مارچ 2010 میں گجرات اے ٹی ایس نے 43 سالہ ایک این جی اوکارکن بشیر احمد بابا کو آنند سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کرنے اور 2002 کے فسادات سے ناراض مسلم نوجوانوں کوحزب المجاہدین کے لیے بھرتی کرنے کے لیےصوبے میں ریکی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ الزام ثابت نہ ہونے پر گزشہ دنوں انہیں رہا کر دیا گیا۔
نئی دہلی: گجرات پولیس کے ذریعےدہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے جانے کے گیارہ سال بعد وڈودرا کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایک کمپیوٹر پیشہ ور بشیر احمد بابا کو یہ کہتے ہوئے رہا کر دیا کہ استغاثہ یو اے پی اے کے تحت ان کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بعد بابا واپس سری نگر لوٹ گئے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 19 جون کو عدالت نے وکیل دفاع کے اس موقف کو برقرار رکھا کہ بابا کینسر کے بعد کی دیکھ بھال پر چار روزہ کیمپ میں شرکت کے لیے گجرات کا دورہ کر رہے تھے، تاکہ کیمیا فاؤنڈیشن کے توسط سے گھاٹی میں مریضوں کو ایسی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
بتادیں کہ 13 مارچ، 2010 کو گرفتار کیے گئے 43سالہ بابا 23 جون کو سری نگر کے ریناواڑی میں اپنے گھر پہنچے۔
گجرات اے ٹی ایس نے بابا کو آنند سے گرفتار کیا تھا اور ان پر ایک دہشت گردانہ نیٹ ورک قائم کرنے اور 2002 کے دنگوں سے ناراض مسلم نوجوانوں کوحزب المجاہدین کے لیے بھرتی کرنے کے لیےصوبے میں ریکی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اے ٹی ایس نے بابا پر فون اور ای میل کے ذریعےحزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین اور ایک بلال احمد شیرہ کےرابطہ میں رہنے کا الزام لگایا تھا۔
آنندضلع کورٹ کے چوتھے ایڈیشنل سیشن جج ایس اے ناکم نے 87صفحات کے فیصلے میں کہا، ‘ملزم کے خلاف الزام ہےکہ وہ گجرات میں رکا تھا اور 13 مارچ کو آنند میں پایا گیا تھا اور گجرات میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کوقائم کرنے کے لیے اسے مالی مدد ملی تھی، کافی ثابت نہیں ہوا، نہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ اس نے اس طرح کے فائدے حاصل کیے یا ایک دہشت گردانہ ماڈیول کو قائم کیا۔ استغاثہ واضح طور پرملزم کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کرنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کے وانٹیڈ کمانڈروں کے رابطے میں تھا۔’
اپنے سری نگر واقع گھر سے فون پر بات کرتے ہوئے بابا نے کہا کہ وہ 15 دنوں کے تربیتی پروگرام کے بعد واپس آنے کی امید میں گجرات کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ وہ گجرات واقع ایک این جی او کے پروجیکٹ ہیڈ تھے، جس نے کٹے ہونٹوں کے ساتھ پیدا ہوئے بچوں کی مدد کی۔
بابا کے وکیل خالد شیخ نے کہا کہ سری نگر کے ایک ڈاکٹر نے سفارش کی تھی کہ وہ گھاٹی میں کینسر کے بعد کی دیکھ بھال کی خدمات کے لیے تربیت حاصل کرنے کے لیے کیمپ کا سفر کریں۔ انہیں 28 فروری، 2010 کو پری بک کیے گئے رٹرن ٹکٹ پر واپس لوٹنا تھا۔
اس کے بجائے اے ٹی ایس نے احمد کو اس کےہاسٹل سے اٹھا لیا، ٹی وی کیمروں کے سامنے اس کی پریڈ کرائی اور انہیں حزب المجاہدین کا دہشت گرد قرار دیا۔
شیخ نے کہا، ‘اے ٹی ایس نے دلیل دی کہ بابا نے اس ڈاکٹر کے لیپ ٹاپ کا استعمال کیا تھا جن کے کیمپ میں وہ پاکستان میں اپنے حزب المجاہدین کے آقاؤں کو ای میل بھیجنے کے لیے جا رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں کھانا یا عبادت کرنے کے بہانے دن میں کئی بارمشتبہ فون کال کرتے اور کیمپ سے باہر جاتے دیکھا گیا۔’
بابا کہتے ہیں،‘آخر میں گھر واپس آکر خوشی ہوئی، وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ مجھے پتہ تھا کہ میں بے قصور ہوں اور اس لیے میں نے کبھی امید نہیں کھوئی۔ مجھے پتہ تھا کہ مجھے ایک دن عزت کے ساتھ رہا کیا جائےگا۔’
جیل میں رہنے کے دوران انہوں نے سیاست اورپبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔
ان کے لوٹنے پر انہیں لینے آنے والوں میں سب سے پہلے ان کے بھتیجے اور بھتیجی تھے، جنہوں نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ بابا نے کہا، ‘میں کیسے بتاؤں کہ مجھے کیسا لگا؟ یہ ایک ساتھ بے انتہامسرت اور دکھ کالمحہ تھا۔’
ان کا استقبال کرنے کے لیے جمع ہوئے لوگوں میں سے ایک چہرہ نہیں تھا، جو ان کے والد غلام نبی بابا کا تھا۔ سات سال تک سینئر بابا نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے ہر دروازے پر دستک دی تھی۔ 2017 میں کینسر سے ان کی موت ہو گئی تھی۔
مفت میں کیس لڑنے کے لیےاپنے وکیلوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے بابا کہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ اس بات کا افسوس رہےگا کہ ان کے والد انہیں گھر آنے پر نہیں دیکھ پائے۔ وہ کہتے ہیں،‘وہ باقاعدگی سے جیل میں مجھ سے ملنے آتے تھے۔’
بابا کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ان کے چھوٹے بھائی نذیر نے گھر کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ ان کی دو بہنوں کی شادی پچھلے 12 سالوں میں ہوئی، لیکن سیلس مین کا کام کرنے والے نذیر نے ایسا نہیں کیا۔ اب بابا ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی امید کر رہے ہیں۔