ابوالفضل ایودھیا کو رام چندرجی کا رہائشی شہر تو قرار دیتا ہے لیکن ان کی جائے ولادت کا تعین نہیں کرتا نہ ہی کسی ایسے مندر کا ذکر کرتا ہے جو اس جگہ بنایا گیا ہو۔ وہ بابری مسجد کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتا۔
یہ مقالہ اپنی خصوصی توجہ اس سوال پر مرکوز کرتا ہے کہ کیا اس عمارت کے نیچے جسے آج بابری مسجد کہتے ہیں رام چندر جی سے منسوب کوئی مندر تھا؟ اس بحث میں ہندوستان کے عہد وسطیٰ کے ماخذ سے شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔
حالیہ متنازعہ عمارت کی تعمیر کی ابتدائی شہادت وہ تین تین اشعار پر مشتمل دو فارسی قطعے ہیں جو اس عمارت میں نماز پڑھنے والے ہال کی بیرونی دیوار پر اور محراب کے قریب اندرونی دیوار پر کندہ ہیں۔ سب سے پہلے نظر آنے والے اشعار داخلی دروازے کی محراب پر لکھے ہوئے ہیں اور آسانی سے پڑھے نہیں جاسکتے۔ تاہم مسز اے۔ ایچ۔ بیوریج نے توزک بابری کے انگریزی ترجمے بعنوان بابر نامہ کے کئی ضمیموں میں سے ایک میں انہیں شامل کر دیا ہے۔ انھوں نے اشعار کا مطلب بھی بیان کیا ہے اور ان کی ادبی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن جیسا کہ وہ دوسرے اشعار کے قطعے میں کرتی ہیں وہ ان کے مکمل تراجم سے احتراز کر گئی ہیں۔ اشعار یہ ہیں:
بنام آنکہ دانا ست اکبر
کہ خالق جملہ عالم لا مکانی
درود مصطفے بعد از ستائش
کہ سرور انبیاء دو جہانی
فسانہ در جہان بابر قلندر
کہ شد دور گیتی کامرانی
اردو ترجمہ:
- (اس) کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو دانا، عظیم اور خالق کون و مکان ہے (مگر) خود لامکان ہے۔
- پیغمبر پر درود سلام جو تمام تعریفوں سے بالا ہے اور جو دونوں جہانوں اور انبیاء کے سردار ہیں۔
- بابر قلندر کا افسانہ (جہاں سے) مشہور ہے جو کامیابی کی اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا۔
جیسا کہ مسز بیوریج نے مشاہدہ کیا یہ اشعار مکمل نہیں ہیں۔ تاہم انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ان میں مزید معنی تلاش کرنا غلط ہوگا کیونکہ زبان اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔
دوسرے تین اشعار جو عمارت کی پچھلی دیوار پر ہیں، رام سیتا اور لکشمن کے مجسموں کی تنصیب کی بنا پر اب پڑھے نہیں جاسکتے۔ لیکن ایک دفعہ پھر مسز بیوریج ہماری مدد کرتی ہیں۔ انھوں نے فارسی اشعار کا متن اور انگریزی کا ترجمہ اپنی کتاب کے اسی ضمیمہ میں درج کر دیا ہے۔ فارسی اشعار اور ان کا (اردو) ترجمہ درج ذیل ہے۔
بفر مود شاہ بابر کہ عدلش
بنایست تا کاخ گردون ملاقی
بنا کرد این مہبط قدسیان
امیر سعادت نشان میر باقی
بود خیر باقی چو سالش بنائش
عیان شد کہ گفتم بود خیر باقی
اردو ترجمہ:
- شاہ بابر کے حکم سے جس کے عدل کی بنا آسمانوں کو چھو رہی ہے۔
- نیک بخت میر باقی نے فرشتوں کے اترنے کی یہ جگہ تعمیر کی۔
- یہ کار خیر ہمیشہ سلامت رہے۔
“یہ کار خیر ہمیشہ سلامت رہے” سے اس کی بنیاد رکھنے کا سال برآمد ہوتا ہے۔
میر باقی خاص طور پر اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ عمارت وہ بابر کے حکم سےتعمیر کر رہا ہے جس کے لیے مسجد کی بجائے وہ زیادہ دل خوش کن “مہبط قدسیان” یعنی “فرشتوں کے اترنے کا مقام” کی ترکیب استعمال کرتا ہے۔ مسجد میں تو کوئی جمالیاتی خوبی نظر نہیں آتی مگر یہ ترکیب جس سے مراد خانہ خدا ہے گو خدا خود لا مکان ہے، میر کی شاعرانہ حس کی پوری عکاسی کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ماہر عمارات کی نسبت وہ شاعر بہتر تھا۔ تاہم عمارت کی ساخت میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ مسجد ہی ہے جس کے تین گنبد ہیں اور محراب کا رخ مغرب کی طرف ہے۔ اور نمازیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ مصلے ہیں۔ مسجد کے مندرجہ بالا کتبوں سے یہ ہرگز ظاہر نہیں ہوتا کہ مسجد کی تعمیر ایسی جگہ پر ہوئی ہے جہاں پہلے ہی سے کوئی عمارت یا کوئی مندر موجود تھا۔ نہ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی مسلک سے وابستہ لوگوں کی نظر میں یہ جگہ مقدس تھی۔
بابر خود بھی اپنی توزک کے ایک ہی صفحے پر دو جگہ اپنے ایودھیا کے 1535ء میں دورے کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے ایودھیا میں چند دن قیام کیا…تاکہ وہ اودھ (زمانہ وسطی میں ایودھیا کا فارسی مترادف) کے معاملات کو نپٹا سکے۔ وہ انتہائی معمولی معمولی واقعات کو بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسے کہ شکار جس کے لیے اس کے کارندے پہلے ہی قراولی کر چکے تھے لیکن وہ اس جگہ پر کسی رام مندر کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ حیرانی کا باعث نہیں کہ اس نے مندر کے گرانے اور اس کی جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کسی چیز کا ذکر کیا ہے جس کا تعلق اس معاملے سے ہو۔
ہماری اگلی شہادت ابوالفضل کی آئین اکبری سے ہے جس کی تکمیل سولہویں صدی کے اواخر کے قریب ہوئی۔ ابوالفضل ایودھیا کو رام چندرجی کا رہائشی شہر تو قرار دیتا ہے لیکن ان کی جائے ولادت کا تعین نہیں کرتا نہ ہی کسی ایسے مندر کا ذکر کرتا ہے جو اس جگہ بنایا گیا ہو۔ وہ بابری مسجد کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے “ایودھیا ہندوستان کے بڑے شہروں میں سے ہے۔ پرانے زمانے میں یہ قدیم شہر طول میں 148 اور عرض میں 36 کوس تھا۔ اس زمانے میں یہ مقدس ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ شہر کے مضافات میں ریت کو چھان کر سونا اکٹھا کیا جاتا تھا۔ یہ رام چندر کا رہائشی شہر تھا جن کی شخصیت میں روحانی عظمت اور شاہی منصب مجتمع تھے۔”
اگر بابر جو شہنشاہ تھا اور ابوالفضل جو مورخ تھا، مندر کی جگہ مسجد کی تعمیر کے بارے میں خاموش ہیں تو اس خاموشی میں وہ اکیلے ہی نہیں تھے۔ نہ ہی بابر کے کسی جانشین بشمول متعصب اورنگ زیب کے اس جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر کا ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ خود اورنگ زیب نے کئی مندر جن میں کاشی اور متھرا کے مندر بھی شامل تھے، گروا کر ان کی جگہ مسجدیں بنوائی تھیں۔ ہندوؤں کے لیے یہ مقام بہت مقدس ہو گا اور کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف اسی بنا پر اس مقام پر مسجد کی تعمیر کاشی اور متھرا کے مندروں کے گرانے کے جواز کے علاوہ ارنگ زیب کے لیے بڑے اطمینان قلب کا باعث ہوتی۔ لیکن وہ بھی اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہتا۔ نہ ہی مورخوں کی ایک لمبی قطار جو سب کے سب درباروں سے وابستہ تھے، مندر کو گرا کر مسجد کے لیے جگہ فراہم کرنے کا ذکر تو کجا مسجد کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد میں ایسی کوئی اہمیت نہیں تھی جو کٹر مسلمانوں کی نظر میں ہوتی اگر یہ ایک انتہائی قدیم اور مقدس مندر کی جگہ پر تعمیر کی جاتی۔ دربار سے وابستہ ہر قسم کے مورخ موجود تھے جن میں اکبر کے دربار سے وابستہ چہار شنبے کی نمازوں کے پیش امام ملا عبدالقادر بدایونی جیسے متعصب مسلمان بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملا نے تین جلدوں پر مشتمل اپنی منتخب التواریخ اس بڑے دکھ سے لکھی جو اکبر اور ابوالفضل کے ہاتھوں اسلام کو نقصان پہنچانے پر وہ محسوس کر رہا تھا اور وہ پہلی بادشاہیوں کی طرف بڑی ماضی پرستی سے دیکھتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں اسلام کی شان و شوکت بڑی نمایاں تھی۔ کافروں کی مقدس جگہ پر مسجد کی تعمیر اسے باغ باغ کردیتی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ بھی ایسے کسی واقعہ کا ذکر نہیں کرتا۔
