ نوح میں کھیڑلا موڑ کے قریب نوجوانوں کے ایک گروپ نے یاترا کو روکا اور جلوس پر پتھراؤ کیا۔ جلوس میں شامل کم از کم چار کاروں کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس کی کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ پی ٹی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جلوس میں شامل لوگوں نے ان نوجوانوں پر پتھراؤ کیا، جنہوں نے انہیں روکا تھا۔
یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فرقہ وارانہ جھڑپ کی وجہ بلبھ گڑھ میں بجرنگ دل کے ایک کارکن کی طرف سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا ایک قابل اعتراض ویڈیو تھا۔ کچھ میڈیا رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجہ مونو مانیسر (ایک گئو رکشک جوراجستھان میں دو مسلمانوں کے قتل کا ملزم ہے) کاجلوس میں شامل ہونا تھا۔
کانگریس کے نوح ایم ایل اے آفتاب احمد نے دی وائر کو بتایا کہ یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہوئے۔ انہوں نے جھڑپوں کے بھڑکنے کے لیے ضلع انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ،گزشتہ 2-3 دنوں سے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز ویڈیو کے نشر ہونے کے باوجود انتظامیہ ان جھڑپوں کو روکنے کے اپنے فرض میں ناکام رہی ہے۔
دی وائر کو ایسے دو ویڈیودیکھنے کو ملے، جہاں ہندوتوا کارکنوں نے نوح کے لوگوں کو جلوس کے منتظمین کا ‘استقبال’ کرنے کے لیے اکسایا تھا،کیونکہ یہ مسلم اکثریتی نوح سے گزرنے والا تھا۔ اسی ویڈیو میں رہنما نے نوح کے لوگوں کےخلاف کئی تضحیک آمیز حوالوں کا استعمال کیا تھا۔
احمد نے کہا، ‘اس طرح کے سماج دشمن عناصر کو اس حکومت میں طویل عرصے سے تحفظ حاصل ہے۔ ان کوکسی قانون کا خوف نہیں ہے۔
اس سے قبل، ہندوتوا کے کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ریلی میں شرکت کے لیے آئے ‘تقریباً 2500-3000 ہندوؤں ‘کو ایک مقامی مندر میں ‘یرغمال’ بنالیا گیا ہے اور انہیں ‘مرکزی فورسز کے ذریعے نکالنے’ کی ضرورت تھی۔ زیادہ تر بھگوا لیڈروں نے پہلے ہی مرکز سے مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔
تاہم، احمد نے اس طرح کے دعوے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو لوگ کہیں پناہ لیتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جھڑپیں کیسے شروع ہوئیں، انھوں نے کہا کہ انھیں اس واقعے کی اصل وجوہات کا علم نہیں، لیکن انھوں نے مزید کہا، یہ علاقہ تاریخی طور پر اپنے ثقافتی بھائی چارے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کریں اور کسی بھی ایسی افواہ کا حصہ نہ بنیں جو جان بوجھ کر برادریوں کے درمیان مزید تصادم کو ہوا دینے کے لیےپھیلائی جارہی ہے۔’
میوات وکاس سبھا نامی ایک سماجی تنظیم نے پریس کو بتایا کہ اس جلوس سے قبل میوات میں مسلمانوں کے خلاف کئی نفرت انگیز ویڈیونشرکیے گئے تھے۔
اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہندوتوا گروپوں کی طرف سے منعقد کی گئی ‘شوبھا یاترا’ مسلم اکثریتی نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے کی ‘پہلے سے سوچی سمجھی’ کوشش تھی۔
اس میں کہا گیا ہے، ‘گزشتہ دو دنوں میں بہت سے اشتعال انگیز ویڈیونشر کیے گئے۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے جلوس کو میوات میں داخل ہونے کی اجازت دی اور جب تشدد شروع ہوا تو انتظامیہ کچھ نہ کر سکی اور پولیس غائب ہو گئی۔
دریں اثناء ضلع مجسٹریٹ نشانت کمار یادو نے تشدد کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، حکام نے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے منگل کو گڑگاؤں اور پلوال میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے لوگوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ نوح میں جس طرح کی صورتحال سامنے آئی ہے، اس کی وجہ سے ریاست کے تمام لوگوں کے لیے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ زیادہ ذمہ دار بنیں اور بھائی چارے کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا، ‘تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔ کسی کو غلط معلومات/پیغامات بھیجنے / پھیلانے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ہندوستان کے آئین سے اوپر نہیں ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