سی بی آئی کی پوچھ گچھ کے بعد ستیہ پال ملک نے کہا — پلوامہ پر جو  کچھ کہا، اسی کے لیے انہیں ہراساں کیا گیا ہے

سی بی آئی نے جموں و کشمیر میں مبینہ انشورنس گھوٹالہ کیس کے سلسلے میں سابق گورنر ستیہ پال ملک سے نئی دہلی میں ان کی رہائش گاہ پرپوچھ گچھ کی۔ ملک نے کہا کہ وہ اس معاملے میں شکایت گزار ہیں ۔ سی بی آئی کو شکایت کرنے والے سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سی بی آئی نے جموں و کشمیر میں مبینہ انشورنس گھوٹالہ کیس کے سلسلے میں سابق گورنر ستیہ پال ملک سے نئی دہلی میں ان کی رہائش گاہ پرپوچھ گچھ کی۔ ملک نے کہا کہ وہ اس معاملے میں شکایت گزار ہیں ۔ سی بی آئی کو شکایت کرنے والے سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ستیہ پال ملک۔ (تصویر: دی وائر)

ستیہ پال ملک۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے جمعہ (28 اپریل) کو جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک سے نئی دہلی واقع ان  کی رہائش گاہ پر پوچھ گچھ کی۔

ملک نے کہا کہ 2019 کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے دوران نریندر مودی حکومت کے رول پر دی وائر کو دیے انٹرویو کے دوران انہوں نے جو  کچھ کہا،اسی کے لیے ان کو  ہراساں کیا گیا۔

پتہ چلا ہے کہ جمعہ کو سی بی آئی نے ملک سے ریلائنس جنرل انشورنس اسکیم اور رام مادھو کو لے کر چار گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔

ملک نے کہا، ‘میں اس معاملے میں شکایت گزار ہوں۔ سی بی آئی کو شکایت کرنے والے سے ایسے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے پلوامہ پر جو کچھ  کہا ہے،یہ ہراسانی صرف اس  کی وجہ سے ہے ۔

فروری 2019 میں جموں و کشمیر کے پلوامہ میں سیکورٹی کی گاڑیوں کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے 40 اہلکار  شہید ہوگئے تھے۔

ملک نے کہا کہ وہ ان انکشافات کو دہرانے سے نہیں ہچکچائیں گے۔

انہوں نے کہا، ‘میں یہ کہتا رہوں گا۔ میں پورے شمالی ہند اور جنوبی ہند کا دورہ کروں گا۔ میں اسے انتخابات تک جاری رکھوں گا، میں اس ایشو کو بوفورس کی طرح زندہ رکھوں گا۔ پلوامہ اور اس سب نے واقعی لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کر لیا ہے۔ آئندہ الیکشن میں انہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا۔

ملک نے کہا کہ سی بی آئی نے انہیں مستقبل میں پوچھ گچھ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔

واضح ہوکہ ستیہ پال ملک نے دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ فروری 2019 میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے کو روکا جا سکتا تھا، اگر مرکز نے سی آر پی ایف اہلکاروں کو منتقل کرنے کے لیے ہوائی جہاز کی ان کی درخواست کو ٹھکرا نہ دیا ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر حکومت کی غفلت اور نااہلی نہ ہوتی تو اس واقعہ کو روکا جا سکتا تھا۔

ملک نے کہا تھا کہ جب انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تووزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے انہیں ‘چپ رہنے’ کو کہا تھا۔

اس کےتقریباً ایک ہفتہ بعد 21 اپریل کو سی بی آئی نے جموں و کشمیر میں ایک انشورنس اسکیم سے متعلق مبینہ بدعنوانی کے معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے ستیہ پال ملک کو بلایا تھا۔

بدعنوانی کا یہ معاملہ جموں و کشمیر میں انل امبانی کی سربراہی  والی ریلائنس جنرل انشورنس سے منسلک انشورنس اسکیم میں بے ضابطگیوں کے الزامات سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں اس وقت مقدمہ درج کیا گیا تھا جب ملک نے الزام لگایا کہ انہیں اس معاملے میں رشوت دینے کی کوشش کی گئی تھی۔

معلوم ہوکہ اکتوبر 2021 میں پہلی بار ملک نے الزام لگایا تھا کہ جموں و کشمیر کے گورنر کی حیثیت سے ان کے دور میں انہیں کہا گیا تھا کہ اگر وہ امبانی اور آر ایس ایس سے وابستہ ایک شخص کی دو فائلیں کلیئر کریں گے تو انہیں 300 کروڑ روپے ملیں گے، لیکن انہوں  نے سودوں کورد کر دیا تھا۔