اگر یہ حیران کن ہے تو اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ معاملہ ہے کہ ہندی شاعروں کے کلام میں بھی اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ان میں اکثریت ہندو شاعروں کی تھی۔ ان شعرا میں ایودھیا کے باشندے گوسوامی تلسی داس بھی تھے جنہوں نے اپنی رزمیہ “رام چرتامناس” اور دوسرا باقی کلام ایودھیا میں ہی مرتب کیا۔ رزمیہ کی تاریخ 1570ء ہے یعنی مسجد کی تعمیر کے صرف پچاس برسوں کے اندر اندر جو شاعر اور اس زمانے کے زندہ لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہونی چاہئے۔ رام چندر کے لیے عقیدت کے پیش نظر یہ واقعہ تلسی داس جی کو بالکل پاگل کر دیتا۔ لیکن وہ بھی س معاملے میں بالکل خاموش ہیں۔ حقیقت یہ کہ شاہی کتبے، درباری تواریخ اور دوسری دستاویزات ہر قسم کی ادبی کتابیں اور یورپی سیاحوں کی تحریریں بھی سب اس معاملے میں بالکل خاموش ہیں…
پہلی ناقابل تردید شہادت جو رام چندر جی کی جنم استھان پر مسجد کی تعمیر کا ذکر کرتی ہے وہ دستاویز ہےجو 1238ھ/1822ء میں داروغہ عدالت حفیظ اللہ نے فیض آباد کی عدالت میں پیش کی۔ مکمل قانونی زبان میں اس دستاویز کا مثنیٰ کمال الدین حیدر اپنی کتاب قیصر التواریخ میں پیش کر چکے ہیں۔ ہم یہاں اس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ “شہنشاہ بابر کی تعمیر کردہ جامع مسجد رام کے جنم استھان پر تعمیر کی گئی ہے یعنی وہ جگہ جہاں راجہ دسرتھ کا بیٹا رام پیدا ہوا تھا (اور جو) مذکورہ بالا رام کی بیوی سیتا کی رسوئی کی عمارت سے متصل ہے… اس دستاویز سے مسجد اور رام جنم بھومی کے درمیان ربط شک و شبہ سے بالا تر ہوجاتا ہے۔ تاہم اس مقام پر کسی ایسے مندر کی موجودگی کا جسے گرا کر مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ خالی کی گئی ہو، یہ دستاویز کوئی ذکر نہیں کرتی۔”
انیسویں صدی کے باقی ماندہ حصے میں اس معاملے میں بڑی تیزی آئی اور اس تنازعے کی کچھ روایتوں میں مندر کو ایک مقام مل گیا۔ ایسے بہت سے تنازعے تھے لیکن تنازعہ کرنے والے سارے عدم تشدد کے پرستار نہیں تھے۔ تاہم 1860ء کی دہائی تک یہ روات کمزور ہی رہی جس کی بنا پر پی۔ کارنیگی کو رام جنم بھومی پر مندر کی موجودگی کے متعلق قیاس آرائی کرنی پڑی۔ ان کے قیاس کی بنیاد وہ سیاہ ستون تھے جو مسجد میں نصب تھے لیکن انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ یہ ستون رام سے یا بدھ سے منسوب کس مندر کے ہیں اگرچہ دوسری جگہ وہ قطعی طور پر کہتے ہیں کہ مسجد نے پہلے سے موجود مندر کی جگہ لے لی اور تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا بیان “مقامی طور پر مصدقہ” اطلاع یعنی عوام میں مقبول روایت پر مبنی ہے۔ بیسویں صدی کی آمد پر یعنی 1905ء میں اس قصے نے فیض آباد کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر میں جگہ پا لی اگرچہ ابھی بھی “ایک قدیم مندر” کے انہدام کا ذکر بڑا مبہم ہے۔ وہاں سے یہ قصہ مسز بیوریج نے اٹھا کر رام مندر کے گرائے جانے اور اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کو ایک حتمی واقعہ بنا دیا۔ اسے ایک فیصلہ کن موڑ دینے کے لیے انہیں کسی شہادت کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ صرف ایک مفروضہ درکار تھا یعنی مسلمان ہونے کی بنا پر بابر میں دوسرے مذاہب کے لیے کوئی برداشت نہیں ہوگی اور ایک ہندو عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل کرنا وہ اپنا مقدس فریضہ سمجھتا ہوگا۔ اپنے اس ضمیمے کے حاشے میں وہ اس خیال کا اظہار کرتی ہیں کہ “یہ اغلب ہے کہ ایودھیا میں اپنے قیام کے وقت مسجد کی تعمیر کا حکم بابر نے 934 ہجری میں دیا ہوگا جس کے دوران وہ قدیم عبادت گاہ کے وقار اور تقدس سے مرعوب ہوا ہوگا جس کی جگہ (یا اس کے کچھ حصے)پر مسجد کی تعمیر کی گئی ہوگی۔ محمد کے فرماں بردار پیروکاروں کی طرح اس کے لیے کوئی اور مذہب ناقابل برداشت ہوگا اور مندر کی جگہ مسجد کی تعمیر کو وہ فرض شناسی اور قابل تعریف کام سمجھتا ہوگا۔”
چنانچہ مندر کا گرانا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنا محض ایک قیاس ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس قیاس کی بنیاد بابر کا مسلمان ہونا ہے۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ تمام مورخوں میں سے صرف مسز بیوریج ہی ہیں جو توزک کا اتنا عمدہ ترجمہ کرنے اور بابر کی زندگی اور مشاغل کی باریک ترین تفصیلات بیان کرنے کے بعد بھی وہ ایسا قیاس کرتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ قرون وسطیٰ کے مسلمان حکمرانوں کی افتاد طبع اور مزاحوں میں بڑا تنوع تھا۔ مثالیں مخترع اور مہم جو اکبر اور سرد مہر اور متعصب اورنگ زیب ہیں۔ مگر ان میں سے فقط بابر ہی ہے جس کی شہرت مذہبی جوش و جذبے اور بت شکنی کی بنیاد پر مبنی نہیں تھی۔ وہ ایک خوش باش شخص تھا اور زندگی کی خوبصورت چیزوں کا بڑا شوقین تھا جیسے موسیقی، پھول، خواتین اور مزید برآں جام شراب۔ مندر گرانے اور مسجدیں بنانے کا اسے کوئی زاہدانہ شوق نہیں تھا۔ حقیقت میں ستمبر 1529ء میں گوالیار کے اپنے دورے کے دوران اس نے کچھ شہوانی مجسموں کو گرانے کا حکم دیا تھا کیونکہ انہیں دیکھ کر اسے بڑی وحشت ہوئی تھی۔ مگر اس نے شہر کے کئی “بت کدوں” کا دورہ بھی کیا تھا اور ان عمارات کو دیکھ کر اسے بہت مسرت ہوئی تھی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ بابر جہاں کہیں بھی گیا اس نے باغات تعمیر کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور ان کا تذکرہ کرنے میں بھی اس نے کبھی غفلت نہیں کی مگر ایودھیا کی مسجد تو ایک طرف اس نے کسی مذہبی عمارت کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔
تاہم اگر ہم مسز بیوریج کی منطق پر چلیں کہ مسلمان ہونے سے اس کی مراد دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا تھا تو اسے صورت میں یہ توقع رکھنی چاہئے کہ بابر رام مندر کے گرانے کا جس کی قدامت اور تقدس کا وہ اعتراف کرتی ہیں، اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کا اعلان وہ بڑے فخر سے کرتا۔ اورنگ زیب واقعی اس مزاج کا آدمی تھا جس سے وہ دوسرے مسلم حکمرانوں کو متصف کرتی ہیں۔ اورنگ زیب نے مندر گرائے، ان کی جگہ مسجدیں بنوائیں اور کسی کے لیے وہ شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ وہ انہیں اپنے کارہائے نمایاں نمایاں شمار کرتا تھا۔
