گجرات کانگریس کے مطابق یہ بھرتی گھوٹالے سرکار کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے قریبی اسیت وورا کو ایک بدنام زمانہ گھوٹالہ کے بعد سلیکشن بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اسی طرح پیپر لیک معاملے میں جو پرنٹنگ پریس سرخیوں میں تھی، اس نے کبھی مودی کی کتاب بھی چھاپی تھی۔
نئی دہلی: بی جے پی کے انتخابی منشور میں مودی کی ایک گارنٹی ہے کہ ‘ہم نے سرکاری بھرتی کے امتحانات میں بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے سخت قانون بنایا ہے۔ اب، ہم اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کر کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں گے۔’ اس سے ٹھیک پہلے، فروری 2024 میں مرکزی حکومت نے ‘پبلک اگزامینیشن (پریونشن آف ان فیئر مینس) بل یعنی عوامی امتحانات (غیر منصفانہ طریقوں کی روک تھام) بل، 2024’ پاس کیا تھا۔
یہ قانون ملک بھر میں نوجوانوں کے ساتھ ہونے والے فراڈ کی آئینہ دار ہے۔ پیپر لیک کے باعث نہ صرف امتحانات رد ہوتے ہیں بلکہ بے شمار امیدواروں کی امیدیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی حالیہ رپورٹ کہتی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں پیپر لیک کی وجہ سے 15 ریاستوں میں 41 بھرتی امتحانات رد کیے گئے، جس کی وجہ سے 1.4 کروڑ امیدواروں کو گہرا صدمہ لگا۔
اتر پردیش اور بہار جیسی ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں یہ واقعات عوامی حافظے کا حصہ بن گئے ہیں، لیکن بی جے پی کی ‘ماڈل’ ریاست گجرات میں صورت حال اتنی ہی بدتر ہے۔ دی وائر کی یہ سیریز سرکاری بھرتیوں میں ہو رہے گھوٹالوں پر مرکوز ہے۔پہلی قسط گجرات سے؛
گیارہ پولیس کیس، 201 ملزم، سلیکشن بورڈ کے چیئرمین کا استعفیٰ
بی جے پی مقتدرہ گجرات نے فروری 2023 میں سرکاری بھرتی امتحانات کے پیپر لیک کے لیے ایک بل منظور کیا تھا ۔ اس قانون میں پیپر لیک کے ‘منظم جرم’ کے لیے زیادہ سے زیادہ 10 سال قید اور کم از کم 1 کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا اہتمام کیا گیا۔ ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے ریاستی وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے اعتراف کیا تھا کہ ریاست میں پچھلے 11 سالوں میں پیپر لیک کے 11 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں 201 ملزمین کے خلاف 11 مقدمات درج کیے گئے اور 10 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی۔
سنگھوی نے یہ نہیں بتایا کہ گجرات میں پیپر لیک کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بی جے پی کی حکومت سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ کڑیاں دو اہم جگہوں پر آکر ملتی ہیں – گجرات سب آرڈینیٹ سروس سلیکشن بورڈ (جی ایس ایس ایس بی)، وہ ادارہ جو تمام سرکاری بھرتیوں کے لیے امتحانات کا انعقاد کرتا ہے، اور احمد آبادکی سوریہ آفسیٹ پرنٹنگ پریس جہاں کئی پیپر لیک ہونے کا الزام ہے۔
سال 2021 کا ہیڈ کلرک پیپر لیک کیس گزشتہ دہائی میں گجرات کا سب سے بدنام بھرتی گھوٹالہ ہے۔ اس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ریاست گیر احتجاج کے بعد اس وقت کے جی ایس ایس ایس بی کے چیئر مین اور بی جے پی لیڈر اسیت وورا کو استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔
کیا تھا معاملہ؟
