یہ معاملہ گجرات کے بوتاد ضلع کا ہے۔ مرنے والے کی بیوی گاؤں کی سرپنچ ہیں۔ مرنے والے کے بیٹے نے بتایا کہ گاؤں کے اشرافیہ کے کچھ لوگ اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے تھے کہ دلت گاؤں کے سرپنچ بن رہے ہیں۔
نئی دہلی: گجرات کے بوتاد ضلع کے ایک گاؤں کے نائب سرپنچ کا 6 لوگوں نے لاٹھیوں اور لوہے کے پائپ سے مبینہ طور پر پیٹ پیٹ کر بدھ کو قتل کر دیا۔یہ واقعہ اس وقت ہوا جب متاثرہ اپنی موٹرسائیکل سے رنپور-بروالا سڑک سے گزر رہے تھے۔ پولیس نے یہ جانکاری دی۔غور طلب ہے کہ مرنے والے کی بیوی گاؤں کی سرپنچ ہیں۔
مرنے سے پہلے متاثرہ مان جی بھائی سولنکی نے اپنے ایک رشتہ دار کو فون پر دئے گئے بیان میں دعویٰ کیا کہ پہلے ان کی بائیک میں ایک کار نے ٹکر مار دی اور اس کے بعد اس کار میں سوار پانچ سے چھ لوگوں نے ان کی جم کر پٹائی کی تھی۔الزام ہے کہ حملہ آور اشرافیہ کی شتریہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سولنکی کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا ہے جس میں وہ تقریباً بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔
کچھ دن پہلے ہی متاثرہ اور ان کی بیوی نے پولیس سے تحفظ مانگا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گاؤں کے نائب سرپنچ مان جی بھائی سولنکی نے اپنے تحفظ کے لئے دو ہفتے پہلے پولیس کو ایک خط بھی لکھا تھا۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں مان جی بھائی کے بیٹے تشار سولنکی نے بتایا کہ بوتاد ضلع کے رنپور تعلقہ کے جلیلا گاؤں کے پاس مان جی بھائی کی بائیک کو ایک کار نے ٹکر ماری تھی اور کار میں بیٹھے پانچ سے چھ لوگوں نے ان کو لاٹھیوں اور لوہے کے پائپ سے بری طرح سے پیٹا۔ احمد آباد کے ایک ہاسپٹل لے جاتے وقت ان کی موت ہو گئی۔
پولیس کے مطابق، واقعہ بروالا-رنپور اسٹیٹ ہائی وے پر جلیلا گاؤں سے تقریباً 1.5 کلومیٹر دور دن میں دو بجے ہوا۔ مان جی بھائی چرنکی گاؤں سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے، جو کہ ان کے گھر سے پانچ کلومیٹر دور ہے۔بوتاد کے ڈپٹی ایس پی آر این نکم نے بتایا، ‘ ہم نے جانکاری اکٹھا کرنے کے لئے ایک پولیس ٹیم احمد آباد بھیجی ہے۔ جائے واردات کی تفتیش سے پہلی نظر میں ایسا پتا چلتا ہے کہ متاثرہ کی فیملی نے جو کہا ہے، وہ صحیح ہے۔ ‘
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں بوتاد ایس پی ہرشد مہتہ نے بتایا، ‘ 6 جون کو مان جی بھائی ان کے دفتر آئے تھے۔ انہوں نے اپنے لئے نجی سکیورٹی گارڈ کی مانگ کی تھی، حالانکہ بدھ تک ان کو پولیس سکیورٹی مہیا نہیں کرائی جا سکی تھا۔ ‘رپورٹ کے مطابق، گجرات کے سوراشٹر علاقے میں ایک مہینے کے اندر یہ تیسرا واقعہ ہے جب کسی دلت کا قتل کیا گیا اور اس میں مبینہ طور پر اشرافیہ لوگوں کا نام آیا ہے۔
مان جی بھائی کی فیملی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کئی بار پولیس سے تحفظ دینے کی مانگ کی تھی، لیکن کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ بدھ کو ہوئے حملے سے پہلے ان پر چاربار حملہ کیا جا چکا تھا۔ ان کے بیٹے تشار سولنکی نے بتایا کہ اس سے پہلے گزشتہ سال 3 مارچ کو ان کو چاقو مارا گیا تھا۔دلت حقوق کے لئے کام کرنے والے احمد آباد میں نوسرجن نامی این جی او کے اروند مکوانا نے بتایا کہ 2018 میں ہوئے حملے کے بعد ان کو پولیس تحفظ ملا، لیکن دو مہینے بعد 17 مئی 2018 کو تحفظ ہٹا لیا گیا۔
بوتاد ایس پی ہرشد مہتہ نے بتایا، ‘ مان جی بھائی پر سال 2010، 2011، 2016 اور 2018 میں حملہ ہو چکا تھا اور ہر حملے کے بارے میں پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ مان جی بھائی پر ہوئے حملوں میں جو حملہ آور شامل تھے، فیملی نے ان کے قتل کے لئے ان حملہ آوروں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ‘مہتہ نے مزید بتایا، ‘ ان تمام معاملوں میں ملزم ایک ہی ہیں۔ سال 2018 میں ہوئے مان جی بھائی پر حملے کے واقعہ میں شامل ان ملزمین کو ضمانت مل چکی تھی۔ ‘
مان جی بھائی کے بیٹے نے بتایا، ‘ پچھلے 20 سال سے میری فیملی کے لوگ گاؤں کے سرپنچ چنے جا رہے ہیں۔ ابھی میری ماں سرپنچ ہیں اور والد نائب سرپنچ تھے۔ سال 2010 سے میرے والد اور اشرافیہ کےکاٹھی دربار کمیونٹی کے لوگوں کے درمیان تنازعہ تھا۔ دربار کمیونٹی (شتریہ ) کے لوگ اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں کہ دلت گاؤں کے سر پنچ بن رہے ہیں۔’