گجرات فسادات کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے فسادات سے متاثرہ آٹھ اضلاع میں ذکیہ جعفری کے علاوہ 159 لوگوں کو دی گئی سیکورٹی واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں نرودا پاٹیا قتل عام کیس میں مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کو سزا سنانے والی ریٹائرڈ جج جیوتسنا یاگنک بھی شامل ہیں۔
گجرات فسادات کے دوران احمد آباد کی ایک تصویر۔(تصویر بہ شکریہ: وکی پیڈیا)
نئی دہلی: 2002 کے گجرات فسادات کے نو مقدمات کی دوبارہ تفتیش کر رہی سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مرکزی اور ریاستی حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ خطرے کے اندیشے کا جائزہ لینے کے بعد تمام گواہوں اور ریٹائرڈ جج جیوتسنا یاگنک سے پولیس اور پیرا ملٹری سیکورٹی واپس لے لی ہے۔
ایس آئی ٹی کے رکن اے کے ملہوترا نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا ، ‘ڈی جی پی (ڈائریکٹر جنرل آف پولیس) اور محکمہ داخلہ سمیت ہر سطح پر محتاط ہوکر غور و خوض کرنے کے بعد سیکورٹی واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پچھلے 15 سالوں میں (ایس آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سے) اب تک کسی گواہ پر حملہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو دھمکی دی گئی ہے۔’
عہدیداروں نے کہا کہ صرف ذکیہ جعفری، جنہوں نے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی، کو ایس آئی ٹی کی جانب سے سیکورٹی فراہم کی جارہی ہے۔ ذکیہ کانگریس ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ ہیں، جنہیں فسادات کے دوران گلبرگ سوسائٹی کے اندر 68 دیگر افراد کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔
گجرات حکومت اور ایس آئی ٹی نے ریاست کے آٹھ فسادات سے متاثرہ اضلاع میں 159 لوگوں کو سیکورٹی فراہم کی تھی۔ نرودا پاٹیا قتل عام کیس میں فیصلہ سنانے والی جج یاگنک اور جعفری کو سینٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) کی طرف سے سیکورٹی فراہم کی جا رہی تھی۔ جج یاگنک کو ملنے والی دھمکیوں کے پیش نظر گجرات پولیس کے اہلکار ان کی سکیورٹی کے لیے تعینات ہیں۔
ملہوترا نے کہا، ‘یہ گواہوں کے تحفظ کا پروگرام صرف گواہوں کے لیے تھا، ججوں یا وکیلوں کے لیے نہیں۔’
ایس آئی ٹی سپرنٹنڈنٹ بی سی سولنکی نے 13 دسمبر 2023 کو تمام ضلع اور شہر کے پولیس سربراہوں کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے دائرہ اختیار میں گواہوں سے ایس آئی ٹی سکیورٹی واپس لی جا رہی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ تھانوں کو ‘ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چوکس رہیں اور اپنے علاقے میں گواہوں کی حفاظت کریں۔’
ایس آئی ٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ سی آئی ایس ایف کو ہٹانے کا فیصلہ 9 نومبر 2023 کو لیا گیا تھا اور گواہوں کی سکیورٹی اور فساد سے متاثرہ علاقوں میں گشت کے لیے تعینات سی آئی ایس ایف کے 126 اہلکاروں کو ہٹا لیا گیا تھا۔ افسر نے مزید کہا، ‘باقی 134 فوجیوں کو 13 دسمبر کو واپس لے ہٹالیا گیا تھا۔’
جن آٹھ اضلاع جہاں گواہوں کو سکیورٹی فراہم کی گئی تھی وہ گودھرا (پنچ محل)، وڈودرا، آنند، احمد آباد شہر، ہمت نگر (سابر کانٹھ)، مہسانہ، مغربی ریلوے (وڈوڈرا) اور گاندھی نگر تھے۔ نو مقدمات میں گودھرا ٹرین جلانے کا معاملہ، نرودا پاٹیا قتل عام، نرودا گام قتل عام، گلبرگ سوسائٹی قتل عام، سردار پورہ قتل عام، دیپڑ دروازہ قتل عام، برطانوی شہریوں کا پرنتیج قتل، اور اوڈے قتل عام I اور اوڈے قتل عام II شامل تھے۔
ایس آئی ٹی کی سکیورٹی یونٹ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گواہوں کی سکیورٹی کو واپس لینے کا فیصلہ مرکزی اور ریاستی سطح پر جائزہ لینے کے بعد لیا گیا ہے۔ 20 سال تک سکیورٹی دی گئی اب معاملوں کی سماعت ختم ہو چکی ہے اور کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہیں۔
اہلکار نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ جائزہ میں خطرے کا کوئی اندیشہ نہیں پائے جانے کے بعد جج یاگنک کو دی گئی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔اہلکار نے کہا کہ نو ٹرائل ججوں میں سے صرف یاگنک کو ہی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی اور یہ 2013 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی 10 سال تک جاری رہی۔
رابطہ کرنے پر یاگنک نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اس سے قبل انڈین ایکسپریس نے 2015 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اگست 2012 میں نرودا پاٹیا قتل عام، جس میں 97 لوگ مارے گئے تھے، کیس میں فیصلہ سنانےکے بعد یاگنک کو ان کی کی رہائش گاہ پر 22 دھمکی آمیز خطوط اور ‘بلینک فون کال’ موصول ہوئے تھے۔
اپنے فیصلے میں جج یاگنک نے بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی سمیت 32 لوگوں کو مجرم قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے یاگنک کی سیکورٹی کو زیڈ پلس سے گھٹا کر وائی زمرہ میں کر دیا گیا تھا اور انہوں نے یہ معاملہ ریاستی حکومت کے ساتھ اٹھایا تھا۔
اب ایس آئی ٹی افسر نے کہا ہے کہ ذکیہ جعفری کی سکیورٹی میں سی آئی ایس ایف کے تین اہلکار ہیں، ‘لیکن انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران انہیں ہٹانے کو کہا تھا۔ وہ ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں اور اس کیس میں شکایت کنندہ تھیں، اس لیے انہیں سکیورٹی دی جارہی ہے۔’
مئی 2009 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے گواہوں کی حفاظت کی ذمہ داری ایس آئی ٹی کو دی تھی جس کی سربراہی اس وقت کے سی بی آئی ڈائریکٹر آر کے راگھون کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘یہ ہدایت دی کی جاتی ہے کہ اگر گواہ کے طور پر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے تو اسے عدالت میں آزادانہ طور پر بیان دینے کے لیے اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تحفظ کی ضرورت ہے، تو وہ ایس آئی ٹی کو درخواست دے اور ایس آئی ٹی اس میں ضروری احکامات جاری کرے گی اور تمام متعلقہ پہلوؤں کو مدنظر رکھے گہ اور یہ متعلقہ شخص کی سکیورٹی کو مناسب سمجھتی ہے تو پولیس افسران/ملازمین کو ہدایت کرے گی۔ اس سلسلے میں ایس آئی ٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ریاست کا فرض ہوگا۔’
ایس آئی ٹی کو یہ طے کرنے کے لیے نوڈل ایجنسی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا کہ کن گواہوں کو تحفظ کی ضرورت ہے اور انہیں کس قسم کی سیکورٹی فراہم کی جانی ہے۔