سال 2021 میں گجرات سب آرڈینیٹ سلیکشن بورڈ (جی ایس ایس ایس بی) نے ہیڈ کلرک کی 186 سیٹوں کے لیے بھرتی کا اعلان کیا تھا۔ یہ امتحان 12 دسمبر 2021 کو ریاست کے تقریباً 700 مراکز پر منعقد کیا گیا تھا، جس میں 88000 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ جب پتہ چلا کہ امتحان سے پہلے ہی 10-15 لاکھ روپے میں پیپر لیک کر دیے گئے تو امتحان رد کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق، یہ پیپر احمد آباد کے سوریہ آفسیٹ پرنٹنگ پریس سے لیک ہوا تھا، جس کے ساتھ جی ایس ایس ایس بی نے پیپرشائع کرنے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔
اس معاملے میں گجرات پولیس نے 30 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور 9 مارچ 2022 کو 14000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کی تھی ۔ پولیس نے پرنٹنگ پریس کے سپروائزر کشور آچاریہ کو کلیدی ملزم بنایا تھا، جس نے پولیس کے مطابق پیپر لیک کو انجام دیا تھا۔ اس معاملے میں پرنٹنگ پریس کے مالک مدریش پروہت سے بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی، لیکن انہیں دسمبر 2021 میں پیشگی ضمانت مل گئی تھی ۔
اس لیک کے خلاف ریاست گیر تحریک کے دوران امیدوار پوچھ رہے تھے کہ سوریہ پرنٹنگ پریس کی قلعہ نما عمارت سے پرچے باہر کیسے آ سکتے ہیں؟
یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں چل رہا ہے۔
پہلے بھی آیا تھا سوریہ پریس کا نام
سوریہ پریس کا نام پہلے بھی پیپر لیک کے معاملوں سے جڑ چکا ہے۔ گجرات یونیورسٹی کی جانب سےسوریہ پریس کو بلیک لسٹ کرنے کی خبریں بھی آئی تھیں۔ ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے کہا تھا، ‘2004-05 میں پیپر لیک گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد سے پرنٹنگ پریس کو گجرات یونیورسٹی نے بلیک لسٹ کر دیا۔ تفتیشی ٹیم نے اس وقت مبینہ لیک میں پرنٹنگ پریس کے کردار کی جانب اشارہ کیا تھا۔ پرنٹنگ پریس کے پروموٹرمیں سے ایک کو پیپر لیک گھوٹالے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لیے جیل بھی ہوئی تھی۔’
گجرات یونیورسٹی کے علاوہ سوراشٹر یونیورسٹی میں دسمبر 2021 کے پیپر لیک کیس سے بھی سوریہ آفسیٹ کا نام جوڑا گیا تھا۔ محکمہ تعلیم کے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ پریس پانچ یونیورسٹیوں کے پیپر شائع کرتی تھی۔
گجرات کانگریس الزام لگاتی رہی ہے کہ مدریش پروہت کے آر ایس ایس اور بی جے پی سے تعلقات ہیں۔
غور طلب ہے کہ نریندر مودی کی 1978 میں ایمرجنسی پر گجراتی میں لکھی گئی کتاب ‘سنگھرش ما گجرات’ امیج پبلی کیشنز نے شائع کی تھی اور یہ کتاب سوریہ آفسیٹ نے چھاپی تھی۔ نریندر مودی کی ویب سائٹ پر دستیاب ‘سنگھرش ما گجرات’ کے پی ڈی ایف ورژن سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن جنوری 1978 میں، اگلا اسی سال مارچ میں، تیسرا ستمبر 2000 میں اور چوتھا ایڈیشن مارچ 2008 میں شائع ہوا تھا۔
جب دی وائر نے ہیڈ کلرک پیپر لیک کیس کے سلسلے میں پرنٹنگ پریس کے مالک مدریش پروہت سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ‘ہماری کمپنی اس میں ملوث نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری کمپنی کے ایک سینئر شخص کشور آچاریہ کو پولیس نے پکڑا تھا۔ ان کا نام چارج شیٹ میں ہے۔ وہ ابھی بھی جیل میں ہیں۔ وہ ہماری کمپنی میں 30 سال سے کام کر رہے تھے۔’
پولیس کی طرف سے ہوئی پوچھ گچھ پر پروہت نے کہا، ‘ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس نے ہم سے جو بھی پوچھا، ہم نے بتایا۔ وہ ملازمین کی فہرست چاہتے تھے۔ ہم نے دی۔ اسی سے انہوں نے کشور آچاریہ کی پہچان کی۔’
