سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں ہری دوار اور دہلی میں ہوئے ‘دھرم سنسد’ میں مبینہ طور مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ دینے اور ان کےقتل عام کی اپیل کرنے والوں پر کارروائی کرنے کی ہدایت دینےسےمتعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے۔ عدالت نے عرضی گزاروں کو مستقبل میں اسی طرح کے پروگراموں کے بارے میں اپنے تحفظات سے متعلق عرضی مقامی اتھارٹی کودینے کی بھی اجازت دی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ہری دوار اور قومی راجدھانی دہلی میں حال ہی میں ہوئے’دھرم سنسد’کے پروگراموں میں مبینہ طور پرمسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بیان دینے اور ان کےقتل عام کی اپیل کرنے والوں پر جانچ اور کارروائی کو یقینی بنانے کی ہدایت دینے کی اپیل کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئےبدھ کومرکز اور دیگر سے جواب طلب کیا۔
چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سینئر ایڈوکیٹ انجنا پرکاش کی عرضی پر یہ نوٹس جاری کیے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے اس معاملے کی جلد از جلد سماعت کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور دھرم سنسد 23 جنوری کوہونے والی ہے۔
لیکن بنچ نے کہا کہ کچھ متعلقہ معاملےپہلے سے ہی دوسرے بنچوں کے سامنے زیر التوا ہیں اور اس معاملے کو فہرست میں ڈالنے سے پہلے اسے دیکھنا ہوگا۔بنچ نے کہا کہ یہ صرف نوٹس جاری کرنے تک ہی محدود رہے گا۔
عرضی میں ہیٹ اسپیچ کے واقعات کی ایس آئی ٹی کو ‘آزادانہ، قابل اعتماد اور غیر جانبدارانہ جانچ کرنے’ کی ہدایت دیے جانے کی مانگ کی گئی ہے۔
عدالت نےدرخواست گزاروں کومستقبل میں دیگرمقامات پرہونےوالےاسی طرح کے پروگراموں کے حوالے سے مقامی اتھارٹی کو اپنے تحفظات کی جانکاری (عرضی)دینے کی بھی اجازت دی، جو کہ درخواست گزاروں کے مطابق طے شدہ قانون کے ساتھ ساتھ عدالت کے دیگر فیصلوں کے بھی خلاف ہے۔
عدالت نے معاملے کی آئندہ سماعت 10 دن کے بعد طے کی ہے۔
عرضی میں خاص طور پر 17 اور 19 دسمبر 2021 کو ہری دوار اور دہلی میں مبینہ طور پر مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلانے والے بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے اور عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی ہےکہ وہ ان بیانات سے نمٹنے کے لیےہدایات دیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایک پروگرام یتی نرسنہانند نے ہری دوار میں اور دوسرا ‘ہندو یووا واہنی’نے دہلی میں منعقد کیا تھا اور ان پروگراموں میں مبینہ طور پر ایک خاص کمیونٹی (مسلمانوں)کے قتل عام کی اپیل کی گئی تھی۔
بتادیں کہ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان اتراکھنڈ کے ہری دوار میں ہندوتوا رہنماؤں اور شدت پسندوں کی جانب سے ایک ‘دھرم سنسد’ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے قتل عام کی بھی اپیل کی گئی تھی۔
پروگرام کے منتظمین میں سے ایک یتی نرسمہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ہندو پربھاکرن بننے والے شخص کو ایک کروڑ روپے دیں گے۔
معاملے میں 15 لوگوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس تقریب کاویڈیو وائرل ہونے پر ہوئے تنازعہ کے بعد 23 دسمبر 2021 کو اس سلسلے میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں صرف جتیندر نارائن سنگھ تیاگی کو نامزد کیا گیا تھا۔ اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرنے سے پہلے تیاگی کا نام وسیم رضوی تھا۔
ایف آئی آر میں25 دسمبر 2021 کوسوامی دھرم داس اور سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے کے نام شامل کیے گئے تھے۔ پوجا شکن پانڈے نرنجنی اکھاڑہ کی مہامنڈلیشور اور ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری ہیں۔
اس کے بعد یکم جنوری کو اس ایف آئی آر میں یتی نرسنہانند اور رڑکی کےساگر سندھوراج مہاراج کے نام شامل کیے گئے تھے۔
گزشتہ 2 جنوری کو ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے معاملے کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی بھی بنائی تھی۔ اس کے بعد 3 جنوری کو دھرم سنسدکے سلسلے میں دس افراد کے خلاف دوسری ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
دوسری ایف آئی آر میں تقریب کے منتظمین یتی نرسنہانند گری، جتیندر نارائن تیاگی (جنہیں پہلے وسیم رضوی کے نام سے جانا جاتا تھا)، ساگر سندھوراج مہاراج، دھرم داس، پرمانند، سادھوی اناپورنا، آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چوان اور پربودھانند گری کو نامزد کیا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)