گلوکار اورسماجی کارکن زبین گرگ نے کہا کہ آسام کی سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی ہی کچھ ایسی ہے، جس کو بی جے پی پسند نہیں کرتی، اس لیے شہریت قانون کے ذریعے وہ ریاست کو ہندو -مسلم اورآسامی- بنگالی کے بیچ بانٹنا چاہتے ہیں۔
نئی دہلی : گلوکار زبین گرگ نے کہا ہے کہ آسام میں شہریت قانون کے خلاف ایک انقلاب شروع ہوا ہے اور لوگ اس غیرمناسب قانون کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور وہ دباؤ میں جھکیں گے نہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ سرکار شہریت ترمیم قانون کو لے کر جاری احتجاج اور مظاہرے کے مد نظر آسام میں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے۔
گینگسٹر فلم کے گانے ‘یا علی’ کے علاوہ ‘صبح صبح’ اور ‘جانے کیا چاہے من باورا’ جیسے گانے گا چکے گرگ نے کہا، ‘ہمارا مظاہرہ پر امن اورجمہوری رہا ہے ،اس کے باوجود سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں لوگ مارے گئے۔ یہ افسوس ناک ہے لیکن ہم -یہاں کے لوگ کسی بھی دباؤ میں نہیں جھکیں گے۔ ہم کسی بھی قیمت پر اس قانون کو قبول نہیں کریں گے، اسے جانا ہوگا۔’
انہوں نے آسام کے حالات کا موازنہ جموں وکشمیر سے کیا جہاں ریاست کو خصوصی درجہ دینے والےآرٹیکل 370 کے اکثراہتماموں کے ختم کرنے کے بعد کرفیو لگایا گیا تھا اور انٹرنیٹ خدمات پر روک لگا دی گئی تھی۔انہوں نےالزام گاتے ہوئے کہا، ‘سرکار ہم پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ آسام میں کبھی بھی ایسا کرفیو نہیں دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے انٹرنیٹ خدمات پر روک لگا دی۔ یہ تاناشاہی ہے۔ وہ آسام میں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔’
انہوں نے سوال کیا کہ کیا لوگ احمق ہیں اورشہریت قانون کے مدعے کو نہیں سمجھتے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ اس احتجاج کی اہم طاقت ہیں۔انہوں نے کہا، ‘میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ لوگ اس کے خلاف آ گئے ہیں اورانقلاب ابھی شروع ہی ہواہے۔ اس جد وجہدمیں سماج کے سبھی طبقے کے لوگ متحدہیں۔ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے، آسام سرکاری اتھارٹیوں کی یہ تاناشاہی برداشت نہیں کرےگا۔’
گوہاٹی میں کرفیو 11 دسمبر کی شام کو لگایا گیا تھا اور اس کو گزشتہ 20 دسمبر کو ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد ہٹا لیا گیا تھا، انٹرنیٹ خدمات پر اسی دن روک لگائی گئی تھی جس کو جمعہ کی صبح کو بحال کر دیا گیا۔گلوکار اور سماجی کارکن نے گزشتہ سال شہریت ترمیم قانون پر ایک گانا ‘راجنیتی نوکوربا بندھو’ لکھا تھا اور یہ اس مظاہرہ کا گانا بن گیا ہے۔
آل اس سٹوڈنٹس یونین یاآرٹسٹ کمیونٹی کے ذریعے منعقد مختلف مظاہروں میں گرگ نے اس قانون کی مذمت کی ہے۔ مظاہرین نے اس قانون کو ‘آئین مخالف،پولرائزیشن کرنے والا’ بتانے کے ساتھ ہی کہا کہ یہ ‘1985 کے آسام سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔’انہوں نے کہا، ‘سمجھوتہ صاف طور پر کہتا ہے کہ 24 مارچ 1971 کے بعد آئے سبھی غیر قانونی مہاجرین کو واپس بھیجا جائےگا۔ آسام کوئی ڈسٹبن نہیں ہو سکتا جہاں سیاسی مفاد کی تکمیل کے لیے غیرقانونی پناہ گزینوں کو ڈالا جائے۔’
گلوکار کے مطابق، یہ لڑائی آسامی لوگوں کے ذریعے لڑا جا رہا ہے اور اس میں سبھی عقائد اور ثقافت والی کمیونٹی شامل ہیں۔ اس میں آسامی بولنے والے سبھی شامل ہوئے ہیں جس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بنگالی، مارواڑی، آدیواسی اور کئی دوسرے شامل ہیں۔’انہوں نے کہا، ‘آسام کی سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی ہی کچھ ایسی ہے جس کوبی جے پی پسند نہیں کرتی، اس لیے شہریت ترمیم کے ذریعے وہ ریاست کو ہندو مسلم اور آسامی بنگالی کے بیچ بانٹنا چاہتے ہیں۔’ لیکن ہم آسام کو کسی کی تجربہ گاہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔
گرگ نے کہا کہ آسام کو 2021 میں ریاستی انتخاب سے پہلے ایک سیاسی آپشن کی ضرورت ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)