پیشگی ضمانت لینے کے معاملے پر سوریہ آفسیٹ کے مالک نے کہا، ‘(ہمیں) اندیشہ تھا کہ پولیس کہیں ہمیں بھی حراست نہ لے، اس لیے میں نے ہائی کورٹ میں پیشگی ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کی سماعت میں پولیس سے پوچھا گیا تھا کہ اس میں کمپنی مالک کا کیا رول ہے؟ پولیس نے میرا کوئی رول نہیں بتایا۔ اس کے بعد عدالت نے پیشگی ضمانت والے کیس کو ختم کر دیا اور کہا کہ ان کوپیشگی ضمانت کی ضرورت نہیں ہے۔پولیس کو جب بھی ضرورت ہو پوچھ گچھ کر سکتی ہے۔’
پروہت نے مزید کہا، ‘ہم 2006 سے بھرتی امتحانات کے پرچے چھاپ رہے ہیں۔ اس طرح کے کام کے لیے وہ لوگ (سلیکشن بورڈ والے) ٹینڈر طلب کرتے ہیں۔ پھر فیصلہ کرتے ہیں۔’
پروہت نے دعویٰ کیا کہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہیں اور سنگھ سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پروہت نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ جی یو نے سوریہ آفسیٹ کو بلیک لسٹ کیا ہے۔ ‘انہوں نے ہمیں کبھی بلیک لسٹ نہیں کیا۔ ان کے ساتھ ہمارا الگ جھگڑا تھا۔ اس کا پیپر لیک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہیں لگا کہ ہم کانٹریکٹ سے زیادہ پیسے لے کر پیپر چھاپ رہے ہیں اور انہیں لوٹ رہے ہیں۔ معاہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے بعد معاملہ عدالت میں گیا۔ تین ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں ٹریبونل نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔ یونیورسٹی نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ ہائی کورٹ میں ابھی بھی کیس چل رہا ہے۔’
غور طلب ہے کہ گجرات کی کئی میڈیا خبریں یہ نشان زد کرتی ہیں کہ سوریہ پریس کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا، اور پروہت خود تسلیم کرتے ہیں کہ گجرات یونیورسٹی اور سوریہ نے تعلیمی سال 2004-5 کے بعد ایک ساتھ کام نہیں کیا ۔ ‘ہم نے گجرات یونیورسٹی کے ساتھ 25 سال تک کام کیا۔ لیکن اس کیس کے بعد ہم نے ان کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا کیونکہ جن کےساتھ آپ اچھی طرح سے کام کر رہے ہو اور پھر غلط الزام لگے، تو یہ صحیح نہیں تھا،’ پروہت کہتے ہیں۔
پروہت سوراشٹرا یونیورسٹی کے پیپر لیک کی بات کو قبول کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس میں ان کے پریس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ یونیورسٹی سے پیپر لیک ہوا تھا۔ اس معاملے میں دوسرے لوگ گرفتار ہوئے تھے۔
نریندر مودی کی کتاب کی چھپائی پر انہوں نے کہا، ‘مجھ سے امیج پبلی کیشنز نے رابطہ کیا تھا، جن کے مالکان سے میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ میری نریندر مودی سے براہ راست کوئی شناسائی نہیں ہے۔’
گجرات کے بہت سے لوگ سوریہ پریس کی جانب سے پیش کی گئی وضاحت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ پیپر لیک کے خلاف ہونے والی تحریکوں کا نمایاں چہرہ رہے یووراج سنگھ جڈیجہ نے دی وائر کو بتایا، ‘پیپر لیک کا سلسلہ اس لیے نہیں رک رہا ہے کیونکہ پچھلے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی اور سلیکشن بورڈ نے اسی پرنٹنگ پریس کو سوالنامہ چھاپنے کے لیے دیا ، جسے برسوں پہلے پیپر لیک کے معاملے میں بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔’
سلیکشن بورڈ اور بی جے پی
گجرات سب آرڈینیٹ سروس سلیکشن بورڈ کا ذکر کرتے ہوئے ایک نمایاں نام جو سامنے آتا ہے وہ اس کے سابق چیئرمین اسیت وورا کا ہے۔ ان کے چار سال (2019-2022) کے دور میں بھرتی کے دو بڑے امتحانات کے پیپر لیک ہو ئے تھے۔ ان کے لیے 15 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں نے درخواست دی تھی اور 12 لاکھ امیدوار امتحان میں شریک ہوئے تھے۔ وورا کے دور میں 61 مزید الزامات لگے جن میں امتحان کے نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزام بھی شامل تھے ۔ اس کے باوجود انہیں دوسری میعاد بھی دی گئی جو کہ فروری 2022 میں ہیڈ کلرک پیپر لیک کیس پر استعفیٰ دینے کے ساتھ ختم ہوئی۔