ملک نے دی وائر کے انٹرویو سے پہلے صحافی پرشانت ٹنڈن کو دیے گئے انٹرویو میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا تھا۔ انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ سودے میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے ‘آر ایس ایس کے عہدیدار’ رام مادھو  تھے۔ اس انٹرویوکے نشر ہونے کے بعد مادھو نے ملک کو ہتک عزت کا نوٹس بھیجا تھا۔

مارچ 2022 میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے کہا تھا کہ ملک کی طرف سے لگائے گئے الزامات سنگین ہیں اور انتظامیہ نے اس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سی بی آئی نے اس سلسلے میں دو کیس درج کیے تھے۔

ستیہ پال ملک بی جے پی کے رہنما ہیں اور نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ چار دیگر ریاستوں کے گورنر رہ چکے ہیں۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔

Next Article
Next Article

ماؤنواز تحریک آخری مرحلے میں: کیا بسواراجو کے انکاؤنٹر کے بعد بستر میں امن لوٹ آئے گا؟

نارائن پور کے جنگلات میں حال ہی میں ہوئے انکاؤنٹر میں سی پی آئی (ماؤسٹ) کے جنرل سکریٹری نمبلا کیشوا راؤ عرف بسواراجو  مارے گئے۔ بستر رینج کے آئی جی نے کہا ہے کہ بسواراجو پچھلے 40-45 سالوں سے ماؤنواز تحریک کا حصہ تھے اور 200 سے زیادہ نکسلی حملوں میں شامل تھے۔ اس کارروائی کو حکومت اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایک بڑی کامیابی ماناجا رہا ہے، لیکن کیا اسے نکسل ازم کا خاتمہ سمجھا جا سکتا ہے؟ دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج سے ذیشان کاسکر کی بات چیت۔

Next Article

بی جے پی کی کرناٹک اکائی کے ایکس پوسٹ میں ’گوبھی‘ کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

کرناٹک بی جے پی کی ایک ایکس پوسٹ میں نکسلائٹ کی قبر کے پاس مرکزی وزیر داخلہ کے کیریکیچرکوایک گوبھی کے ساتھ دکھایا گیاہے۔ گوبھی کو علامتی طور پر 1989 کے بھاگلپور کے مسلم مخالف فسادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتاہے۔ حالیہ برسوں میں اس علامتی تناظر کو شدت پسند دائیں بازو کے گروہوں کی جانب  سے بڑے جوش و خروش سےپیش کیا گیا ہے۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی کی کرناٹک یونٹ کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے 23 مئی (جمعہ) کو ایک تصویر پوسٹ کی گئی ،جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک قبر کے پاس گوبھی اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے،اس قبر پر لکھا ہے – ‘آر آئی پی  نکسل واد’۔

اس پوسٹ کے ساتھ کیپشن تھا، ‘لول(ایل او ایل) سلام، کامریڈ۔’ اس کو  بائیں بازو کے نعرے ‘لال سلام’ کے خلاف طنز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پوسٹ سی پی آئی (ایم ایل) کی جانب سے ‘آپریشن کگار’کے تحت ابوجھاماڑکے جنگلات میں حالیہ ‘انکاؤنٹر’ کی مذمت کرتے ہوئے جاری کیے گئےبیان جواب میں کی گئی ہے۔

معلوم ہو کہ اس آپریشن کونیم فوجی دستوں، ریاستی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کے گھنے اور پہاڑی جنگلات میں انجام دیا تھا، جس میں حکام کے مطابق، 27 مبینہ ماؤنواز کو مار گرایا گیا۔

سی پی آئی (ایم ایل) نے نارائن پور-بیجاپورمیں ماؤنوازوں اور قبائلیوں کے ‘وحشیانہ ماورائے عدالت قتل’ کی مذمت کی ہے ۔

پارٹی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امت شاہ کی جشن مناتی پوسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ‘ریاست آپریشن کگار کو ایک ماورائے عدالت نسل کشی مہم کے طور پر چلا رہی ہے اور شہریوں کے قتل اور کارپوریٹ لوٹ مار اور عسکریت پسندی کے خلاف آدیواسیوں کے احتجاج کو کچلنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔’

گوبھی کا علامتی مفہوم

اس پوسٹ میں گوبھی کے استعمال نے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو حیران کردیا۔

گوبھی کا استعمال اب مسلمانوں کی  نسل کشی کے علامتی اظہار کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔

آن لائن ہیٹ اسپیچ سےمتعلق قوانین سے بچنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ علامت  (گوبھی)حال ہی میں ناگپور میں ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد بی جے پی کے حامی سیاسی مبصرین نے بڑے پیمانے پر شیئر کی تھی۔

اس علامت کوبہار میں 1989 کے بھاگلپور فسادات سے جوڑکر دیکھا جاتا ہے، جس میں 900 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ بھاگلپور کے لوگائن گاؤں میں 110 مسلمانوں کو قتل کر کے کھیتوں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی لاشوں پر بھی گوبھی کے پودے لگائے گئے تھے۔

حالیہ برسوں میں اس علامتی  تناظر کو الٹرا رائٹ  اور ہندوتوا گروپوں، خاص طور پر ٹریڈز نے دوبارہ اٹھایا ہے۔ ان گروہوں کی طرف سے بنائے گئے کچھ گرافکس میں برقع پوش مسلم خواتین کو بھی گوبھی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

بہت سی ہندوتوا ٹریڈز اپنے سوشل میڈیا بایو میں خود کو ‘گوبھی کا کسان’ بتاتے ہیں۔

ہندوتوا ٹریڈز کون ہیں؟

‘ٹریڈز’ کو ہندوتوا کا انتہائی بنیاد پرست طبقہ سمجھا جاتا ہے – وہ نوجوان جو خود کو تہذیب کا جنگجوتصور کرتے ہیں اور آن لائن ‘جنگ’ لڑتے ہیں۔ وہ دائیں بازو کے دوسرے لوگوں کو’انتہائی لبرل’ مانتے ہیں اور انہیں ‘ریتا’ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہی نہیں، وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی کمزور سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق مودی دلتوں کے حوالے سے ‘اپیزمنٹ’ کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ‘سخت’ موقف اختیار نہیں کرتے۔

مین اسٹریم کی جانب گامزن ٹریڈکی علامتیں

اب تک، بی جے پی اس طرح کے انتہا پسندانہ ڈسکورس اور ٹریڈکی پرتشدد علامتوں سے دوری بناکر  رکھتی  تھی ، لیکن حالیہ پوسٹ بتاتی ہے کہ پارٹی اب اسے اپنا رہی ہے۔

پچھلے ایک سال میں ٹریڈ کی  علامتوں کو مرکزی دھارے کے ہندوتوا کی زبان میں، خاص طور پر مسلمانوں کے تناظر میں زیادہ آسانی سے شامل کیا گیا ہے۔ جنوری2024 سے اب تک بی جے پی کی طرف سے پوسٹ کیے گئے بہت سے کارٹون میں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مثلاً پی ایم مودی کو بھگوا لباس میں مسلمانوں کے ساتھ متصادم دکھانا، یا مسلمانوں کو دلتوں کی جائیداد چھینتے ہوئے دکھانا۔

سال 2022 میں، گجرات بی جے پی کے آفیشیل ایکس ہینڈل سے ایک پوسٹ شیئر کی گئی تھی، جس میں’ستیہ میو جیتے’ کیپشن کے ساتھ درجن  بھرداڑھی ٹوپی والے لوگوں  کو پھانسی پر لٹکتا دکھایا گیاتھا۔ سوشل میڈیا پر اس کا موازنہ نازی کارٹون سے کیا گیا اور بعد میں اس ٹوئٹ کو ہٹا لیا گیا۔

تاہم، بی جے پی کا کہنا تھا کہ وہ کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنا رہی تھی اور یہ پوسٹ 2006 کے احمد آباد دھماکوں میں قصوروار قرار دیے گئے  دہشت گردوں کے حوالے سے تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بانو مشتاق سے پہلے بھی پی ایم مودی نے دونامور شخصیات کو انٹرنیشنل ایوارڈ پر نہیں دی تھی مبارکباد

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی’ہارٹ لیمپ’ کو انٹرنیشنل بکرپرائز ملنے پرپی ایم مودی نےانہیں مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس سے پہلے انہوں نے رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ اور گیتانجلی شری کو انٹرنیشنل بکر ایوارڈ ملنے پر بھی مبارکباد نہیں دی تھی۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر بین الاقوامی فورمز پر مختلف شعبوں میں ہندوستانیوں کی حصولیابیوں کو عوامی طور پر تسلیم کرنے اور ان کاجشن منانے کے لیےمعروف ہیں۔ تاہم، اس میں کچھ قابل ذکر مستثنیات ہیں، جہاں ان کی خاموشی کوواضح طور پرمحسوس کیا گیاہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی ہی ایک مثال بانو مشتاق کی ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، اور پی ایم مودی کی جانب سے انہیں مبارکبادنہیں دی گئی۔