یہ استدلال معقول ہے کہ 1922ء کی دستاویز میں رام مندر کے ذکر کا بھی ایک پس منظر ہوگا یعنی اس روایت کے بننے اور اس کے مقبول ہونے میں بھی وقت لگا ہوگا۔ اس علاقے میں واقعی یہ بڑی مضبوط روایت ہے کہ بابری مسجد رام کی جائے پیدائش پر واقع ہے اور اس نے رام سے منسوب مندر کی جگہ لے لی اور دوسری دستاویز سے مختلف نوعیت کی شہادت کے طور پر مورخوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ لیکن اول تو کوئی مقبول روایت جو عوام کی ذہنیتوں کی عکاس ہوتی ہے اور کلچرل مظہر جس نے ایک لمبے عرصے میں ارتقا کی منزلیں طے کی ہوں گو مورخوں کی توجہ کا مستحق ہوسکتے ہیں مگر کسی واقعہ کی شہادت بننے کے لیے یہ لازمی ہے کہ انہیں تاریخ کے کڑے معیاروں پر بڑی شدت سے پرکھا جائے رام مندر کے انہدام اور اس کی جگہ پر 1528ء میں مسجد کی تعمیر کرنے کی شہادت کے طور پر عوام میں مقبول روایت پر اصرار کرنا تاریخ میں روایت کی نوعیت کی غلط تعبیر ہے کیونکہ ان دونوں (یعنی مسجد کی تعمیر اور روایت کے ابھرنے) کے درمیان وقت کا بڑا فرق ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے بڑے حصے میں ایسے کسی عقیدے کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ہے۔ 1822ء کی دستاویز صرف یہ ظاہر کرتی ہے رام جنم بھومی پر مسجد تعمیر کرنے کی روایت کا آغاز شاید اٹھارویں صدی میں ہوا اور انیسویں صدی کے دوران اس مقام کو مندر سے منسوب کردیا گیا۔ مذہبی عقائد کے علاوہ سماجی، سیاسی اور نفسیاتی ماحول میں اس روایت کا ارتقا بڑا دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے لیکن دو یا تین صدیاں پیشتر پیش آنے والے کسی مخصوص واقعہ کے لیے یہ روایت کسی صورت میں بھی ایک ناقابل اعتراض شہادت نہیں بن سکتی۔
مسجد میں نصب کالے پتھر کے ستونوں پر بحث ابھی باقی ہے۔ پی کارنیگی نے یہ ستون 1870ء میں دیکھے اور جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں انھوں نے ان ستونوں کی بنا پر قیاس دوڑایا۔ اگر کارنیگی کو یہ یقین نہیں تھا کہ یہ بدھوں کا مندر یا رام مندر ہے تو ڈاکٹر ایس پی گپتا کے دل میں ایسا کوئی شبہ نہیں تھا۔ انھیں پورا یقین تھا کہ یہ ستون مندر کے ہی ہیں جو اپنی اصلی حالت میں وہاں موجود ہیں لیکن یہ نتیجہ قدرے مشکوک ہے کیونکہ عمارت کے جو صحن کے اطراف ہے، داخلی دروازے پر جو دو ستون نصب ہیں ان پر کندہ کاری میں اختلاف ہے۔ حقیقت میں اس دیوار میں چودہ ستون موجود ہیں۔ ان میں سے دس ستونوں پر کندہ کاریاں ایک دوسرےسے مختلف ہیں اور ان کے نصب کرنے میں بھی کوئی ترتیب نہیں۔ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں۔ یہ ستون خواہ وہ کسی مندر ہی کی کیوں نہ ہوں، کسی دوسری قریبی جگہ سے لائے گئے ہیں گو اس امر کے لیے بھی کوئی فیصلہ کن شہادت موجود نہیں۔ کسی نہ کسی طرح گپتا کے تیقن میں کچھ اعتماد آجاتا اگر وہ پتھر کے ستونوں کے مواد کے بارے میں کوئی فیصلہ کر لیتے۔ 2/ دسمبر 1990ء کو انھوں نے بڑے وثوق سے اعلان کیا کہ “یہ پتھر کالی سلیٹ کے پتھروں کی ایک قسم ہے اور جہاں تک یوپی کا تعلق ہے یہ صرف گھڑوال اور کماؤں کے اضلاع میں ملتا ہے۔” لیکن پندرہ دن کے اندر ہی یعنی 13 دسمبر کو اپنے تیقن میں کسی کمی کے بغیر انھوں نے پھر اعلان کیا کہ “بسالٹ ایک آتشیں چٹان ہے جو آتش فشاں پہاڑوں کے لاوے سے بنتی ہے لیکن ورقی چٹانیں جن سے یہ ستون بنائے گئے ہیں رسوبی چٹانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو سمندروں کی تہہ میں ملتی ہے۔”
(مضمون نگار معروف مؤرخ ہیں۔بشکریہ : عہد وسطیٰ کا ہندوستان ،ہربنس مکھیا،فکشن ہاؤس لاہور،2003)
یہ مضمون پہلی بار19 نومبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