اسیت وورا کون ہیں؟ اکتوبر 2010 میں جب وہ احمد آباد کے میئر منتخب ہوئے تھے تو گجرات کی مشہور نیوز ویب سائٹ ‘دیش گجرات’ نے لکھا تھا- نریندر مودی کے آدمی اسیت وورا بنے احمد آباد کے نئے میئر۔
احمد آباد کے میئر منتخب ہونے سے پہلے وورا اے ایم سی (احمد آباد میونسپل کارپوریشن) کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے، اور اس سے پہلے وہ منی نگر سے پانچ بار بی جے پی کے کونسلر رہ چکے تھے۔ نریندر مودی نے گجرات فسادات کے بعد اپنا پہلا الیکشن منی نگر اسمبلی حلقہ سے لڑا تھا اور 2012 تک اس حلقے کی نمائندگی کی ۔
وزیر اعلیٰ کے طور پر، مودی نے منی نگر کی کانکریا جھیل کو ترقی دینے کا کام اس وقت کے میئر اسیت وورا کو سونپا تھا ۔ یہ جھیل مودی کے ‘گجرات ماڈل’ کے ابتدائی کاموں میں سے ایک تھی۔ وورا کے فیس بک پروفائل پر کانکریا جھیل کی تصویر اب بھی نظر آتی ہے۔ 2012 میں آخری بار ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد مودی نے منی نگر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا تو اسیت وورا اسٹیج پر موجود تھے۔ مودی نے انہیں ‘اسیت بھائی’ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے ان کا بھی شکریہ ادا کیا تھا ۔
بے حساب پیپر لیک
کانگریس کے ترجمان منیش دوشی کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں سرکاری نوکری سے متعلق 14 امتحانات کے پیپر لیک ہوئے ہیں؛
سال 2013: جی پی ایس سی چیف آفیسر بھرتی امتحان
سال 2015: پٹواری بھرتی امتحان
سال 2016: گاندھی نگر، موڈاسا، سریندر نگر ضلع میں ضلع پنچایت کے ذریعے منعقد پٹواری بھرتی امتحان
سال 2018: ٹی اے ٹی-ٹیچر امتحان
سال 2018: مکھیہ سیویکا امتحان
سال 2018: نایاب چٹنس امتحان
سال 2018: ایل آر ڈی لوک رکشک دل
سال 2019: نان سیکرٹریٹ کلرک
سال 2020: سرکاری بھرتی کے امتحانات (کورونا پیریڈ)
سال 2021: ہیڈ کلرک
سال 2021: ڈی جی وی سی ایل الیکٹریکل اسسٹنٹ
سال 2021: سب آڈیٹر
سال 2022: فاریسٹ گارڈ
سال 2023: جونیئر کلرک
دی وائر نے گجرات میں بھرتی کے کچھ بڑے گھوٹالوں کی چھان بین کی۔
جی پی ایس سی چیف آفیسر بھرتی امتحان
گجرات پبلک سروس کمیشن (جی پی ایس سی) چیف آفیسر (میونسپل کارپوریشن) کے کلاس تھری کی 30 آسامیوں کے لیے اگست 2013 میں اشتہار (اشتہار نمبر 25/2013-14) دیا تھا۔ اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ دو امتحانات لیے جائیں گے۔ دونوں امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے گا۔
تیس سیٹ کے لیے 80 ہزار سے زائد امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ الزام لگا کہ امتحان کا پیپر لیک ہو گیا۔ لیک کا پتہ امتحان کے بعد ایک امیدوار کے ذریعے چلا ۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے اس معاملے میں دو لوگوں — بھوول چودھری اور دلیپ چودھری کوگرفتار کیا تھا۔
تفتیش کاروں نے کہا، ‘دلیپ ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ ہے اور علاقے میں ایک فائنانس کمپنی کا ریکوری ایجنٹ بھی ہے۔ اس نے 70 ہزار روپے میں پیپر خریدنے کی بات قبول کی ہے۔ اس نے یہ کاپیاں بھووال سمیت کئی لوگوں کو 40000 روپے میں فروخت کیں ۔’
پٹواری بھرتی امتحان