معلوم ہو کہ بانو نے اپنےافسانوں کے مجموعہ’ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔

بانو کے علاوہ، کم از کم دو ایسی مثالیں اورہیں جب پی ایم مودی نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایوارڈ کے ہندوستانی فاتحین کی عوامی طور پر ستائش نہیں کی ۔

ان تینوں معاملوں میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کھیل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی حصولیابیوں کا عوامی طور پر جشن منانے کے ان کے معمول کے بالکل برعکس ہے۔

یہ خاموشی ممکنہ طور پرترجیحی ہے، اورممکنہ طور پر ان ایوارڈ یافتگان کے سیاسی نظریات ، آئیڈیالوجی یا ان کے کام کے موضوعات کی وجہ سے بھی ہے، جن میں اکثر مذہبی اکثریت پسندی اورتفرقہ انگیز سیاست کی تنقید اور ہندوستان میں تکثیریت کی وکالت شامل ہوتی ہے۔

رویش کمار – ریمن میگسیسے ایوارڈ (2019)

ہندی کے سینئر صحافی رویش کمار کو 2019 میں باوقار ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسے ایشیا کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاسی اسپیکٹرم سے وسیع پیمانے پر مبارکباد کے باوجود وزیر اعظم مودی کی طرف سے  اس کامیابی پررویش کمار کو عوامی طور پر کوئی مبارکبانہیں دی گئی تھی۔

گیتانجلی شری – بین الاقوامی بکر پرائز (2022)

سال 2022 میں گیتانجلی شری کے ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی شری بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی پہلی ہندوستانی ادیبہ ہیں۔ اس حصولیابی پر وزیر اعظم مودی سمیت مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت  قابل ذکر  طور پر خاموش رہی، حالانکہ یہ کتاب جنوب ایشیائی زبان میں ایوارڈ جیتنے والی  پہلی تخلیق تھی۔

مودی حکومت کی جانب سےہندی کو فروغ دینے اور ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز کا جشن منانے کے بر عکس اس معاملے پر قابل ذکر طو رپر توجہ نہیں دی گئی۔ گیتانجلی کی یہ کتاب ہندوستانی تکثیریت، سرحدوں کی بے معنویت کی ایک جرٲت مندانہ جستجو ہے اور اس میں ایک مسلمان پاکستانی مرد اور ایک ہندو ہندوستانی عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی کی گئی ہے۔

بانو مشتاق – بین الاقوامی بکر پرائز (2025)

اسی ہفتے ادیبہ بانو مشتاق نے اپنے افسانوی مجموعے ‘ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔ بنیادی طور پر کنڑ میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اپوزیشن لیڈر انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیجتے رہے،  وہیں پی ایم مودی کی خاموش قابل ذکر طور پرمحسوس کی گئی۔

کنڑ ادب اور ہندوستانی زبان کے لیے ایوارڈ کی تاریخی نوعیت کے پیش نظر یہ کوتاہی کئی معنوں میں حیران کن ہے۔

معلوم ہو کہ یہ مجموعہ جینڈرکے بارے میں بات کرتے ہوئے پدری  نظام پر حملہ کرتا ہے۔

Next Article

راہل گاندھی کا ایس جئے شنکر پر نشانہ، کہا – ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ایک ڈچ براڈکاسٹرکو دیے گئےانٹرویو کی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ پاکستان کی مذمت کرنےمیں کسی دوسرے ملک نے ہندوستان کی حمایت کیوں نہیں کی اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی میں ثالثی کرنے کو کہا تھا۔

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

نئی دہلی: حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے جمعہ (23 مئی) کو کہا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ‘تباہ’ ہوگئی ہے ۔

انہوں نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ڈچ براڈکاسٹر کو دیے گئے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی اور ان سے پوچھا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ کیوں جوڑا گیا ہے، کسی دوسرے ملک نے پاکستان کی مذمت کرنےمیں ہندوستان کی  حمایت کیوں نہیں کی، اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی کی ‘ثالثی’ کرنے کو کہا۔

ایکس  پر ایک بیان میں  راہل گاندھی نے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی، جس میں جئے شنکر سے ٹرمپ کے دعووں پرجواب دینے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے آپریشن سیندور کے بعد چار دنوں کے فوجی تصادم کے بعد 10 مئی کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی’ثالثی’ کی تھی۔

