سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات کے سروے پر پابندی لگائی، مرکز سے جواب طلب کیا

02:41 PM Dec 14, 2024 | دی وائر اسٹاف

عبادت گاہوں کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کسی بھی قسم کے نئے سروے اور کیس کے اندراج پر پابندی لگاتے ہوئے مرکزی حکومت کو چار ہفتے کے اندر اپنا موقف واضح کرنے کو کہا ہے۔

جسٹس سنجیو کھنہ۔ (پس منظر میں سپریم کورٹ) (تصویر: ایس سی آئی ویب سائٹ/وکی میڈیا)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (12 دسمبر) کو ملک بھر کی نچلی عدالتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مذہبی مقامات کی ملکیت سے متعلق نئے مقدمے درج  نہ کریں اور نہ ہی سروے کا حکم دیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی چھ درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ بنچ میں جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن بھی شامل تھے۔

عدالت نے کہا کہ جب تک یہ مقدمہ زیر التوا ہے، نہ تو نئے مقدمات درج ہوں گے اور نہ ہی زیر التوا مقدمات میں عبوری یا حتمی احکامات جاری کیے جائیں گے۔

عدالت نے مرکزی حکومت کو چار ہفتے کے اندر اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت دی۔ سی جے آئی نے کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہند کے موقف کو ریکارڈ پر لایا جائے۔’

عدالت اب اس کیس کی سماعت 17 فروری 2025 کو کرے گی۔

1991 کے قانون پر تنازعہ

عبادت گاہوں کا قانون 1991، جسے ‘رام مندر تحریک’ کے دوران پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے نافذ کیا تھا، 15 اگست 1947 کو مذہبی مقامات کے کردار کو محفوظ رکھنے اور کسی قسم کی تبدیلی کو روکنے کے لیے فراہم کرتا ہے۔ تاہم، رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون کے دائرہ سے باہر رکھا گیا تھا۔

کئی عرضیوں میں اس قانون کی سختی سے تعمیل کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہے اور مذہبی مقامات کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھا جاسکے۔

دوسری جانب مختلف ہندو گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تاریخی طور پر کئی مساجد مندروں کو گرا کر تعمیر کی گئی تھیں۔

عدالت کا سخت موقف

سی جے آئی کھنہ نے کہا کہ دیگر عدالتیں سپریم کورٹ کی سماعت کے متوازی کوئی کارروائی نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘جب یہ معاملہ ہمارے سامنے زیر التوا ہے تو دوسری عدالتوں کے لیے ان معاملات کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔’

ایودھیا کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا مناسب نہیں ہے۔

زیر التوا مقدمات پر روک

سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد (وارنسی)، شاہی عیدگاہ (متھرا) اور سنبھل کی جامع مسجد سے متعلق مقدموں سمیت ملک بھر میں ایسے معاملوں پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اس مسئلہ پر تال میل  قائم کرنےکا مشورہ دیا۔

اس حکم کے ساتھ، سپریم کورٹ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ تنازعہ بڑھنے سے پہلے اس مسئلے پر اچھی طرح سے غوروخوض  کیا جائے۔ اس معاملے پر کوئی بھی فیصلہ مرکزی حکومت کے جواب اور عرضیوں کی سماعت کے بعد ہی لیا جائے گا۔