‘گجرات پنچایت سروس سلیکشن بورڈ’ (جی پی ایس ایس بی) نے 6 جون 2015 کو سات اضلاع (جکوٹ، بھاؤ نگر، جام نگر، پوربندر، امریلی، گاندھی نگر اور سابر کانٹھا) میں گریڈ-III کے ملازمین کے انتخاب کے لیے تحریری امتحان منعقد کیا تھا۔ الزام لگا کہ امتحان سے قبل سابرکانٹھا میں پیپر لیک ہوگیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تحریری امتحان کے چند دن بعد راجکوٹ ضلع پنچایت کو ایک گمنام خط موصول ہوا جس میں الزام لگایا گیا کہ راجکوٹ میں بھی پیپر لیک ہوا تھا۔ راجکوٹ ضلع پنچایت کے عہدیداروں نے 23 جولائی کو سٹی پولیس کمشنر کو ایک خط بھیج کر مناسب کارروائی کی درخواست کی۔
پولیس رپورٹ درج ہونے کے بعد ریاستی حکومت نے 4 اگست 2015 کو امتحان رد کر دیا۔ اس کے بعد 16 اگست کو امریلی اور بھاؤ نگر میں اور دیگر باقی اضلاع میں 23 اگست کو دوبارہ امتحان لیا گیا۔
ٹی اےٹی ٹیچر امتحان
ریاستی اگزامینیشن بورڈ نے 29 جولائی 2018 کو ٹیچرس اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ (ٹی اے ٹی) کا انعقاد کیا تھا۔ تقریباً 1.47 لاکھ امیدواروں نے امتحان میں شرکت کی تھی۔ لیکن سوشل میڈیا پر پیپر لیک ہونے کی وجہ سے ریاستی حکومت کو امتحان رد کرنا پڑا۔ پرائمری اسکول ٹیچر کی نوکری کے لیے ٹی اے ٹی کا امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔
بورڈ نے جنوری 2019 میں دوبارہ امتحان کا انعقاد کیا۔ اس بار بھی پیپر لیک ہونے کے الزامات لگے ۔ پولیس نے جام نگر کے سرو سیکشن روڈ پر واقع ستیہ سائیں اسکول کے امتحانی مرکز میں تعینات سپروائزر منیش بچ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق بچ ایک پرائیویٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔
جونیئر کلرک امتحان
گجرات پنچایت سروس سلیکشن بورڈ (جی پی ایس ایس بی) نے 29 جنوری 2023 کو 1181 جونیئر کلرکوں کی بھرتی کے لیے امتحان کا انعقاد کیا تھا۔ لیکن پیپر لیک ہونے کی وجہ سے امتحان کورد کرنا پڑا۔ ریاست بھر میں 2995 مراکز پر منعقد ہونے والے امتحان کے لیے کل 9.5 لاکھ امیدواروں نے درخواست دی تھی۔
حکومت کی یقین دہانی کے مطابق، رد کیاگیا اگزام 100 دنوں کے اندر دوبارہ منعقد کرایا گیا۔ امتحان کے نتائج اگست 2023 میں آئے ۔
پریشان امیدوار
جونیئر کلرک کے امتحان میں شریک ہونے والے دلیپ سنگھ راجپوت نے دی وائر سے بات چیت میں کہا، ‘حکومت کے پاس ہر چیز کا شیڈول ہے لیکن امتحان لینے اور جوائن کروانے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔ حکومت جب چاہے، دو سال، تین سال، چار سال، پانچ سال میں اشتہارات جاری کر دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ معلوم نہیں ہے کہ امتحان دو ماہ میں ہوگا یا چار ماہ میں۔ اس کے بعد پیپر لیک کا خدشہ بھی رہتا ہے۔’
دلیپ سنگھ مثال دیتے ہیں کہ گجرات میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے حکومت نے پانچ سال بعد 2023 میں امتحان لیا۔ امتحان کے نتائج بھی آ گئے، لوگ پاس ہو کر ایک سال سے بیٹھے ہیں، جوائننگ نہیں ہوئی ہے۔
ایک اور امیدوار پروین سنگھ جڈیجہ نے دی وائر کو بتایا کہ نیا قانون بنانے اور آن لائن امتحان کرانے سے بھی دھاندلی نہیں رکی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ‘قانون بننے کے بعد دو پیپر لیک ہوگئے ہیں۔ نیا قانون این ای ای ٹی کے پیپر اور راجکوٹ میں ہوئے امتحانات میں کام نہیں آیا۔’
چھوٹا ادے پور کے رہنے والے پروین نے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری ترک کر دی ہے۔ ‘گاؤں سے گاندھی نگر آنے اور تیاری میں پندرہ ہزار روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ ہم کڑی محنت سے تیاری کرتے ہیں اور پیپر دینے کے لیے 200 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ پیپر لیک ہوگیا ۔ کیا فائدہ ایسی تیاری کرنے کا؟’
