چالیس فیصد سے زیادہ سرکاری ٹینڈر ’میک ان انڈیا‘ کے اصولوں کی تعمیل نہیں کر سکے: رپورٹ

02:40 PM Jan 15, 2025 | دی وائر اسٹاف

اکتوبر 2021 اور فروری 2023 کے درمیان مرکزی حکومت نے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کے 1750 ٹینڈر جاری کیے، جن میں سے 936 ٹینڈر ‘میک ان انڈیا’ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے۔ لفٹ، سی سی ٹی وی، طبی آلات اور کمپیوٹر میں غیر ملکی برانڈز کو ترجیح دینے کے معاملے سامنے آئے۔

وزیر اعظم نریندر مودی 25 ستمبر 2014 کو ‘میک ان انڈیا’ کے لوگو کی نقاب کشائی کرتے ہوئے۔ (تصویر: وزیراعظم کا دفتر/وکی میڈیا کامنز)

نئی دہلی: سرکاری خریداری میں میک ان انڈیا 2017 کے قوانین کو لاگو کرنا چیلنجنگ ثابت ہو رہا ہے۔  پبلک پروکیورمنٹ (پریفرنس ٹو میک ان انڈیا) آرڈر، 2017 کے تحت قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور گھریلو سپلائرز کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے 3500 سے زیادہ  ہائی ویلیو ٹینڈرز ( جس کی مالیت 64,000 کروڑ روپے ہے ) میں سے 40فیصد ٹینڈرز غیر تعمیل شدہ پائے گئے۔پبلک ۔ یہ انکشاف ڈپارٹمنٹ آف انڈسٹریل پالیسی اینڈ انٹرنل ٹریڈ (ڈی پی آئی آئی ٹی ) نے کیا ہے ۔

خلاف ورزیوں اور امتیازی سلوک کے معاملے

کئی ٹینڈرز میں غیر ملکی برانڈز جیسےسسکو، ایچ پی، ڈیل ، اوٹس ،کونے وغیرہ کا ذکر کیا گیا ، جنہوں نے ملکی کمپنیوں کو مقابلے سے باہر کر دیا۔ ضرورت سے زیادہ ٹرن اوور یا پیداواری صلاحیت کی شرائط کو ٹینڈرز میں شامل کیا گیا جس سے گھریلو سپلائرز محرو م ہوئے۔

لفٹ سے لے کر سی سی ٹی وی کیمروں، طبی آلات اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تک ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ محکمے غیر ملکی برانڈز کا رخ کر رہے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ گھریلو برانڈز کے مقابلے معاشی طور پر زیادہ منافع بخش اور معیار میں بہتر ہیں۔

کئی محکموں نے یہ بھی ذکر کیاکہ ان کے ٹینڈرز میں جن غیر ملکی برانڈز کا ذکر کیا گیا ہے ان کے پروڈکشن پلانٹس ہندوستان میں ہیں۔

فروری 2023 میں ڈی پی آئی آئی ٹی نے پایا کہ اکتوبر 2021 سے مرکزی حکومت کی خریداری یونٹس کی طرف سے جاری کردہ 1750 ہائی ویلیو ٹینڈر (خدمات کے لیے 1 کروڑ روپے سے زیادہ، سامان کے لیے 50 کروڑ روپے سے زیادہ، اور کاموں کے لیے 100 کروڑ روپے سے زیادہ)میں 936 ٹینڈر، جن کی کل مالیت 53355 کروڑ روپے تھی، 2017 کے قواعد کے مطابق نہیں تھے۔

اعدادوشمار اور شکایات

سال 2020 میں، 2017 کے آرڈر کو مزید سخت کر دیا گیا۔ اس میں درجہ بندی کا نظام شامل کیا گیا، جس کے تحت:

اگر خاطرخواہ مقامی صلاحیت اور مقابلہ ہو تو، محکموں کو صرف ان مقامی سپلائرز سے خریداری کرنی چاہیے جن کی مصنوعات میں 50فیصد سے زیادہ مقامی مواد موجود ہو۔

اگر ایسا نہیں ہے تو، 20-50فیصد مقامی مواد والے سپلائرز سے خریداری بھی کی جا سکتی ہے۔

جن کی مصنوعات میں 20فیصد سے کم مقامی مواد ہوتا ہے انہیں ‘غیر مقامی سپلائرز’ کے طور پر درجہ بندی کیا گیا تھا اور انہیں صرف خاص معاملات (جیسے عالمی ٹینڈرز) میں اجازت دی گئی تھی۔

پچھلے سال نومبر تک، میک ان انڈیا پہل   کی 10 ویں سالگرہ کے بعد 2017 کے آرڈر کی تعمیل نہ کرنے والے اعلیٰ قیمت والے ٹینڈرز کی تعداد بڑھ کر 1502 ہو گئی ۔ یہ جانچے گئے 3590 ٹینڈروں کا 42فیصد تھا، جس کی کل قیمت 63911 کروڑ روپے تھی۔

سال 2017 کے آرڈر کی دفعات کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے 982 ٹینڈرز (65فیصد) غیر تعمیل شدہ تھے۔

غیر ملکی برانڈز کے ذکر کی وجہ سے 450 ٹینڈرز (30فید) غیر تعمیل شدہ پائے گئے۔

اسی طرح 152 ٹینڈرز (10فیصد) ضرورت سے زیادہ ٹرن اوور کی شرائط کی وجہ سے غیر تعمیلی تھے۔

سال 2019 میں وزیر اعظم کے دفتر کے پرنسپل سکریٹری اور ڈی پی آئی آئی ٹی سکریٹری نے وزارتوں کے سینئر عہدیداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی پرچیزنگ ایجنسیوں کو اس طرح کے طریقوں سے بچنے کے لیے مشورہ دیں۔