یوم پیدائش پر خاص : میں ڈرائنگ روم کا نہیں ڈسٹ بن کا فنکار ہوں؛صادقین

صادقین کو شاعری ورثے میں ملی تھی کہ میر تقی میر کے استاد امیر علی انہی کے اجداد میں سے تھے اور میر انیس کے والد مبرورنے بھی خانوادۂ صادقین سے ہی کسب فیض کیا تھا۔ The post یوم پیدائش پر خاص : میں ڈرائنگ روم کا نہیں ڈسٹ بن کا فنکار ہوں؛صادقین appeared first on The Wire - Urdu.

صادقین کو شاعری ورثے میں ملی تھی کہ میر تقی میر کے استاد امیر علی انہی کے اجداد میں سے تھے اور میر انیس کے والد مبرورنے بھی خانوادۂ صادقین سے ہی کسب فیض کیا تھا۔

فوٹو، بہ شکریہ ،علی حیدر نقوی

فوٹو، بہ شکریہ ،علی حیدر نقوی

شاداب ذہن میں ہی خوبصورت تخیلات جنم لیتے ہیں!

صادقین (1930-1987) بھی ایک سرسبز زرخیز ذہن کے مالک تھے جن کی آنکھوں نے حسن کائنات کو ’دیدۂ حیراں‘سے دیکھا اور انگلیاں کینوس پر خوبصورتی نقش کرتی گئیں۔حسن کے اظہارات مصوری اور خطاطی کے وسیلے سے مختلف شکلوں میں اس طرح رونما ہوتے رہے کہ دیکھنے والے خود حیرتوں میں ڈوب گئے۔

عالمی شہرت یافتہ مصور و خطاط صادقین کے ذہن میں تخیلات کے ایسے سلسلے تھے جو فنون لطیفہ کی مختلف صورتوں میں روشن ہوتے گئے۔ موضوعاتی کینوس کی وسعت، تخیلات کی کثرت اور تجربے کے تنوع نے انہیں شہرت عطا کی۔ ان کے دائرۂ اظہار اور احساس کی وسعت میں ان کی بے پناہ تخلیقی توانائی اور تخیلی قوت پنہاں تھی۔ ترسیل کے ایک ہی ذریعہ تک ان کا ہنر محدود نہیں تھا بلکہ ان کے تخیل نے ترسیل کے کئی ذرائع تلاش کر لیے تھے۔

صادقین کا ذہنی وجود ہجوم فکر سے مثل موج لرزتا رہتا تھا اور وہی لرزش مصوری اور خطاطی کی صورت میں ڈھل جاتی تھی۔انہوں نے لکیروں کے جال میں بیتے ہوئے لمحوں کے عکس اور زمان و مکاں کو قید کر دیا ہے۔ خود ہی ایک رباعی میں کہتے ہیں؛

قرطاس پہ جب نقش بنایا میں نے

تو عمر کا سرمایہ لگایا میں نے

اک جال لکیروں کا بنا اور اس میں

اڑتے ہوئے لمحوں کو پھنسایا میں نے

صادقین کے فن میں رمزیت اور تہہ داری ہے۔انہوں نے آرٹ کا ایک نیا فارم تلاش کیا، جسے انہوں نے Mystic Figuration کا نام دیا۔تصوف کی رمزیت اور سریت ان کے فن میں نمایاں ہے۔ تخلیقی وفور سے معمور صادقین نے نئی زمین اور نئے افق تلاش کیے اور ارض و سماوات کے امتزاج سے انسانی ذہن کو نئے ابعاد عطا کیے۔ صادقین نے زمان و مکاں کے فلسفے کو اپنی مصوری کا موضوع بنایا اور وقت کے تسلسل کو اپنی پینٹنگس میں نمایاں کیا ہے۔