قابل ذکر ہے کہ گجرات میں طلباء میں خودکشی کے واقعات میں تین سالوں (2020-21 سے 2022-23) میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ اسکول اور یونیورسٹیوں کے کل 495 طلباء نے ایک اپریل 2020 سے 31 مارچ 2023 کے درمیان اپنی جان لے لی تھی۔ ان میں سے پچاس فیصد یعنی 246 لڑکیاں تھیں۔
بھاؤ نگر کی رہنے والی جیوتی (21) نے فروری 2023 میں جونیئر کلرک کا پیپر لیک ہونے کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ گجراتی نیوز ویب سائٹ سندیش پر شائع خبر کے مطابق ، جیوتی دو سال سے سرکاری نوکری کے لیےامتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ لیکن پیپر رد ہونے سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اس نے زہریلی دوا پی لی۔
اپریل 2024 میں سورت ضلع کی منجیتا (21 سال) نے تمام کوششوں کے باوجود سرکاری نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرلی تھی۔
فروری 2024 میں سریندر نگر کے منیش (30 سال) نے مسابقتی امتحانات میں بار بار ناکامی کی وجہ سے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی۔ منیش پانچ سال سے سرکاری نوکری کے لیے سخت محنت کر رہا تھا۔
اپریل 2023 میں وکاں نیر کے اجئے نے خودکشی کر لی کیونکہ وہ جونیئر کلرک کا امتحان پاس نہیں کر سکا تھا اور اسے ڈر تھا کہ اسے سرکاری نوکری نہیں ملے گی۔
‘سرکار کی سرپرستی میں چل رہی ہے دھاندلی’
گجرات کانگریس کے ترجمان ڈاکٹر منیش دوشی کا کہنا ہے کہ پیپر لیک پر ریاستی حکومت کا قانون صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دوشی نے کہا، ‘جب پیپر لیک کے معاملے میں اضافہ ہوا اور ریاستی لاء کمیشن نے نوٹس لیا، تب حکومت نے پیپر لیک کے معاملے میں صرف چھوٹی مچھلیوں کو پکڑا، اورمگرمچھ کو نہ صرف چھوڑ دیا ہے ، بلکہ ریاستی سرپرستی بھی دی۔’
دوشی کا کہنا ہے کہ پیپر لیک گجرات میں ایک منظم جرم بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘جیسے ہی (نوکریوں کے لیے) اشتہار آتا ہے، اس کی قیمت طے ہو جاتی ہے۔ٹی اے ٹی کی قیمت سات سے دس لاکھ روپے ہے۔ پٹواری کی قیمت پندرہ لاکھ روپے ہے۔’
دی وائر نے پیپر لیک معاملے پر جی ایس ایس ایس بی سکریٹری ہس مکھ پٹیل سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ‘میں 10 سال کے بارے میں نہیں جانتا، لیکن پچھلے چار پانچ سالوں کے مقدمات ابھی عدالتوں میں ہیں۔ کچھ ملزمان نے ضمانتیں بھی لےلی ہیں۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ سلیکشن بورڈ نے ہیڈ کلرک کی بھرتی کے امتحان کا پرچہ پرنٹنگ کے لیے بلیک لسٹڈ پریس کو کیوں دیا، تو انھوں نے کہا، ‘اس لیک میں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔ پریس سے پیپر لیک نہیں ہوا۔ نقل و حمل کے دوران لیک ہوا ہوگا۔سوریہ آفسیٹ بلیک لسٹ میں کبھی تھا ہی نہیں۔ … (سوریہ آفسیٹ کے) ایک ملازم کو گرفتار تو کیا گیا تھا۔ لیکن اسے ضمانت مل گئی تھی۔’
بی جے پی نے کیا انکار
دی وائر سے بات کرتے ہوئے گجرات بی جے پی کے چیف ترجمان یمل ویاس نے اس بات کی تردید کی کہ بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگ پیپر لیک کے معاملات سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوریہ آفسیٹ پرنٹنگ پریس کے مالک مدریش پروہت سے بی جے پی کے تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔’
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نئے قانون سے پیپر لیک کے معاملے رکیں گے۔ انہوں نے کہا، ‘گجرات میں تمام امتحانات کو سی سی ٹی وی کے ذریعے کور کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ قانونی کارروائی جاری ہے۔ ان معاملات میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔’