گجرات: ٹرینی خاتون کلرکوں کا الزام، میڈیکل ٹیسٹ کے دوران گروپ میں کپڑے اتروائے

معاملہ سورت میونسپل کے تحت چلنے والے ایک ہاسپٹل کا ہے، جہاں تربیت کے بعد میڈیکل ٹیسٹ کروانے آئی خاتون کلرکوں نے بد سلوکی کی شکایت کی ہے۔ خواتین کے مطابق ان کو جانچ کے لئے ایک ساتھ بلاکر وارڈ میں بنا کپڑوں کے کھڑا رکھا گیا،ساتھ ہی غیر شادی شدہ خواتین کی بھی حمل سے متعلق تفتیش کی گئیں۔

معاملہ سورت میونسپل  کے تحت چلنے والے  ایک ہاسپٹل کا ہے، جہاں تربیت کے بعد میڈیکل ٹیسٹ کروانے آئی خاتون کلرکوں نے بد سلوکی کی شکایت کی ہے۔ خواتین کے مطابق ان کو جانچ کے لئے ایک ساتھ بلاکر وارڈ میں بنا کپڑوں کے کھڑا رکھا گیا،ساتھ ہی غیر شادی شدہ خواتین کی بھی حمل سے متعلق  تفتیش کی گئیں۔

Surat

نئی دہلی: گجرات کی سورت واقع ایک ہاسپٹل میں 10 خواتین کو نوکری کےلئے ‘ جسمانی معائنہ ‘ کے نام پر ایک کمرے میں مبینہ طور پر بنا کپڑوں کے کھڑارکھا گیا۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد افسروں نے جانچ‌کے حکم دیے ہیں۔یہ مبینہ واقعہ 20 فروری کو سورت میونسپل کارپوریشن کے تحت چلنے والے میونسپل کارپوریشن  انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (ایس ایم آئی ایم ای آر)ہاسپٹل میں پیش آیا۔ تقریباً 10 خاتون ٹرینی کلرکوں کو ہاسپٹل کے زچگی وارڈ میں میڈیکل جانچ کے لئے بنا کپڑوں کے کھڑا رکھا گیا۔

کمشنر کو دی اپنی شکایت میں ایس ایم سی اسٹاف یونین نے یہ بھی الزام لگایا کہ خاتون ڈاکٹروں نے غیر شادی شدہ خواتین کی بھی حمل سے متعلق جانچ کی۔معاملہ سامنے آنے کے بعد سورت میونسپل کمشنر بنچانیدھی پانی نےجمعہ کو اس کی تفتیش کا حکم دیا۔ شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پانی نے الزامات کی تفتیش کے لئے تین رکنی ایک کمیٹی تشکیل کی ہے جو 15 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ سونپے‌گی۔

اس کمیٹی میں میڈیکل کالج کی سابق ڈین ڈاکٹر کلپنا دیسائی، اسسٹنٹ میونسپل کمشنر گائتری جری والا اور ایگزیکٹو انجینئر ترپتی کلاتھیا شامل ہیں۔افسروں نے بتایا کہ تربیت پوری ہونے کے بعد ضابطےکے مطابق ٹرینی ملازمین‎کونوکری کے لئے جسمانی طور پر خود کو صحت مند ثابت کرنے کے لئے جسمانی معائنے سےگزرنا ہوتا ہے۔ تین سال کی تربیت پوری ہونے کے بعد کچھ خاتون زیرتربیت کلرک طبی معائنے کے لئے ہاسپٹل آئی تھیں، جو لازمی ہے۔

یونین نے کہا کہ وہ ضروری تفتیش کے خلاف نہیں ہے لیکن خاتون ملازمین‎کی تفتیش کے لئے زچگی وارڈ میں جو طریقہ اپنا گیا وہ صحیح نہیں تھا۔یونین نے اپنی شکایت میں کہا، ‘معائنے کے لئے کمرے میں خواتین کو ایک ایک کرکے بلانے کی جگہ خاتون ڈاکٹر نے ان کو 10 کے گروپ میں بلاکربنا کپڑوں کے ایک ساتھ کھڑا کیا۔ یہ قابل مذمت ہے۔ ‘ شکایت میں کہا گیا کہ یہ طریقہ غیر قانونی اور انسانیت کے خلاف ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر خاتون کی الگ جانچ کی جائے۔

یونین کے جنرل سکریٹری احمد شیخ کے مطابق خاتون ملازمین‎کوخاتون ڈاکٹر کے ذریعے معائنے کے دوران حالت حمل سے متعلق بےتکے سوالوں کا سامناکرنا پڑا۔انہوں نے کہا، ‘ ڈاکٹروں کو جانچ‌کے دوران حالت حمل سے متعلق ذاتی سوال پوچھنا بند کرنا چاہیے۔ اتناہی نہیں گروپ میں موجود غیر شادی شدہ خواتین کوبھی ان معائنے سے گزرنا پڑا جو یہ دیکھنے کے لئے تھے کہ وہ حاملہ ہیں یا نہیں۔ ‘

امر اجالا کے مطابق سینئر کارپوریشن ملازم نے بتایا کہ خاتون ملازمین‎کوایک کمرے میں ایک ساتھ ننگا کھڑے ہونے کے لئے مجبور کیا گیا، جہاں کوئی پرائیویسی نہیں تھی۔ دروازہ ٹھیک طرح سے بند نہیں تھا اور صرف پردے لگے ہوئے تھے۔ غیر شادی شدہ خواتین سے بھی مبینہ طور پر پوچھا گیا کہ کیا وہ کبھی حاملہ ہوئی تھیں۔کچھ خواتین نے الزام لگایا ہے کہ خاتون ڈاکٹر، جنہوں نےگائناکولاجی سے متعلق ٹیسٹ کئے، وہ ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہی تھیں۔ وہیں مردٹرینی  کو ایک عام فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے جس میں ایک مجموعی تفتیش کے علاوہ آنکھ، ای این ٹی، دل اور پھیپھڑے کے معائنہ شامل ہوتے ہیں۔

سورت کے میئر جگدیش پٹیل نے قصورواروں کے خلاف سخت کاروائی کابھروسہ دیا ہے۔ پٹیل نے کہا، ‘یہ معاملہ بےحد سنگین ہے۔ اگر خاتون ملازمین‎کےذریعے لگائے گئے الزام صحیح پائے گئے تو ہم قصورواروں کے خلاف سخت کاروائی کریں‌گے۔ ‘

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)