وہ ایک بڑا تخلیقی ذہن تھا جو اپنی زمین اور جڑوں سے جدا نہیں ہوا، اپنی اساس سے انحراف نہیں کیا، فن کی عظمت نے غربت سے نفرت کو جنم نہیں دیا۔صادقین بورژوائی نہیں، پرولتاری (Proletariat) تھے، ہمیشہ محنت کی عظمت، عوامی احساس و شعور کی تخلیقی اور تصویری تعبیریں تلاش کرتے رہے۔ان کے زیادہ تر مورل (Mural) میں اجتماعی عوامی انسانی محنت کی عکاسی نظر آتی ہے۔ منگلہ ڈیم کا مورل Saga of Labour، ان محنت کشوں اور مزدوروں کو خراج عقیدت ہے جو حقیقت میں سماج کی بنیاد ہیں اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک بھوکے انسان کا کرب اور بقا کی جدوجہد ’نیچر‘ سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔

صادقین کی پینٹنگ میں کیکٹس کا درخت بھی ہے جو سندھ کے صحرا میں تمامتر سفاک حالات کے باوجود قائم و دائم ہے۔ یہی کیکٹس ایک علامت ہے انسانی جدوجہد اور جہد للبقا کی۔اس کیکٹس کے ذریعہ انہوں نے انسانی جدوجہد کی ایک علامتی تعبیر پیش کی ہے اور اس باغیانہ تیور والے کیکٹس کی پرقوت علامت کو اپنی پینٹنگس میں پیش کر کے تحرک و مزاحمت کا پیغام دیا ہے کہ جہد مسلسل اور عمل پیہم پر ان کا ایقان تھا۔صادقین فرد نہیں، ایک جنون کا نام تھا۔

ذہن کا رشتہ جنون سے جڑ جائے تو پھر ساری مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔راستوں کے پتھر کہکشاں بن جاتے ہیں۔ کانٹے پھولوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔دریا پل اور ندی کشتی بن جاتی ہے۔صادقین کے باطنی وجود میں ایسے ہی جنون یعنی سرمد اور غالب کی ذہنی لہریں موجزن تھیں اسی لیے جب ہندوستان آئے تو انہوں نے سرمد و غالب کے مزار کی مقدس خاموشیاں سنیں اور ان خاموشیوں میں وہ گویائی تلاش کر لی جو ان کے فن میں نمایاں ہے۔ سرمد و غالب کی خاموشیوں کی سرگوشیوں کو انہوں نے آرٹ میں ڈھالا۔ سربکف سیریز اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔

رباعیات صادقین

رباعیات صادقین

صادقین نے اسی جنون کی وجہ سے آسان نہیں، ہمیشہ مشکل راہوں کا انتخاب کیا۔ رباعی جیسی مشکل صنف سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنے سوز نہانی کو شعروں میں ڈھالا۔ رباعیات صادقین ان کی تخلیقی طغیانی کی ایک عظیم مثال ہے جس میں اپنے جذبات و احساسات کی فنکارانہ ترسیل کی ہے اور ایک مشکل راہ پر چل کر انسانی اقدار کا تحفظ کیا، مصوری میں بھی یہی انفرادی مشکل پسندی ان کی روش رہی۔صادقین کے یہاں قلندری، درویشی، رندی، سرمستی، آزادہ روی، خرد افروزی اور روشن خیالی ہے، جو اس ذہنی جستجو کی دین ہے جو مختلف تہذیبوں اور روایتوں کے تعلق سے ان کی تحقیق و تفحص کا حصہ رہی ہے۔

