ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مطابق، تہران میں حماس کے سرکردہ رہنما اسماعیل ہنیہ کے گھر پر حملہ کیا گیا، جس میں ہنیہ اور ان کے ایک سکیورٹی گارڈ بھی مارے گئے۔
اسماعیل ہنیہ۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا X/@DiversaComunic2)
نئی دہلی: ایران کے نیم فوجی انقلابی گارڈ کوریعنی آئی آر جی سی نے بدھ (31 جولائی) کوبتایا کہ حماس کے سرکردہ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی نیوز ویب سائٹ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کے گھر پر حملہ کیا گیا، جس میں ہنیہ اور ان کے ایک سکیورٹی گارڈ بھی مارے گئے۔ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور اس کی وجوہات کا جلد پتہ لگا لیا جائے گا۔
ایک اور بیان میں حماس نے کہا کہ ہنیہ کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے ۔
الجزیرہ کے مطابق، حماس نے الزام لگایا ہے کہ ہنیہ کو تہران میں ان کے گھر پر دھوکے سے کیے گئے اسرائیلی حملے میں ہلاک کیا گیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے کہا ہے کہ حماس یروشلم کو آزاد کرانے کے لیے کھلی جنگ کرے گا اور وہ ایسا کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
غزہ کے دیر البلاح سے الجزیرہ کے نامہ نگار ہانی محمود نے بتایا کہ یہاں اس خبر کا بہت منفی اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
وہیں،
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم ایرانی سرکاری چینلوں نے اسرائیل کو قصور وار ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔
حماس کے ترجمان موسیٰ مزروق نے خبر رساں ادارے
روئٹرز کو بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ایک بڑا واقعہ ہے لیکن اسرائیل کو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی بزدلانہ حرکت ہے۔ ہنیہ کی موت کا بدلہ لیا جائے گا اور ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
اسرائیل پر قتل کا الزام
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق، سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیل نے فلسطینی گروپ حماس کو ”کچلنے” کے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد سے
حماس کے خلاف اس کی جنگ جاری ہے۔
تاہم اس تازہ واقعے کے حوالے سے اسرائیل کی جانب سے اب تک کوئی بیان یا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
رواں برس اپریل میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اور ان کے چار پوتے بھی غزہ میں ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی اور سی این این سمیت کئی میڈیا اداروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ ہنیہ کی موت سے متعلق غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کا جواب نہیں دیں گے۔
اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کے پس منظر میں اسماعیل ہنیہ نے سن 1987 میں حماس میں شمولیت اختیار کی تھی، جب اس گروپ کے قیام عمل میں آیا تھا۔
سن 2006 میں وہ فلسطین کے وزیر اعظم بنے، حالانکہ حریف دھڑوں کو ان کے عہدے کے جواز پر اختلاف تھا۔ سن 2017 میں انہیں حماس کے سیاسی بیورو کا رہنما منتخب کیا گیا تھا۔
وہ سن 2016 سے ہی قطر اور ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے بعد سے ان کے مختلف فلسطینی دھڑوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے سفارتی مشنوں کے تحت چین، ایران اور ترکی کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
ایران کا دورہ آخری ثابت ہوا
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق، اسماعیل ہنیہ کو آخری بار منگل کے روز ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے نئے صدر کے ساتھ ہی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات کے دوران ایرانی صدر نے حماس کے رہنما سے کہا تھا کہ ایران ”فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔” اس پر اسماعیل ہنیہ نے ایران کے ”پروقار موقف” کا شکریہ ادا کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ
اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً نو ماہ سے جنگ جاری ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا اندازہ ہے کہ فلسطینی علاقے میں گزشتہ ماہ جون تک تقریباً 37000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ طبی جریدے دی لانسیٹ کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