ہندوستان نے تب سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو ختم کرنے کا فیصلہ’دو طرفہ طور پر’ لیا گیا تھا، لیکن اس نے ٹرمپ کے ان دعووں کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا جن میں دونوں ممالک کو جوہری جنگ کے دہانے سے واپس لانا اور جنگ بندی کے لیے تجارت کا استعمال کرنا شامل ہے۔

گاندھی نے کہا، ‘کیا جے جے’بتائیں گے؛ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ  کیوں جوڑ دیا گیا ہے؟ پاکستان کی مذمت کرنے میں ایک بھی ملک نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا؟ ٹرمپ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ‘ثالثی’ کرنے کو کس نے کہا؟ ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے۔’

حالانکہ گاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ ‘جے جے’ کا کیا مطلب ہے۔ لیکن کانگریس کے رہنما جئے شنکر کو ‘جئے چند جئے شنکر’ کہہ رہے ہیں، جو کہ ‘پرتھوی راج راسو’ نظم کا حوالہ ہے، جس میں راجپوت حکمران جئے چند کوایک اور راجپوت حکمران پرتھوی راج چوہان کے خلاف محمد غوری کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔

جئے شنکر سے گاندھی کے یہ سوال وزیر اعظم نریندر مودی سے ایکس پر کئی سوال پوچھنے کے ایک دن بعد آئے ہیں۔

جمعرات (22 مئی) کو راہل گاندھی نے 12 مئی کو مودی کے قوم سے خطاب کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ، ‘مودی جی، کھوکھلی تقریریں کرنا بند کریں۔ بس مجھے بتائیں؛آپ نے دہشت گردی پر پاکستان کے بیان پر کیوں یقین کیا؟ ٹرمپ کے سامنے جھک کر ہندوستان کے مفادات کو کیوں قربان کیا؟ آپ کا خون صرف کیمروں کے سامنے ہی کیوں ابلتا ہے؟ آپ نے ہندوستان کے وقار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا!’

اس سے پہلے 17 مئی کو گاندھی نے کہا تھا کہ جئے شنکر کی خاموشی ‘قابل مذمت’ ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ ‘ہم نے کتنے ہندوستانی طیارے کھودیے کیونکہ پاکستان کو پتہ  تھا؟ یہ کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ جرم تھا۔ اور ملک کو سچ جاننے کا حق ہے۔’

گاندھی نے ایک ویڈیو بھی شیئر کیا، جس میں جئے شنکر صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ آپریشن سیندور کے ‘آغاز’ میں پاکستان کو ایک پیغام بھیجا گیا تھا۔

ویڈیو میں جئے شنکر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘آپریشن کے آغاز میں ہم نے پاکستان کو پیغام بھیجا تھاکہ ہم بنیادی ڈھانچے  پر حملہ کر رہے ہیں، فوج پر نہیں، اس لیے فوج کے پاس اس عمل میں مداخلت نہ کرنے کا اختیار ہے۔ انہوں نے اچھی  صلاح  نہ لینے کا انتخاب کیا۔’

بی جے پی کا جوابی حملہ

دریں اثنا، جمعہ کو بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کے بیانات سے مسلح افواج کے مورال کو نقصان پہنچے گا۔

بھاٹیہ نے کہا، ‘جب آپریشن سیندور چل رہا ہے، تب راہل گاندھی لاپرواہی سے بیان دے رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ایف کے کتنے جیٹ طیاروں کو مار گرایا گیا ہے۔ 11 مئی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ایئر مارشل بھارتی نے کہا، ‘ہم جنگ کی صورتحال میں ہیں، اس سوال کا جواب دینا ہمارے لیے عقلمندی نہیں ہے۔ راہل گاندھی پاکستان سے بات چیت میں مصروف ہیں کہ ہندوستان اور فوج کے حوصلے کیسے پست کیے جائیں۔ وہ اس پر دھیان نہیں دیتے اور پوچھتے ہیں کہ کتنے جیٹ طیارے گم ہو گئے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘آج پاکستان کی سینئر رہنما مریم نواز نے بیان دیا کہ 6 اور 7 مئی اور 9 مئی کی درمیانی شب ہندوستان کی کارروائیوں سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان خود اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کے 9 پیڈ اور 11 فضائی اڈوں کو تباہ کیا۔ ایسے وقت میں اپوزیشن لیڈر اور نشان پاکستان راہل گاندھی کیا کہہ رہے ہیں؟’

انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرف رہنا چاہتے ہیں۔