ان کا ذہن بہت سی روایتوں اور تہذیبوں کا سنگم ہے۔صادقین ایک ایسا فنکار ہے جو حرف و رنگ سے اندھیروں کے خلاف احتجاج کرتا رہا۔احتجاج کا رنگ صرف سرخ نہیں ہوتا، وہ کسی بھی رنگ میں ہو سکتا ہے۔صادقین کے احتجاج کا طور بھی الگ تھا اور رنگ بھی مختلف۔ وہ ایسی تمام قدروں کے خلاف تھے جن کی بنیادیں غلط تھیں۔ وہ انسانی جبر و استحصال کی تمام شکلوں کے سخت مخالف تھے۔ صادقین نے ہمیشہ مقدس اصولوں کے لیے جنگ کی۔ان کی مصوری، خطاطی اور شاعری میں ایک احتجاجی رنگ ہے۔ فسطائیت، ادعائیت سے ان کا کبھی کوئی رشتہ نہیں رہا، انسانیت ہی ان کا مسلک و مشرب ہے اور یہ ان کی مصوری اور شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ سبط حسن نے لکھا ہے کہ ؛ ’’صادقین کی کچھ تصویریں ہیں جن میں بڑا کرب نظر آتا ہے، بڑی روحانی اذیت کا احساس ہوتا ہے اوریوں لگتا ہے گویا وہ اپنے اس دکھ کو دوسروں تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کی بعض تصویروں میں شہادت کی ثناخوانی ملتی ہے۔ بعضوں میں ظلمت پر نور کی فتح اور بعضوں میں احتجاج۔‘‘

صادقین کو مکاری، عیاری، دوغلے پن اور منافقانہ طرز زندگی، طرز احساس اور طرز اظہار سے سخت نفرت تھی۔ امن پسند صادقین کو جنگ کی ہولناکیوں کا احساس تھا اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ اس روئے زمین پر کبھی جنگ نہ ہو کہ جنگ سے انسانیت کا ہی زیاں ہوتا ہے۔صادقین ہر لحظہ نیا طور اور نئی برق تجلی کی تلاش میں مصروف رہے اور اسی استغراق اور انہماک کا ثمرہ ہے کہ صادقین آرٹ کی دنیا میں ایک اہم دستخط کی حیثیت سے عالمی سطح پر جانے جاتے ہیں اور ان کا آرٹ ایک دائمی قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ فیض احمد فیض جیسے ممتاز شاعر نے صادقین کے خیالی مظاہر سے مختلف صورتوں (Phantasmagoric creation) کے سماجی و سیاسی سروکار کی ستائش کی ہے اور فرانس کے ممتاز آرٹ کریٹکRaymond Cogniat نے فرانس کے Le Figaro میں لکھا ہے کہ صادقین برصغیر کا واحد ایسا سنجیدہ آرٹسٹ ہے جس نے خلا، مکاں، حجم اور مادے کی حقیقت کے تاثر میں اضافہ کیا ہے اور تجریدی خیال کو ٹھوس حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ 7؍نومبر 1963 میں دی لندن ٹائمس نے یہ لکھا کہ ؛

صادقین کے فن میں بے پناہ توانائی کا ذخیرہ ہے۔

تو واشنگٹن پوسٹ نے 11؍اگست 1963 میں یہ لکھا کہ ؛

ہر پیدائشی اور فطری فنکار کی طرح صادقین بھی موضوع اور مواد سے زیادہ ہیئت کی اصطلاح میں سوچتے ہیں۔ ان کی ڈرائنگس نہایت عمدہ اور معلوماتی ہیں۔

پیرس کے اخبار Le Monde نے اپریل 1964 میں یہ اعتراف کیا کہ؛

صادقین کی موضوعاتی کثرت اور ہمہ جہتی پکاسو کی یاد دلاتی ہے۔

اور مختلف ملکوں نے سند اعتراف بھی عطا کیا۔ فرانس جیسے ملک نے صادقین کو The Last Super پینٹنگ پر Binnale de Paris جیسا موقر اعزاز عطا کیا اور ان کے تخلیقی تجربے کا یوں بھی اعتراف کیا کہ ممتاز فرانسیسی ادیب کامیو (Abbert Camus) کے مشہور زمانہ ناول The Stranger کے السٹریشن (تصویر کاری) کے لیے صادقین کو خصوصی طور پر مدعو کیا اور پاکستان نے ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے سرفراز کیا۔

صادقین نے حقیقت پسندی (Realism)، تجریدیت (Abstraction) اور تاثریت (Impressiomnism) کی مختلف صورتوں کو اپنی مصوری میں پیش کیا اور خطاطی میں نسخ اور نستعلیق کے امتزاج سے ایک نئے رسم الخط کی بنیاد ڈالی۔انہوں نے حروف کی پراسرار قوت کو پہچانا اور اس رمزیاتی قوت کو اپنے آرٹ میں استعمال کیا۔ انہوں نے لفظوں کو امیجری عطا کی کہ یہ حروف بھی پراسرار ہوتے ہیں، ان میں معنویات کی کئی جہتیں اور تہیں ہوتی ہیں۔ ’الف‘ اور ’ب‘ محض حروف نہیں ہیں بلکہ اسرار ہیں جن کا انکشاف ابھی تک صحیح طور پر نہیں ہو پایا ہے۔

رباعیات صادقین

رباعیات صادقین

انہوں نے لفظوں کو مصور کر کے اس کی داخلی قوت کی طرف اشارہ بھی کیا ہے اور لفظوں میں پنہاں پیغام کو تصویروں کے ذریعہ واضح کیا ہے۔ سورۃ رحمن ان کے ’’معجزہ فن‘‘ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ ایک شاہ کار ہے جو آیات ربانی کی تصویری تفہیم و تعبیر کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ عربی سے نابلد شخص بھی تصویروں کے ذریعہ جزوی مفہوم تک رسائی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔اس میں صادقین کمال تخلیقیت کا بھرپور ثبوت پیش کر دیا ہے۔صادقین نے خطاطی جیسے ثقافتی انداز اظہار کو جو بقول انور سجاد ’’زبان کو ایک مابعد الطبیعاتی ساخت عطا کرتا ہے‘‘ ایک نیا رنگ دیا ہے۔ خطاطی کی ایک نئی منطق تشکیل دی ہے۔ مصورانہ خطاطی کی دنیا میں صادقین اپنے آرٹ کے حوالے سے بے نظیر اور بے مثال ہیں۔ اعجاز راہی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ

’’مصور خطاطی میں حنیف رامے، شاکر علی، آذر زوبی ہیں، شاکر علی رامے اور زوبی کی روایت کو صادقین کے کمال فن نے جلا بخشی۔ پروفیسر سجاد حیدر ملک نے ان کے ایک کتبے کو دیکھ کر بے اختیار لکھا تھا کہ صادقین کا فن لوگوں میں تھرل اور تجسس پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ صادقین کے فن میں رنگ اور حرف کے نئے رشتوں کے حوالے سے ایک طرز صادقین نمایاں ہوتی ہے، جن کا خوبصورت پس منظر ان رنگوں سے تشکیل پاتا ہے جو آیات ربانی کی تفسیر کرتے ہوئے کلام اﷲ کے معنوی تناظر میں جدید حسیت کی ایک سطح خلق کرتے چلے جاتے ہیں۔ صادقین کو ہم عصروں میں رنگوں کے وسیلے سے مفہوم پیش کرنے میں کمال حاصل ہے۔‘‘

صادقین ژال پال سارتر کے وجودیت کے فلسفے سے متاثر تھے اور وجودی فکر کی اظہاری شکلیں ان کی مصوری اور شاعری دونوں میں نظر آتی ہیں۔صادقین کو شاعری ورثے میں ملی تھی کہ میر تقی میر کے استاد امیر علی انہی کے اجداد میں سے تھے اور میر انیس کے والد مبرورنے بھی خانوادۂ صادقین سے ہی کسب فیض کیا تھا۔ صادقین کا کلاسیکی شعریات سے گہرا ذہنی رشتہ رہا ہے اور ان کی شاعری میں بھی کلاسیکی روح نظر آتی ہے۔ کلاسیکیت سے ذہنی وابستگی کا ثبوت رباعیات کے علاوہ غالب، اقبال اور فیض کے اشعار کی تصویر کاری ہیں۔

انہوں نے ان اہم شاعروں کے اشعار کو ایک نئی مصورانہ معنویت عطا کی ہے اور اپنی فنکاری کے ذریعہ مفاہیم کے نئے در کھول دیے ہیں۔صادقین کے یہاں صداقت اور آگہی کی جستجو کا عمل روشن ہے۔ انہوں نے پھولوں، تتلیوں اور لینڈ اسکیپس کی عکاسی نہیں کی بلکہ صداقت کے جویا رہی کہ پھول، تتلیوں اور لینڈ اسکیپ سے زیادہ اہمیت اس انسان کی تھی جو بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔اسی انسانی لمس نے ان کی مصوری کو ایک نئی کائنات عطا کی ہے۔ یہ مصوری کا جہان دیگر ہے۔ انسان، انسانی ذہن کا ارتقا ان کی تخلیق کا مرکزی نقطہ ہے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے ہیڈ کوارٹر میں ان کا ایک مورل ہے جس میں انہوں نے سقراط سے اقبال، آئن اسٹائن کی پوری علمی، عقلی تاریخ مصور کر دی ہے۔ یونانی عہد کے مفکرین، بیسویں صدی کے ادبا، ماہرین ریاضیات اور دیگر علوم و فنون کے کاملین کے امیجز کے ذریعہ دانش و آگہی کی قدیم روایت کو تابندگی عطا کی۔

لاہور میوزیم میں بھی ان کے مورل اس عقلی، علمی روایت کا تصویری تسلسل پیش کرتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی میں ’’آگہی کی تلاش‘‘ کے عنوان سے مورل میں یہی پیغام مضمر ہے۔ دراصل صادقین نے انسانی باطن میں مخفی قوتوں اور امکانات کی جستجو کی ہے اور ان کے فن کا مقصد انسان کو اپنی بے پناہ لامحدود قوتوں سے آگاہ کرنا اور ان کے شعور و احساس کو بیدار کرنا ہے۔ وہ انسانیت کی عظمت کے حوالے سے زوال آدمیت کے نوحہ خواں ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جدید ترین اکتشافات اور ایجادات کی وجہ سے انسان کا اعصابی نظام سکڑ گیا ہے اور اس دنیا سے اس کا رشتہ ٹوٹ چکاہے جو اس کی اصل شناخت رہی ہے اس ’گمشدہ انسانیت‘ کی جستجو صادقین کا فکری مظہر ہے۔ یہی انسانیت پسندانہ تناظر ہے جس کی وجہ سے ایک حساس انسان کا ان کی مصوری سے طلسمی رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور انسان کا ذہن، ضمیر بیدار ہونے لگتا ہے۔ انسانی ذہن اور ضمیر کو مرتعش اور مضطرب کرنے والی تصویروں میں صادقین کے خون جگر کی نمود ہے۔ اقبال نے کہا تھا؛

نقش ناتمام ہیں سب خون جگر کے بغیر

اور اسی نقش کو مکمل کرنے کے لیے صادقین نے اپنے خون جگر کی پوری توانائی فنون لطیفہ کی نذر کر دی اور اس طرح انہوں نے اپنی فنکاری کے ذریعہ انسانی دنیا کو ایک پیغام دیا۔انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ میں ڈرائنگ روم کا فنکار نہیں ہوں بلکہ ڈسٹ بن کا ہوں۔ انہوں نے حیات و کائنات کی حقیقتوں کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے اور ان تجربوں اور مشاہدات کو اپنی مصوری میں ڈھالا ہے۔ وہ علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے بیحد متاثر تھے۔ لاہور میوزیم میں ان کا ایک مورل علامہ اقبال کے فلسفہ خودی پر مبنی ہے۔ اس میں اتنی توانا اور موثر لکیریں ہیں کہ آنکھیں اس کی اسیر ہو جاتی ہیں اور اس میں معنی کی نئی کائنات تلاش کرنے لگتی ہیں۔ اس مورل میں علامہ اقبال کا یہ شعر بھی ہے؛

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

یہ مورلCalligraphic Cubism کی ایک عمدہ مثال ہے۔اس مورل میں کئی تلمیحاتی حوالے بھی ہیں۔ مرکز میں آدم اور حوا ہیں جو کائنات کی توانائی کا استعارہ ہیں۔

اس غیر معمولی توانا تخلیقی ذہن کی زادگاہ ہندوستان کا شہر امروہہ ہے جو اپنی تہذیبی اور تخلیقی حسیت کے اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے یہیں سادات امروہہ کے نقوی خاندان میں صادقین نے شعور کی آنکھیں کھولیں۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ آئی ایم ہائی اسکول امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے اسٹاف آرٹسٹ رہے اور 1948 میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ اس ذہن کا رشتہ پاکستان سے رہا مگر اپنی زمین ہندوستان سے مابعد الطبیعاتی رشتہ آخری سانس تک قائم رہا کہ جمال اجنتا اور جلال ہمالہ کی سرزمین سے کسی فنکار کا رشتہ ٹوٹ بھی کیسے سکتا ہے مگر ہجرت کا کرب بھی عجیب ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن کی منطق اور احساس کا منطقہ بدل جاتا ہے اور یہ ہجرت اتنا فاصلہ پیدا کر دیتی ہے کہ اس فاصلے کو پاٹنے میں مدتیں گزر جاتی ہیں۔

لاہور سے امرتسر کا فاصلہ صرف 45 منٹ کا ہے مگر صادقین کو اس دردناک فاصلے کو طے کرنے میں 33 سال لگ گئے۔ 33 برس بعد1981 میں جب انہوں نے اپنی دھرتی میں اپنے قدم رکھے تو ان کے ذہن و دل کی کیفیت بدل گئی اور ماضی کے پراسرار، رومانی، خواب آسا لمحوں نے ان کے پورے وجود کو گھیر لیا اور ہندوستان کے تہذیبی کینوس نے ان کے ذہن کو اس طرح جکڑ لیا کہ وہ یہاں کی تہذیبی روایت میں اپنے ماضی کو تلاش کرنے لگے۔ ایک درخشاں ماضی جب تہذیبی سطح پر اس طرح کی کوئی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی اور آرٹ ایک مشترکہ قدر کی حیثیت رکھتا تھا۔

پاکستان کے ایک ممتاز مصور اور خطاط جن کی مصوری کی نمائش Galerie Lambrt پیرس، NVC Gallery لندن ، ہنری گیلری واشنگٹن، میوزیم آف ماڈرن آرٹ پیرس، Gallery Pressourge پیرس، قاہرہ، ابوظہبی، جدہ، کویت، بغداد، دمشق، عمان میں ہوتی رہی ان کے قدرداں ہر جگہ موجود تھے اور ہندوستان نے بھی اس فنکار کی قدر کی جس کی انگلیوں پر امروہہ کی مٹی کے نشانات نقش تھے اور سانسوں میں امروہہ کے موسم اور ماحول کی خوشبوئیں بسی ہوئی تھیں۔

فوٹو، بہ شکریہ ،علی حیدر نقوی

فوٹو، بہ شکریہ ،علی حیدر نقوی

وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ان کے فن کی قدرداں اور مداح تھیں۔ انہوں نے یہاں کی تاریخی عمارتوں پر مورل بنانے کے لیے انہیں مدعو بھی کیا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، بنارس ہندو یونیورسٹی، غالب اکیڈمی نئی دہلی اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی میں ان کے مورل ان کی فنکارانہ عظمت کے ثبوت ہیں۔صادقین نے مصوری میں ہیئت کے مختلف تجربے کیے۔ تمثیلی Figurative تجریدی Abstract تجربوں کے علاوہ اظہاریت پسندی اور تاثریت پسندی کے عناصر بھی نمایاں ہیں۔صادقین مابعد التاثریت فنکاروں سے بھی متاثر رہے ہیں مگر ان کا فن ماخوذ یا مشتق (Derivative) نہیں ہے۔ ان کے فن میں ایجاد و اختراع ہے۔

صادقین نے رنگ اور لکیر کے نئے منطقے تلاش کیے۔ موثر علامتوں اور رنگوں کے ذریعہ اپنا انسانی پیغام بھی کینوس پر منقش کر دیا۔ احمد داؤد نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ؛

 ’’صادقین کے فن کے بارے میں ایرک ملٹن نے کہا ہے کہ صادقین انتہائی ذاتی اور اوریجنل مصور تھے۔ صادقین خود کو تجریدی مصور کہلانا پسند نہیں کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تصاویر کہیں کہیں تجرید کی نفیس حدوں کو چھو لیتی تھیں۔ یوں تو اس پر کسی ایک تحریک یا فرد کی چھاپ نہیں مگر تاثریت پسندوں کی طرح رنگوں کے ارتعاش، روشنی کی حرکت اور تازگی کا احساس اس کے یہاں واضح نظر آتے ہیں۔ انجذاب کی شخصی خوبیوں کی بدولت جو گہرائی تخیل، استغراق اور مشق سے اسے نصیب ہو گئی ہے وہ اسے مختلف اور متنوع انداز کو اپنا شخصی رنگ دے کر پیش کرتا ہے۔

اس کی مسٹک لکیریں اس کا تعارف کروا دیتی تھیں۔ زندگی اور سماج کے بارے میں اس کی روش ترقی پسندانہ ہے۔ کاب ویب سیریز اور کیکٹس سیریز موضوعات کے اعتبار سے پیچیدہ نفسی کیفیات، سماجی جبر اور انسانی باطن کے سیاہ و سفید سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو صادقین کو دانش مزاج اور آزاد خیال کے حوالے سے نمایاں کرتی ہیں۔ صادقین کی اشکالی دنیا صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ حشرات الارض سے خطاطی تک کو مصور کر کے ان موضوعات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ سماجی وابستگی ایک پیغام کے طور پر اس کی تصویروں میں ظاہر ہوتی ہے۔ دیواری تصاویر سے خطاطی تک اس نے اپنا منفرد انداز اپنایا ہے۔‘‘

رنگ اور حرف کی آمیزش سے صادقین نے طلسمات کی ایک دنیا خلق کی ہے اور آرٹ کی دنیا کو ایک ایسا ’’نگارخانہ تحیر عطا کیا‘‘ ہے کہ جس کی ہر تصویر جاذبیت اور دلکشی کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تصادم کرتی نظر آتی ہے۔

صادقین کااسلوب بھی الگ ہے اور کائنات (Cosmos) بھی۔ مصوری اور خطاطی دونوں ہی میں ان کا رنگ جداگانہ ہے۔ ان کے ہاں مصوری اور خطاطی کا اتنا حسین امتزاج ہے کہ ساری ریکھائیں اور لکیریں مٹتی نظر آتی ہیں۔ ان کی بہت ساری پینٹنگس خطاطی کی ہیئت پر مبنی ہیں تو خطاطی میں بھی مصورانہ تجربوں کے رنگ نمایاں ہیں۔ صادقین کی ذہنی امتزاجیت نے ایسے بہت سے تجربے کیے ہیں جن کی وجہ سے فنی اور فکری سطح پر ان کے ہاں خود بخود تنوع اور تجدد کی صورتیں نمایاں ہو گئی ہیں۔

10؍فروری 1987 میں اس کائنات رنگ و بو سے اپنا رشتہ توڑ کر کراچی کے سخی حسن قبرستان میں مدفون سید صادقین احمد نقوی کی تخلیقی روح زندہ ہے۔ ان کی زندگی کی عبارتیں ان کی شاہکار تصویروں کے لوح پر مرتسم ہیں۔ یہ عبارتیں کبھی مٹائی نہیں جا سکتیں کہ صادقین کی ہر عبارت میں زندگی تھی، اشارت میں تحرک تھا اور اظہار میں تسلسل۔

The post یوم پیدائش پر خاص : میں ڈرائنگ روم کا نہیں ڈسٹ بن کا فنکار ہوں؛صادقین appeared first on The Wire - Urdu.