یہ معاملہ کچھ ضلع کے مُندرا کے ایک پرائیویٹ اسکول کا ہے، جہاں عید کے موقع پر بھائی چارے کا پیغام دینے کے لیے طالبعلموں نے ایک ڈراماپیش کیا تھا۔ اس میں کچھ طالبعلموں نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی، جس کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد والدین اور دائیں بازو کی تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسکول میں ہنگامہ کیا تھا۔
نئی دہلی: عیدقرباں کے موقع پر بھائی چارے کا پیغام دینے کے لیے طالبعلموں نے ایک ڈراما پیش کیا تھا، اس پر تنازعہ ہونے کے بعد کچھ کے مُندرا شہر کے ایک نجی اسکول کے پرنسپل کوسسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد والدین اور دائیں بازو کی تنظیموں نے شدید احتجاج درج کرایا تھا،ویڈیومیں کچھ طالبعلموں کو ٹوپیاں پہنے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک خصوصی ٹیم کی ابتدائی تحقیقات کے بعد ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ آفیسر ایس کے پرجاپتی نے جمعہ کو پرل اسکول آف ایکسیلینس کی پرنسپل پریتی واسوانی کوسسپنڈکر دیا ہے۔ پرجاپتی نےبتایا، ’تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ ملنے کے بعد ہم آگے کی کارروائی پر غور کریں گے۔‘
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سنجے پرمار نے کہا، ہمیں سوشل میڈیا پر ویڈیو سےپتہ چلا کہ مختلف عقیدے کے طالبعلموں، جن میں کئی ہندو تھے، کو اس اسکول میں عید کی تقریبات میں حصہ لینے کو کہا گیا تھا۔ یہ ہندو مذہب کی توہین ہے اور قابل مذمت ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، پرمار نے یہ بھی کہا کہ ہندو طالبعلموں سے مسلمانوں کی ٹوپیاں پہننے کے لیے کہنا ایک ‘مذموم فعل’ تھا۔
کچھ کے ضلع ترقیاتی افسر (ڈی ڈی او) ایس کے پرجاپتی نے بھج میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسکول کے مالک سے رابطہ کیا گیا اور پرنسپل کو سسپنڈ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا،’ویڈیو کے بارے میں جو جانکاری ہمیں ملی ہے، اس کے مطابق مُندرا تعلقہ کے پرل اسکول میں عید منانے کے ویڈیو کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ میں نے اسے ڈسٹرکٹ پرائمری ایجوکیشن آفیسر (ڈی پی ای او) کے نوٹس میں لایا، جو انچارج ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بھی ہیں۔ انہوں نے فوراً تعلقہ ایجوکیشن آفیسرز کی ایک ٹیم بھیجی جس سے ہمیں تفصیلی رپورٹ ملے گی۔ اس کے علاوہ ہم نے فوراً اسکول چلانے والے شخص سے بھی رابطہ کیا اور اسکول پرنسپل کو فوری طور پر سسپنڈ کرنے کی ہدایت کی۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سنجے پرمار نے کہا، جب ہمیں جمعہ کی صبح تقریباً 11 بجے مبینہ ویڈیو کے بارے میں پتہ چلا تو ہم نے اسکول کے مالک عباسی صاحب سے پرنسپل کو سسپنڈ کرنے کو کہا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ‘کیااسکول نےاس سلسلے میں کسی خاص اصول کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے کہا،اسکول میں مسلمان اور ہندو دونوں طالبعلم ہیں۔ لیکن اگر اسکول ہندو طالبعلموں سے مسلمانوں کی ٹوپیاں پہننے کو کہتا ہے تو یہ ایک مذموم حرکت ہے۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دفتر کو جمعہ کی شام تک اسکول کے طالبعلموں یا ان کے والدین کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، اسکول نے یہ ویڈیو اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ہٹا دیا گیا۔
اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ڈرامے میں حصہ لینے والے زیادہ تر طالبعلموں کا تعلق اکثریتی کمیونٹی سے تھا اور ان کے والدین نے بچوں کو ٹوپی پہننے اور عید منانے پر مجبور کرنے پر اعتراض کیا۔
جمعہ کے روز والدین اور دائیں بازو کے کارکن سمیت تقریباً 250 لوگوں کی بھیڑ اسکول میں جمع ہوگئی اور ہنگامہ کیا۔
انتظامیہ اور والدین کے درمیان میٹنگ کے بعد اسکول نے عوامی طور پر معافی مانگی۔ تبصرے کے لیے پرنسپل واسوانی سے رابطہ نہیں ہو سکا، لیکن انہوں نے اسکول کے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے ڈرامے کے لیےمعافی مانگی ہے۔
انہوں نے کہا، ’28 جون کو ہم نے عید سے متعلق ایک سرگرمی کا اہتمام کیا۔ اس سے کچھ والدین اور تنظیموں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد کسی کوٹھیس پہنچانایا نقصان پہنچانا بالکل نہیں تھا۔ ہم نے یہ صرف تہوار کے لیے کیا تھا۔ اس کے باوجود اگر کسی کو تکلیف ہوئی ہے یا ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں اس کے لیےمعافی مانگتی ہوں اور یقین دلاتی ہوں کہ اب سے کسی بھی تنظیم یا والدین کے جذبات کو ٹھیس پہنچانےوالےپروگرام یا مقابلہ منعقد نہیں کیا جائے گا۔