گزشتہ 30 سالوں میں یہ شدید ترین قحط ہے۔ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے خاطر خواہ کام کئے جا رہے ہیں لیکن ان علاقوں میں زندگی اب بھی عذاب بنی ہوئی ہے۔
کچھ کے نکھترانا علاقے میں سرسوں کا کھیت۔ بارش کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر فصلیں برباد ہو گئی ہیں۔ (تمام فوٹو : کبیر اگروال /دی وائر)
کچھ/بناس کانٹھا: کچھ اور شمالی گجرات میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر تین سے چار سال میں سوکھا عام بات ہے لیکن ان دونوں خشک علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے اس طرح سے گزر بسر کرنا سیکھ لیا ہے، حالاں کہ اس سال کی صورت حال سنگین ہے۔حکومت بھی
یہ مانتی ہے کہ ریاست میں موجودہ سوکھے کی حالت گزشتہ 30 سالوں میں سب سے خراب ہے۔ مانسون کے دوران کچھ کے حصوں میں صرف 12 میلی میٹر بارش ہوئی۔ اگر موازنہ کریں تو اسی اپریل میں پنجاب میں اس سے کہیں زیادہ بنا
مانسون کی بارش ہو چکی ہے۔سوکھے کی وجہ سے مویشیوں کے کھانے کے لئے تھوڑی-بہت ہی قدرتی گھاس دستیاب ہے۔ اس سے ان علاقوں کی معیشت متاثر ہوئی ہے، زیادہ تر آبادی روزی روٹی کے لئے اپنے مویشیوں پر منحصر ہے۔
ہزاروں لوگ گجرات کے دیگر حصوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ گاؤں میں پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے، یہاں کے مقامی لوگوں کو پائپ لائن سے پانی کی سپلائی کے لئے کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور جہاں پائپ لائن نہیں ہے، وہاں ٹینکرس سے پانی کی سپلائی کی جاتی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے خاطر خواہ کام کئے جا رہے ہیں لیکن ان علاقوں میں زندگی اب بھی جیوں کی تیوں بنی ہوئی ہے۔
کچھ-لکھ پت کے دور درازگاؤں بیکھرا میں پائپ لائن کے بغل میں پانی بھرنے کے لئے رکھے گئے برتن۔ گاؤں میں گزشتہ10 دنوں سے پائپ لائن سے پانی نہیں آیا ہے۔
بھج سے 80 کلومیٹر شمال میں کھاوڑا کے پاس ایک خالی باندھ۔ کچھ میں 23 باندھوں میں سے صرف تین میں ہی پانی ہے۔ حالانکہ، انتظامیہ مطمئن ہے کہ جولائی تک ضلع کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خاطر خواہ پانی ہے۔
بنی علاقے میں زیادہ تر ملہاری ہیں، جو ایک نصف خانہ بدوش دیہاتی کمیونٹی ہے،یہ روزی روٹی کے لئے تقریباً پوری طرح سے مویشیوں پر منحصر ہیں۔ بارش کی کمی کی وجہ سے ان کے مویشی چارے اور پانی کی کمی کی مار جھیل رہے ہیں۔
حکومت کی مدد سے غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے ضلع میں 400 سے زیادہ مویشی کیمپ لگائے گئے ہیں، جہاں مویشیوں کے لئے چارہ دستیاب ہے۔
پائپ لائن کے ذریعے تین تالابوں میں پانی جمع ہے۔ پانی کے ٹینکروں سے ان بستیوں میں سپلائی ہوتی ہے، جہاں پانی کی پائپ لائن نہیں ہے لیکن مقامی لوگوں کی شکایت ہے کہ پائپ لائن اور ٹینکر کی سپلائی ناکافی ہے۔
سوکھے کی وجہ سے کچھ سے کئی ہزار لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ جیسےجیسے پانی کی کمی ہوتی ہے، جو لوگ اہل ہوتے ہیں، وہ کچھ کے مشرقی حصوں یا احمد آباد ضلع کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ حالانکہ، انتظامیہ کو ابھی واضح طور پر نہیں پتہ ہے کہ سوکھے کی وجہ سے کتنے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
بھج کے شمال میں بنی علاقے میں تقریباً 1500 کی آبادی والی بستی ناناساردا میں صرف کچھ ہی فیملی بچی ہیں۔
کچھ میں صدیوں سے پانی جمع کرنے کا روایتی نظام ‘ویردا’ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے گڈھے کھودکر ‘ویردا’بنائے جاتے ہیں۔
یہاں خواتین’ویردا’سے پانی لے جا رہی ہیں۔ کچھ میں بھی زیادہ تر دیہی ہندوستان کی طرح پانی لانا بنیادی طور پر خواتین کا ہی کام ہے۔ جیسےجیسے موسم بدلتا ہے، ویردا میں پانی کی سطح گھٹتی ہے اور پانی تیزی سے کھارا ہونے لگتا ہے۔
بنی علاقے میں 6 سال کا بچہ اپنے گاؤں میں کھڑا ہے۔ بنی کے گھاس کے میدان کو کبھی ایشیا کا سب سے بہترین گھاس کا میدان کہا جاتا تھا، جہاں 200 قسم کی نباتات ہوتی تھیں۔ لیکن گزشتہ کئی سالوں میں اس میں تیزی سے کمی آئی ہے، حالانکہ اب بھی اچھا مانسون ہو، تو تقریباً 30 قسم کی نباتات ہوتی ہیں۔ موجودہ وقت میں یہ دیکھنے میں ریگستان جیسا لگتا ہے۔
10 دن کے انتظار کے بعد بیکھرا کی پائپ لائنوں میں پانی آیا۔ حالانکہ، پمپنگ اسٹیشن سے پانی چھوڑنے کے دوران اس میں رکاوٹ بھی آئی۔ خوش قسمتی سے پانی کی سپلائی مسدود ہونے سے پہلے ہی پائپ لائن درست کر دی گئی۔
شمالی گجرات کے بناس کانٹھا ضلع میں ایک سوکھا میدان۔ ضلع میں گزشتہ 30 سالوں میں اوسطاً 33 فیصد بارش ہی ہوئی ہے۔